تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     27-03-2013

خوشی سے مر نہ جاتے ، اگر اعتبار ہوتا

وہی گلابی وعدے ، وہی زورِ خطابت ۔ 65سال کے طویل اور تلخ تجربات سے کچھ بھی سیاسی رہنمائوں نے سیکھا نہیں ۔ بیمار الیکشن کمشن ، بھاڑے کے وہی دانشور اور وہی شعبدہ بازی ۔ ؎ ترے وعدے پر جیے ہم ،تو یہ جان جھوٹ جانا کہ خوشی سے مر نہ جاتے ،اگر اعتبار ہوتا مانسہرہ میں میاں محمد نواز شریف کا جلسہ ء عام یقینا بہت بڑا تھا۔ اس کے باوجود کہ میڈیا کو زرو مال سے ہموار کیا گیا ہے ، اخبار نویسوں کی اکثریت یہ کہتی ہے کہ یہ اس شہر کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع تھا تو یہ بات بھی مان لینی چاہیے ؛البتہ جو سوال انہوںنے اُٹھایا ، وہ مضحکہ خیزنہیں تو حیران کن ضرور ہے ۔ انہوںنے پوچھا کہ کیا وہ ملک کے غدّار ہیں ؟ کس نے انہیں غدّار کہا ؟ دوسروں سے نہیں ، یہ سوال انہیں خود اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے کہ کیا انہوںنے وطن سے وفا کے تقاضے پورے کیے ؟ کیا انہوںنے اپنے خاندان کا تقریباً تمام سرمایہ بیرونِ ملک منتقل کر کے ملک کے مستقبل پر اظہارِ عدم اعتماد نہیں کیا؟ ایک اندازے کے مطابق جو تین ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ اگر وہ ملک میں کھپتا تو کم از کم تین لاکھ ملازمتیں پیدا ہوتیں ۔ جب نواز شریف ایسے رہنما اپنا سرمایہ سمندر پار منتقل کریں تو نتیجہ کیا ہوگا؟ ظاہر ہے کہ بھگدڑ مچے گی ۔ ایک اندازے کے مطابق ، گزشتہ ساڑھے پانچ برس کے دوران ، اور اس کا آغاز محترمہ بے نظیر بھٹو کے بہیمانہ قتل سے ہوتا ہے ، تقریباً ایک سو بلین ڈالربیرونِ ملک منتقل ہوئے ۔ صدر زرداری یقینا سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں مگر نواز شریف کیا کم ہیں ، قائد اعظم ؒکی مسلم لیگ کے سربراہ اور حبّ وطن کے سب سے بڑے دعویدار۔ زی ٹی وی کے مالک کا نام میں بھولتا ہوں ۔ پچھلے دنوں پاکستان کے دورے پر وہ تشریف لائے تو صدر اور وزیر اعظم کے علاوہ میاں محمد نواز شریف سے بھی ملاقات کی ۔ چھوٹتے ہی انہوںنے اس سے پوچھا : آپ کے ادارے کی آمدن کیا ہے ؟ پلٹ کر اس نے اپنے سیکرٹری کی طرف دیکھا تو اس نے بتایا کہ تین بلین ڈالرسالانہ کا لین دین ۔ \"تین بلین ڈالر؟ \"میاں صاحب کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا ۔ فوراً ہی انہوںنے سوال کیا کہ ادارے کی کل مالیّت کیا ہوگی ؟ ’’پندرہ بلین ڈالر‘‘بھارتی شہری نے جواب دیا۔بعد میں وہ اظہارِ افسوس کرتا رہا کہ جس لیڈرکا ملک ایسے پیچ درپیچ بحران سے دوچار ہے ، اس کی دلچسپی کا موضوع کیا ہے ؟ تین ماہ ہوتے ہیں ، ایک بھارتی،کپتان کا مہمان تھا۔ بھارت کے سب سے بڑے صوبے بہار کے وزیرِ اعلیٰ نتیش کمار۔خان نے اپنی پارٹی کے اہم لیڈروں کو جمع کیا ۔ ان سے کہاکہ وہ نتیش کمار کی بات غور سے سنیں اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ اس کی کامیابی کا راز کیا ہے ۔حیران کن کامیابیاں حاصل کرنے والے لیڈر نے اپنا دل کھول کر رکھ دیا۔ چھ سال قبل، جب اس نے اقتدار سنبھالا تو بہار کا بجٹ 4000 کروڑ روپے تھا ، جو اب 28000کروڑ ہے ۔ ایک ایسے صوبے کی معیشت میں یہ برق رفتار ترقی کیونکر ممکن ہوئی ، جو لاقانونیت کی تصویر تھا۔ ان کا جواب یہ تھا : اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد انہوںنے فیصلہ کیا کہ امن و امان کا قیام اور نظامِ انصاف کی تعمیر اوّلین ترجیح ہے ۔ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سمیت ، عدالتی افسروں کو انہوںنے جمع کیا ، اعلیٰ سرکاری افسروں اورپارٹی رہنمائوں کو ۔ تین دن تک وہ بحث کرتے رہے کہ عام آدمی کو انصاف کی فراہمی کس طرح یقینی بنائی جائے ۔ پولیس افسروں کوپابند کیا کہ خواہ ان میں سے کوئی اب کلکتہ جا پہنچا ہو ، گواہی کے لیے بہرحال اسے عدالت آنا ہوگا۔ چیف جسٹس نے یقینی بنایا کہ مقدمات کی سماعت ممکنہ حد تک تیزی سے کی جائے ۔ سفارش کی بجائے ، پولیس میں تقرریاں میرٹ پر کی گئیں ۔ انہیں بتایا گیا کہ قانون کی حدود میں وہ آزاد ہیں ۔جلد ہی فضا بدلنے لگی ۔ وزراء،ارکانِ اسمبلی اور سرکاری افسروں سے ان کے اثاثوں کی تفصیلات طلب کر کے ویب سائٹ پرڈال دی گئیں ۔انہیں بتا دیا گیا کہ سفارش کا اگر وہ ارتکاب فرمائیں گے تو نتیجہ بھگتنا ہوگا۔ عوام سے کہاگیا کہ ان کے بارے میں مطلع کریں ۔ نام صیغہء راز میں رہے گا۔ سادہ سے ، گول مٹول ، گندم گوں لیڈر نے بتایا کہ پوری سختی سے قانون نافذ کر دیا گیا ۔ تیزی سے جرائم کم اور معیشت فروغ پانے لگی ۔ حال یہ تھاکہ ماروتی کار پر پٹنہ کے اندرا گاندھی پارک میں سیر کے لیے جانے والے ، اسے بگاڑ لیا کرتے کہ چھین نہ لی جائے ۔ پارکنگ میں اب نئی مرسڈیز کاریں کھڑی ہوتی ہیں ۔ افسروں کو بتا دیا گیا کہ پندرہ دن کے اندر کام نمٹا دیاجائے گا۔ اگر نہیں توسائل نگرانی پر مامور کمیٹی کو درخواست دے گا ۔ کام توہو گا ہی ، متعلقہ افسر کی جواب دہی بھی ہوگی ۔ تاخیر کا جو سبب بھی ہوگا، ریکارڈ کا حصہ بنے گا۔ 1985ء سے اب تک پنجاب میں پانچ بار اقتدار میاں محمدنواز شریف کے ہاتھ میں رہا ۔ دو بار وہ خود وزیر اعلیٰ رہے ، ایک بار’’درویش‘‘ غلام حیدر وائیں اور دو بار شہباز شریف۔ نتیش کما رکو تو صرف چھ برس ملے ، شریف خاندان نے پندرہ برس کی اس طویل مدت میں کون سا کارنامہ انجام دیا؟ پولیس اور پٹوار کی کتنی اصلاح ؟ سرکاری دفاتر میں بے حسی اور رشوت ستانی میں کتنی کمی ؟ فارسی میں کہتے ہیں ’خوئے بدرا بہانہ بسیار‘نیت اگر درست نہ ہو تو بہانے بہت۔ میاں صاحب کا فرمان یہ ہے کہ خدمت کے لیے انہیں پورے پانچ سال کی مہلت کبھی نہ ملی ۔ خدمت؟ آدمی اپنی اولین ترجیح کو عزیز رکھتا ہے ۔یہ ذاتی کاروبار تھا اور اس کارِ خیر میں کبھی کسی کوتاہی کے وہ مرتکب نہ ہوئے ۔ مارشل لا اور خفیہ ایجنسیوںکی گودمیں وہ پروان چڑھے تھے ۔ سرکاری افسروں کو رام کرنے کا ساٹھ سالہ تجربہ ؛چنانچہ دن دگنی اور رات چوگنی ترقی فرما تے رہے ۔ میڈیا نے مزاحمت کی کوشش کی تو اس کاگلا گھونٹ دیا یا اشتہارات کی بارش کر دی ۔ لاہور کے ہر قابلِ ذکر اخبار نویس کو خرید لیا یا خوف زدہ کیا اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے ۔ جو ڈھب پرنہ آئے ، ان کی کردار کشی ۔ ہر بار فوج سے تصادم، عدلیہ پر چڑھائی ۔ ججوں کو خریدا، جنرلوںکو خریدنے کی کوشش کرتے رہے ۔ پروفیسر غفور احمد ،میاں صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ایک عدد کمرشل پلاٹ عنایت کرنے پہ وہ مصر تھے ۔ زچ ہو کر وہ واپس آگئے اور قاضی حسین احمد سے کہاکہ وہ آئندہ اس شخص سے کبھی نہ ملیں گے ۔ مسلّح افواج سمیت ، پوری قوم کی تائید سے ایٹمی دھماکے انہوںنے کیے تھے ۔ایٹمی پروگرام کے بانی ذوالفقار علی بھٹو اور معمارِ ثانی جنرل محمد ضیا ء الحق سے زیادہ اس کی داد وہ طلب کرتے ہیں ۔ 270کلومیٹر کی بجائے، دوگنے نرخوں پر 400کلومیٹر طویل موٹر وے بنائی ۔ زرداری عہد کے سوا، ان کے دورِ اقتدار میں معاشی فروغ کی شرح سب سے کم کیوں رہی ؟ وہی گلابی وعدے ، وہی زورِ خطابت ۔ 65سال کے طویل اور تلخ تجربات سے کچھ بھی سیاسی رہنمائوں نے سیکھا نہیں ۔ بیمار الیکشن کمیشن ، بھاڑے کے وہی دانشور اور وہی شعبدہ بازی ۔ ؎ ترے وعدے پر جیے ہم ،تو یہ جان جھوٹ جانا کہ خوشی سے مر نہ جاتے ،اگر اعتبار ہوتا جی نہیں ، پاکستان کو ایک نیا لیڈر درکا رہے !

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved