تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     30-05-2018

قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے

راتوں رات کسی بڑی تبدیلی کا خواب دیکھنے والے ایسی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں‘ جس سے عقل کا کوئی تعلق نہیں۔ ہر بڑی تبدیلی بہت سی چھوٹی تبدیلیوں سے مل کر بنتی ہے۔ قطرے سے قطرہ ملتا ہے‘ تو دریا بنتا ہے۔ ایسا ہی معاملہ مجموعی طور پر پوری زندگی کا بھی ہے۔ لمحے سے لمحہ جُڑتا ہے اور زندگی بنتی چلی جاتی ہے۔ ہم کسی بھی بڑی تبدیلی کو چند مراحل کے ذریعے یقینی بناتے ہیں۔ اگر کسی ادارے‘ برادری، معاشرے یا ملک پر کوئی فیصلہ مسلط کردیا جائے‘ تو اسے تبدیلی واقع ہونا نہیں کہا جاسکتا۔ تبدیلی ایک خاص عمل کے ذریعے رونما ہوتی ہے اور یہ عمل کئی مراحل پر مشتمل ہوتا ہے۔ 
اگر آپ کوئی بڑی تبدیلی یقینی بنانا چاہتے ہیں‘ تو یومیہ بنیاد پر سیکھنے کا عمل شروع کرنا ہوگا۔ روزانہ کچھ نہ کچھ پڑھنا اور سیکھنا زندگی میں معنویت پیدا کرتا ہے اور انسان میں اعتماد کا گراف بھی بلند ہوتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ باقاعدگی سے ‘یعنی یومیہ بنیاد پر کچھ نہ کچھ سیکھنے کا عمل ‘انسان کو بھرپور طمانیت سے ہم کنار کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں وہ زیادہ پرُجوش اور پرعزم ہوکر کام کرنے پر مائل ہوتا ہے۔ سیکھنے کا عمل معتبر طریقے سے اُسی وقت جاری رہتا ہے‘ جب انسان یومیہ بنیاد پر کچھ نہ کچھ سیکھنے کی تیاری کرے اور اس تیاری کے مطابق اپنی اپ گریڈیشن جاری رکھے۔ 
سیکھنا آسان عمل نہیں۔ اس کے لیے بہت کچھ ''ان سیکھا‘‘ بھی کرنا پڑتا ہے‘ یعنی ذہن سے بہت کچھ نکالنا بھی لازم ٹھہرتا ہے۔ ہمارے ذہن میں بہت کچھ بھرا ہوا ہے۔ ماحول ہمارے ذہن میں خدا جانے کیا کیا ٹھونستا رہتا ہے۔ بہت سی غیر متعلق باتیں ہمارے ذہن کو الجھا دیتی ہیں۔ ایسے میں ہم چاہتے ہوئے بھی معاملات کو درست نہیں کر پاتے۔ ذہن کو غیر متعلق باتوں سے بچانے کا ایک اچھا طریقہ یہ ہے کہ ہم مطالعے اور مشاہدے کے معاملے میں محتاط رہیں‘ جن مضامین سے ہمارا براہ ِراست کوئی بھی تعلق نہ بنتا ہو‘ اُنہیں پڑھنے سے گریز کرنا چاہیے۔ ٹی وی پر جو کچھ بھی پیش کیا جارہا ہو‘ وہ سب کچھ دیکھنا لازم نہیں۔ ہمیں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے صرف وہی مواد لینا چاہیے ‘جو ہماری دلچسپی کے مطابق یا ہمارے کام کا ہو۔ ہر معاملے میں خواہ مخواہ دلچسپی لینا ‘تو ایسا ہی ہے کہ انسان دستر خوان پر پیش کی جانے والی ہر چیز کھائے۔ ہمیں صرف وہی چیزیں کھانی چاہئیں ‘جو ہمیں پسند ہوں اور آسانی سے ہضم بھی ہوسکیں۔ 
اگر ہم ہر غیر متعلق چیز کو ذہن میں جگہ دیں ‘تو کام کی باتیں اوّل تو آسانی سے داخل نہیں ہوں گی اور اگر ہوں گی بھی تو اُنہیں ڈھنگ سے بروئے کار لانا انتہائی دشوار ثابت ہوگا۔ یومیہ بنیاد پر سیکھنا ایک باضابطہ عمل‘ بلکہ مشق ہے‘ جس کے لیے خود کو ذہنی طور پر تیار کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے معمولات میں بہت کچھ ایسا ہوتا ہے‘ جو ہمیں کچھ نیا سیکھنے سے دور رکھتا ہے۔ سیکھنے کا عمل توجہ بھی چاہتا ہے اور وقت کی قربانی بھی۔ ساتھ ہی ساتھ بہت سی باتیں ترک بھی کرنا پڑتی ہیں۔ سیکھنے سے عام طور پر لوگ اسی لیے بھاگتے ہیں کہ اُنہیں اندازہ ہوتا ہے کہ اس راہ میں کتنی رکاوٹیں آئیں گی اور کتنے کانٹوں سے دامن بچانا ہوگا۔ سیکھنے کا عمل خواہ کسی سطح کا ہو‘ انسان کی توانائی نچوڑ لیتا ہے۔ ہر معاشرے میں سیکھنے کی طرف مائل ہونے والے لوگ چند ہوتے ہیں۔ 
خیر‘ سیکھنے سے یکسر گریز کا آپشن نہیں۔ زندگی کو اپ گریڈ کرنا ہے‘ تو سیکھنے پر مائل ہونا ہی پڑے گا۔ جب ہم یومیہ بنیاد پر کچھ نہ کچھ سیکھنے کا ذہن بناتے ہیں ‘تب زندگی کا رخ تبدیل ہونے کا عمل شروع ہوتا ہے۔ بہت سی چھوٹی چھوٹی تبدیلیاں مل کر ایک بڑی تبدیلی کو جنم دیتی ہیں۔ یومیہ بنیاد پر سیکھنے کا عمل ہماری زندگی میں معنویت کی سطح بلند کرتا جاتا ہے۔ یہی عمل ہماری نجی اور پیشہ وارانہ زندگی میں استحکام کا گراف بھی بلند کرتا ہے۔ جب ہم اپنی نجی اور پیشہ وارانہ زندگی کو زیادہ بارآور بنانے پر مائل ہوتے ہیں‘ تب معاملات درستی کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں۔ ہمارے معمولات میں پائی جانے والی خرابیاں سیکھنے کے عمل کے نتیجے میں کمزور پڑتی جاتی ہیں اور پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ خوبیاں پورے وجود پر محیط ہوتی جاتی ہیں۔ یوں انسان زیادہ بار آور ثابت ہونے لگتا ہے۔ 
ہم زندگی بھر اپنی محنت کی کمائی کسی بھی مشکل وقت کے لیے بچانے اور سرمایہ کاری کرنے کی فکر میں غلطاں رہتے ہیں۔ ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ کسی بھی وقت کوئی بھی ناگہانی صورتِ حال پیدا ہوسکتی ہے‘ اس لیے تیار رہنا پڑے گا۔ سرمایہ کاری صرف دولت سے نہیں ہوتی۔ انسان زیادہ سیکھنے کی صورت میں بھی سرمایہ کاری کرسکتا ہے۔ اپنی شخصیت کو زیادہ طاقتور اور مستحکم بنانا بھی سرمایہ کاری ہی کی ایک شکل ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ دولت سے کئی قدم آگے جاکر شخصیت کی اپ گریڈیشن سرمایہ کاری کی قابلِ رشک شکل ہے۔ دنیا بھر میں ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ بہتر مستقبل کے لیے انسان کو دولت بچانے کے ساتھ ساتھ اپنی شخصیت کو زیادہ بامعنی بنانے ‘یعنی اپ گریڈیشن پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ بہترین سرمایہ کاری‘ یہی تو ہے کہ ہم زیادہ علم رکھتے ہوں‘ زیادہ ہنر مند ہوں اور اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے معاملے میں زیادہ مستعد اور مثبت ہوں۔ یہ زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ انسان کو اگر بھرپور کامیابی یقینی بنانی ہے‘ تو مسلسل سیکھتے رہنا پڑے گا۔ سیکھنے ہی سے زندگی کا رخ تبدیل ہوتا ہے‘ فکر و عمل میں استحکام آتا ہے اور انسان اپنی مرضی کی ڈگر پر گامزن ہونے کے قابل ہو پاتا ہے۔ 
ہم میں سے ہر ایک کو اپنا اور تمام متعلقین کا مستقبل بہتر بنانے کے حوالے سے باشعور ہونے کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ اس کی کئی صورتیں ہیں۔ زیادہ پڑھنا لکھنا اور ہنر مند ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ ہم اپنے آپ سے اور اپنے آنے والے زمانے سے مخلص ہیں۔ زیادہ سے زیادہ سیکھنا اور اپنی صلاحیتوں کو اپ گریڈ کرنا مستقبل کے لیے عمدہ ترین سرمایہ کاری ہے۔ جو سیکھتے رہتے ہیں وہ زیادہ بامقصد زندگی بسر کرتے ہیں۔ بامقصد زندگی وہ ہے ‘ جو آپ کے لیے ہی نہیں بلکہ دوسروں کے لیے بھی مفید ہو۔ اس دنیا میں وہی لوگ حقیقی کامیابی سے ہم کنار ہو پاتے ہیں ‘ جو سیکھنے کا عمل کسی بھی مرحلے پر روکتے ہیں‘ نہ ترک کرتے ہیں۔ اور سیکھنے کے عمل کو آسان بنانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ یومیہ بنیاد پر کچھ نہ کچھ سیکھتے رہنے کو زندگی کا سب سے بڑا‘ نمایاں معمول بنایا جائے۔ اس طریق پر عمل کرنے سے انسان بہت کچھ سیکھتا جاتا ہے اور اُسے خود بھی اس کا احساس نہیں ہو پاتا۔ سیکھنے کا زیادہ مزا اسی میں مضمر ہے کہ انسان بہت کچھ سیکھ بھی لے اور اُسے احساس بھی نہ ہو پائے۔ ایسے میں ذہن پر زیادہ بوجھ بھی نہیں پڑتا۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved