تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     31-05-2018

جمہوریت کے پانچ سال

راہزنوں اور اوباشوں سے گاہے الجھتی گاہے بچتی، ڈری اور سہمی جمہوریت نے ایک اور سنگِ میل عبور کر لیا۔ ایک منتخب حکومت کے پانچ سال مکمل ہوئے۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں۔
عالم انسانیت کے لیے جمہوریت کا یہ احسان کچھ کم نہیں کہ اس نے پرامن انتقالِ اقتدار کے لیے ایک راستہ کھولا ہے۔ انسانی تاریخ میں بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری اور فساد اس لیے برپا ہوا کہ ایک گروہ سے دوسرے گروہ کو اقتدار کی منتقلی کا کوئی فارمولا موجود نہیں تھا۔ اس باب میں طاقت ہی ہمیشہ فیصلہ کن کردار ادا کرتی تھی۔ جمہوریت نے ایک راستہ دکھایا اور اس پر امن کی متلاشی دنیا نے اجماع کر لیا۔ اب ہمارے ہاں بھی اس کی بنیادیں پختہ ہو رہی ہیں۔ 2002ء کے بعد، اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان میں انتخابات کا عمل تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ مسائل اپنی جگہ مگر اس غیر مثالی جمہوریت کی یہ برکت بھی کچھ کم نہیں کہ اب حکومت کی تبدیلی کا ہر متبادل راستہ بند ہو چکا، سوائے اس راستے کے جسے عوام کی رائے متعین کرتی ہے۔
اقتدار انسانی تاریخ میں ہمیشہ خواص کو ملتا رہا ہے۔ اس کے لیے اپنا استحقاق ثابت کرنا پڑتا ہے۔ یہ صرف بادشاہت میں ممکن ہے کہ 'پدرم سلطان بود‘ کا فارمولا اختیار کر لیا جائے۔ ایسا کم ہی ہوا ہے کہ اقتدار کی دیوی کسی ایسے پر مہربان ہوئی ہو جو اس کے لیے اپنی صلاحیت کا مظاہرہ نہیں کرتا۔ اس پر البتہ اختلاف رہا ہے کہ یہ کون سی صلاحیت ہے جو استحقاق کو ثابت کرتی ہے۔ کسی نے علم اور فلسفے کو یہ درجہ دیا۔ کسی کے نزدیک وراثت سے یہ حق ثابت ہوتا ہے۔ کسی نے عصبیت کو استحقاق قرار دیا۔ دورِ جدید میں یہ 'صلاحیت‘ عامۃ الناس کا اعتماد ہے۔ یہ اب تک کا سب سے مؤثر اور بہتر معیار ہے۔ اس سے ایک طرف تہذیب نے انفرادی سے اجتماعی دانش کی طرف پیش قدمی کی ہے اور دوسری طرف ہر آدمی کے لیے یہ موقع پیدا ہوا کہ اگر وہ عوام کا اعتماد حاصل کر لے تو شریکِ اقتدار ہو سکتا ہے؛ تاہم جمہوریت کا یہ احسان سب سے زیادہ ہے کہ اس نے انسانی معاشروں میں فساد کا ایک بڑا دروازہ بند کر دیا۔
جمہوریت کا دوسرا احسان احتساب ہے۔ یہ جمہوریت ہی کی برکت ہے کہ بااثرلوگ اب عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر، عدالتوں کے فیصلوں پر بھی اجتماعی دانش اپنا فیصلہ سنانے میں آزاد ہے۔ گویا غیر رسمی مفہوم میں ایک عوامی عدالت موجود ہے جو یہ فیصلہ کر رہی ہے کہ کون لوگ عوام کے حق میں بہتر ہیں اور کون وہ ہیں اپنی امانتیں، جن کے سپرد نہیں کی جا سکتیں۔ انتخابات ہونے والے ہیں۔ اقتدار کے خواہش مند عوام کے سامنے پیش ہو رہے ہیں۔ انہیں بتانا ہے کہ گزرے کل میں، انہوں نے عوام کے لیے کیا کیا۔ عدالتیں، میڈیا اور عوام سب احتساب کر رہے ہیں اور عوامی رائے نکھر رہی ہے۔
جمہوریت کا تیسرا احسان یہ ہے کہ اس نے اب کارکردگی کو رد و قبول کا معیار بنا دیا ہے۔ گزشتہ پانچ سال میں ہر جماعت کسی نہ کسی طرح اقتدار کا حصہ رہی ہے۔ اس نے اب عوام کو بتانا ہے کہ ان برسوں میں اس نے کیا کیا۔ آپ نے ایسا کون سا کارنامہ سرانجام دیا ہے کہ آئندہ پانچ سال کے لیے بھی آپ پر بھروسہ کیا جائے۔ صحت، تعلیم اور امن و امان، یہ بنیادی سماجی ضروریات ہیں۔ یہ صوبوں کی ذمہ داری ہے۔ عام طور پر عوام انہی دائروں میں حکومتی کارکردگی کو ماپتے ہیں۔ ن لیگ کو بتانا ہو گا کہ ان تینوں شعبوں میں پنجاب میں کیا تبدیلی آئی ہے؟ تحریکِ انصاف کو حساب دینا ہو گا کہ کے پی میں، ان حوالوں سے کیا انقلاب آیا ہے؟ تحریکِ انصاف کے ساتھ جماعت اسلامی کو بھی، کیونکہ وہ بھی پانچ سال اس اقتدار کا حصہ رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کو دکھانا ہے کہ یہ ہیں وہ کارہائے نمایاں جو انہوں نے سندھ میں سرانجام دیے۔
موجودہ سیاسی جماعتوں میں نون لیگ واحد جماعت ہے جو یہ کہہ رہی ہے کہ کارکردگی کو ووٹ کا معیار بنایا جائے۔ کوئی دوسری جماعت کارکردگی کا اگر نام لیتی بھی ہے تو ضمناً۔ تحریکِ انصاف کا اصرار ہے کہ نون لیگ کو ووٹ نہ دیا جائے کیونکہ وہ کرپٹ لوگوں کا گروہ ہے۔ جب لوگ انہیں ووٹ نہیں دیں گے تو پھر ظاہر ہے کہ عوام کا دوسرا انتخاب تحریکِ انصاف ہو گی۔ تحریکِ انصاف اور پیپلز پارٹی کا مقدمہ اپنی خوبیوں پر نہیں، دوسروں کی خامیوں پر کھڑا ہے۔ 
نواز شریف یا شہباز شریف جب کے پی یا سندھ میں جاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہمیں ووٹ دیں‘ ہم پشاور کو لاہور بنا دیں گے۔ یا ہم کراچی کو لاہور بنا دیں گے۔ میں نے عمران خان کی زبان سے کبھی نہیں سنا کہ انہوں نے پنجاب سے یہ اپیل کی ہو کہ ہمیں ووٹ دو، ہم لاہور کو پشاور بنا دیں گے یا سندھ میں کہا ہو کہ کراچی والو ہمیں ووٹ دو، ہم کراچی کو پشاور بنا دیں گے۔ کیا وہ یہ کہنے کا حوصلہ رکھتے ہیں؟ کیا وہ پشاور یا کسی دوسرے شہر کی مثال دے سکتے ہیں؟ اسی طرح میں نے زرداری صاحب سے نہیں سنا کہ انہوں نے لاہور یا راولپنڈی کو کراچی یا نواب شاہ بنانے کا وعدہ کیا ہو۔
جمہوریت کی برکت سے، عوام کھلی آنکھوںکے ساتھ سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ کچھ لوگ اگرچہ اب بھی چاہتے ہیں کہ عوام کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی جائے‘ مگر اب یہ آسان نہیں رہا۔ میڈیا کے ذریعے 'پوسٹ ٹروتھ‘ کو پھیلایا جا رہا ہے مگر ٹروتھ بھی اپنی جگہ بنا رہا ہے۔ پلڈاٹ کا حالیہ تجزیہ سب کے لیے چشم کشا ہے۔ لوگ جانتے ہیں کہ ریاستی ادارے کیا کر رہے ہیں۔ نجی ٹی وی چینل کیسے اور کس کے اشارے پر ' پوسٹ ٹروتھ‘ پھیلا رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کچھ لوگ اس جمہوریت سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ساتھ ہی جمہوریت کو گالی بھی دے رہے ہیں۔ یہ حوصلہ صرف جمہوریت میں ہے کہ وہ خود کو گالی دینے پر بھی ناراض نہیں ہوتی۔ 
اگر پاکستان میں پرامن انتقالِ اقتدار ہونے لگے اور لوگوں کا یہ حق تسلیم کر لیا جائے کہ وہ اپنی بات پوری آزادی کے ساتھ کہیں تو پاکستان کے پچاس فی صد مسائل حل ہو جائیں۔ اس سماج میں اتنی قوت ہے کہ یہ اپنے بل بوتے پر زندگی گزار سکتا ہے۔
گزشتہ پانچ سالوں میں جمہوریت کو نقصان پہچانے کی بہت کوشش ہوئی۔ اسے اپنوں نے برباد کیا اور غیروں سے اس کے سوا امید ہی کیا تھی کہ اِس کے سر سے سرِ بازار دوپٹہ کھینچ لیں۔ اس کے باوجود جمہوریت نے پیش قدمی جاری رکھی۔ آج ہم اللہ کے فضل سے ایک نئے انتخابات کی دہلیز پر قدم رکھ رہے ہیں۔ پاکستان انشااللہ استحکام کے راستے پر آگے بڑھے گا، قطع نظر اس کے کہ کون کامیاب ہوتا ہے۔ جمہوری قدریں مضبوط ہوں تو سیاسی نظام ٹرمپ جیسی مجہول شخصیت کا بوجھ بھی اٹھا لیتا ہے۔
جمہوریت نے اس سب کے علاوہ بھی ان پانچ سالوں میں بہت کچھ دیا۔دس ہزار میگاواٹ سے زیادہ بجلی دی۔ پہلی بار طلب اور رسد کا فرق ختم ہوا۔ اب ترسیل کا نظام اصلاح طلب ہے۔ اس جمہوریت نے شاندار انفراسٹرکچر دیا جس کے بغیر دنیا میں کہیں ترقی کا کوئی تصور بالفعل موجود نہیں۔ اس جمہوریت نے دہشت گردی کے خلاف قوم کو یک سو کیا۔ جب ہماری بہادر فوج کے جوان اپنی جانوں پر کھیل کر یہ معرکہ لڑ رہے تھے تو پوری قوم اور حکومت ان کی پشت پر کھڑی تھی۔ فوج ہمارا اپنا ادارہ ہے۔ اسے جوان اور وسائل، دونوں یہ قوم فراہم کرتی ہے۔ یہ نہ جانے کون ہیں جو وردی پہنا کر ان جوانوں کو اپنے خاندان اور قوم سے کاٹ دینا چاہتے ہیں۔ یہ جمہوری عمل کا حصہ ہیں اور عوام سے الگ نہیں ہیں۔ 
پاکستان کو اسی یک جہتی کے ساتھ آگے بڑھنا ہے۔ جمہوریت خطرات سے کھیلتی، اپنی جان اور آبرو بچا کر یہاں تک پہنچی ہے۔ آنے والی منزلوں میں، اسے رہزنوں سے بچانا اس قوم کی ذمہ داری ہے کہ یہی قوم کو امن اور چین کی نیند دے سکتی ہے۔ قوم کو جمہوریت کے پانچ سال مبارک۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved