لاہور ایک بار پھر سوگوار ہوگیا ۔نسبت روڈ کے چائے خانے سے نیلا گنبد کے پاک ٹی ہائوس، وائی ایم سی اے اور پھر الحمرا کی ادبی بیٹھک تک اب کون ہے جو اس طرح قہقہے بکھیرتا، محبتوں سے باہیں پھیلاتا لوگوں کا استقبال کرے گا۔ چالیس سال پہلے پاک ٹی ہائوس کے سگریٹ کے دھوئیں سے بھرے ماحول میں اوپر جاتی سیڑھیوں کے ساتھ والی میز پر میری اس سے پہلی ملاقات ہوئی۔ میں گجرات سے حلقہ اربابِ ذوق کے اجلاس میں اپنا افسانہ پڑھنے آیا تھا۔ دور دراز شہر کے رہنے والے کے لیے یہ بڑا اہم دن تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مبارک احمد نے نثری نظم کی تحریک شروع کی تھی اور نئی نسل کی اچھی خاصی تعداد جو مغرب کی شاعری کے بوجھل موضوعات سے متاثر تھی، وہ نثری نظم لکھ رہی تھی ۔وہ سمجھتے تھے کہ اس طرح کی شاعری زیادہ فلسفیانہ ہوجاتی ہے اور لب و رخسار کی گفتگو تک محدود نہیں رہتی۔ میں بھی کچھ عرصہ ان نوجوانوں میں شامل رہا ، مبارک احمد چونکہ گجرات میں منتقل ہوگیا تھا ،اس لیے میرا اس سے دوستانہ ہوگیا۔ وہ اس روز میرے ساتھ گجرات سے لاہور آیا تھا کہ اس اجنبی شہر کے ادیبوں کی محفل میں تنہائی میرا مقدر نہ بنے۔ اجلاس ہونے میں دیرتھی۔ ہم پاک ٹی ہائوس میں اس میز پر جا بیٹھے جہاں خالد احمد تنہا بیٹھا اپنی تازہ غزل بڑی خوبصورت دھن میں گنگنا رہا تھا۔ مجھے آج بھی اس کا ایک مصرعہ یاد ہے ’’کیسے کیسے زہری جملے کیسی زبانوں سے نکلے‘‘۔ مبارک احمد کے ساتھ اس کا پرانا تعلق تھا، اس سے بہت تپاک سے ملا، چائے منگوائی اور مجھ پر جو سترہ سال کا نوجوان تھا، کوئی توجہ نہ دی۔ البتہ لاہور شہر میں چائے کا پہلا کپ میں نے خالد احمد کی میزبانی میں پیا۔ حلقۂ ارباب ذوق میں افسانہ پڑھنے کے بعد خالد احمد میرا دوست بن چکا تھا، ایسا دوست جس سے تعلقِ خاطر کے بارے میں یہ اندازہ لگانا مشکل ہوجا تا ہے کہ وہ ایک دن پرانا ہے یا برسوں کا یارانہ ہے ۔ اس شہر سے وہ سب لوگ آہستہ آہستہ دُور دیس آباد ہوتے جارہے ہیں جن کے رنگوں سے لاہور کا موسم قوس وقزح کا روپ لگتا تھا۔ لاہور ، جس کے کونے کونے پر کسی نہ کسی نابغۂ روزگار شخص کا ڈیرہ ملتا تھا ،جہاں علم وآگہی کی پیاس بجھتی تھی ،محفل آراخدامست درویش بھی تھے اور عالم دین بھی، صحافیوں کے جمگھٹے بھی ہوتے اور شاعروں کی بھیگتی راتوں کی محفلیںبھی ۔ پاک ٹی ہائوس سہیل احمد خان، زاہد فراز، کشور ناہید، یوسف کامران، سراج منیر، اسرار زیدی، خالد احمد ، نجیب احمد جیسے لوگوں کا مستقل ٹھکانہ تھا۔ملک کا ہر بڑا شاعراور ادیب اس دربار پر حاضری ضرور دیتا۔ چند قدم کے فاصلے پر چائنیز لنچ ہوم میں حبیب جالب ، احمد راہی اور ریاض شاہد جیسے لوگ سیاسی اور فلمی گفتگو کرتے۔ یہ شام کے دھندلکے کے بعد آباد ہونے والے ڈیرے تھے۔ اس سے پہلے عصر کی نماز کے بعد اچھرے کی ایک چھوٹی سی سڑک پر ایک کوٹھی کے لان میں سید ابوالاعلیٰ مودودی تشنگانِ علم کی پیاس بجھاتے، حضرت میاں میر ؒکے مزار کے سامنے بابا فضل ؒکاڈیرہ تھاجہاں حنیف رامے بھی جاتے اور اشفاق احمد بھی۔ میکلوڈ روڈ پر شورش کاشمیری کا ’چٹان‘ اور اس کے ساتھ سٹوڈنٹ ہوٹل لکشمی چوک میں رائل پارک کے صحن نما میدان میں کہیں موسیقار جمع ہیں تو کہیں شاعر اور نغمہ نگار۔ فیض احمد فیض کا ماڈل ٹائون کا گھر، منیر نیازی کا ٹائون شپ کا ٹھکانہ، واصف علی واصف کی مجلس، ڈاکٹر اسرار احمد کی باغ جناح میں جمعہ کی خطابت… اب کیا باقی رہ گیا ہے لاہور میں۔ اس کی لطیف خاموشی کو ٹریفک کے شور نے برباد اور اس کے قدیم نقش ونگار والی عمارتوں کو پلازوں نے بدہیئت کردیاہے۔ وہ مال روڈ جس پر پیدل چلتے ہوئے کئی بار خالد احمد گنگنانے لگتا کہ شام ڈھلے اس پر ایک سکوت طاری ہوجاتاتھا۔ دیال سنگھ لائبریری کے ساتھ جہاں اس کے ساتھ سڑک کنارے پڑی کرسیوں پر کئی دفعہ میں نے چائے پی ،اب وہاں صرف پارک کی ہوئی گاڑیاں اور ان سے پارکنگ فیس وصول کرنے والے ہرکارے نظر آتے ہیں۔ انارکلی کے فٹ پاتھ جن پر کبھی پرانی کتابوں کے ڈھیر علم کے متلاشیوں کو نظر آتے تھے، اب وہاں موزے، جوتے اور ملبوسات بکتے ہیں۔ انارکلی سے واپڈا ہائوس تک کتابوں کی اتنی دکانیں تھیں کہ لگتا تھا یہ شہر علم کی پیاس میں تڑپتارہتا ہے۔ خالد احمد نے یہ شہر چھوڑنا ہی تھا۔ وہ اس دن سے بے حال سا ہوگیا تھا جب اس کی نسبت روڈ فوڈ سٹریٹ کی زد میں آئی تھی اور پاک ٹی ہائوس میں ٹائروں کی دکان کُھل گئی تھی۔ پتہ نہیں یہ المیہ ہے یا طربیہ کہ لکھنے والوں کے رزق میں وسعت ہوئی، ڈرامہ نگاری اورشاعری نے سرمایہ فراہم کیا۔ کالم نگاری بھی ڈھیروں روپے دینے لگی تو سب لکھنے والے شہر کی خوبصورت آبادیوں کی خوبصورت رہائش گاہوں میں جا بسے ۔ کھلے دروازے بڑے بڑے بند گیٹوں میں تبدیل ہوگئے۔ سائیکل ،سکوٹر، اومنی بس اور تانگے کی جگہ ذاتی سواریوں نے لے لی۔ سب نے اپنی اپنی دنیا آباد کرلی لیکن خالد احمد کا ٹھکانہ بدل نہ سکا۔ پاک ٹی ہائوس اُجڑاتو اس نے الحمرا کے ہال کے سائے میں بیٹھک سجا لی۔ اب یار لوگوں کا جمگھٹا کم ہوگیا تھا لیکن نہ اس کی استقبال کرنے والی باہوں کے پھیلائو میں کمی آئی نہ اس کے قہقہوں کی کھنک کوزوال آیا۔ خالد احمد کی شاعری اور شخصیت کے بارے میں اس کے دوستوں نے اس کی زندگی میں بھی بہت کچھ لکھا اور آج بھی لکھ رہے ہیں۔ اس کا یہ شعر تو شاید اس کی پہچان ہے جسے اس کے تعارف میں لوگ پڑھتے تو وہ احتجاجاً کہتا، میں نے اس کے بعد بھی بہت کچھ لکھا ہے اور اچھا لکھا ہے ؎ ترک تعلقات پہ رویا نہ تو نہ میں لیکن یہ کیا کہ چین سے سویا نہ تو نہ میں لیکن میری خالد احمد سے دوستی عقیدت کے رشتے سے بندھی ہوئی ہے۔ اس کی شاعری بلاکی ہے۔ ایک عہد اس کی شاعری کا معترف ہے، اس کے دوست اس کی محبت کے اسیر ہیں لیکن میں اس کا ادب کرتا ہوں، اس سے عقیدت رکھتا ہوں اور یہ عقیدت میرے لیے سامان محشر ہے کہ میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روز محشر جب کوئی سایہ نہ ہوگا، چند لوگ جو اللہ کے تخت کے سائے تلے ہوں گے ان میں ایک وہ ہوں گے جو اللہ کے لیے دوستی کریں اور اللہ کے لیے دشمنی ۔خالد احمد گزشتہ پچاس سالوں کے ترقی پسند کمیونسٹ اور سیکولر ادب کے درمیان میرے آقا سید الانبیا ء صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی نعت لکھتا رہا کہ اسے پڑھنے کے بعد آنسو خود آنکھوں سے چھلک پڑتے تھے۔ میں اکثر سوچتا تھا مجھ پر یہ نعت اتنا اثر رکھتی ہے تو لکھنے والے پر کیا جادو کرتی ہوگی اور پھر میں نے خالد احمد کو بھیگی آنکھوں سے نعت پڑھتے دیکھ لیا۔ وہ آنکھوں کے کونے پر آئے آنسوئوں کو بار بار چھوٹی انگلی سے صاف کرتے ہوئے چھپانے کی کوشش کررہا تھا۔ اسے کیا خبر کہ اس کے یہ آنسو اس مالک کائنات کو کتنے عزیز ہیں۔ آنسوئوں کے یہ موتی اور نعتوں کے گلدستے لے کر جوعالم ارواح میں پہنچا ہوگا تو کیا عالم ہوگا! کاش میرے دامن میں بھی کوئی ایسا تو شہ ہوتا کہ میں کہہ سکتا: خالد احمد تری نسبت سے ہے خالد احمد تو نے پاتال کی قسمت میں بھی رفعت رکھی
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved