تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     31-05-2018

فاٹا انضمام کی تکمیل

طویل اور تھکا دینے والی کشمکش کے بعد بالآخر قبائلی علاقوں کو خیبر پختونخوا کا حصہ بنانے کا آئینی عمل تکمیل کو پہنچا۔ اسمبلی میں پی ٹی آئی کے منحرف رکن داور کنڈی کے سوا کسی بھی ممبر نے فاٹا انضمام کی اکتیسویں ترمیم کی مخالفت نہیں کی۔ قومی اسمبلی نے آئین کے آرٹیکل 247، جس کے تحت قبائلی جرگہ نے صدرِ مملکت کو فاٹا انضمام کا حق تفویض کرنا تھا، کو ختم کرکے آرٹیکل 1‘ 51‘ 59‘ 62‘ 106‘ 155‘ اور 246‘ میں آٹھ ترامیم کرکے قبائلی علاقوں کو آئینی مملکت کا حصہ بنا لیا۔ جے یو آئی اور پختونخوا میپ نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔ اتوار کے روز خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی نے دو تہائی اکثریت سے ترمیمی بل کی منظوری دی‘ صدر مملکت نے بل پہ دستخط کرکے ٹرائبل ایریا کو خیبر پختونخوا کا جزو بنا دیا۔ فاٹا انضمام کے حامیوں سے پُرجوش خیرمقدم کی توقع کی جا رہی تھی لیکن قبائلیوں کی اکثریت نے نہایت افسردہ دل کے ساتھ 'مرجر‘ کے فیصلہ کو قبول کیا۔ انضمام کے خلاف کوئی بڑا ردعمل بھی سامنے نہیں آیا؛ تاہم اس وقت قبائلی پٹی میں مہیب سناٹا اور مجموعی طور پہ فضا بوجھل دکھائی دیتی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو اس توانا تہذیب سے قبائلیوں کی رضاکارانہ دستبرداری ہو گی جو صدیوں تک انہیں سامان غرور فراہم کرتی رہی۔ دوسرا اپنے ماضی سے فطری مانوسیت بھی اس غم آمیز خوشی کا سبب بنی ہو گی۔ مولانا فضل الرحمٰن کی جے یو آئی نے البتہ صوبائی اسمبلی کے گھیرائو کی کال دے کر انضمام کے خلاف پُرتشدد مظاہرہ کیا لیکن ہمیں امید ہے کہ مولانا جیسے عملیت پسند سیاستدان، لکیر پیٹنے کی بجائے، اکثریت کے فیصلوں کے سامنے سرتسلیم خم کرکے اپنی توجہ انتخابی مہم پہ مرتکز کر لیں گے۔ اس بحث سے قطع نظر کہ فاٹا کو الگ صوبہ ہونا چاہیے تھا یا قومی دھارے میں شمولیت کے باوجود قبائلی علاقوںکی جداگانہ شناخت کو برقرار رکھا جاتا، نیشنل سکیورٹی کونسل میں بیٹھی قومی قیادت اور پارلیمنٹ کی اجتماعی دانش نے اب فاٹا کے خیبر پختونخوا میں ادغام کا تاریخی فیصلہ کرکے‘ ایک منجمد تہذیب کو پاکستانی کلچر کے بہتے دھارے میں ضم کرکے صدیوں پہ محیط اس تمدن کو زندگی کی وسعتوں میں جذب کر لیا ہے۔ نسلی عصبیتوں کی قوت سے مزّین قبائلی ثقافت اب بہت جلد سماجی زندگی کی ہمہ گیری میں ڈوب کے بندوبستی اضلاع کی بوقلمونی میں تحلیل ہو جائے گی۔ قبائلیت ماضی کی ضرورت تھی جب طاقت کی حکمرانی کا ناقوس بجتا تھا۔ اس وقت قبائلی عصبیت ہی کمزور انسانوں کی بقاء کا مضبوط حصار ہوا کرتی تھی۔ لیکن فطرت کی مشیت یہی رہی کہ انسانی زندگی کا ارتقا کبھی رکتا نہیں۔ اس لئے رفتہ رفتہ انسانی سماج قبائلیت سے ایک قدم آگے بڑھ کے بادشاہت تک جا پہنچا۔ سات ہزار سال قبل حمورابی نے سینکڑوں قبیلوں کو مسخر کرکے نینوا کی سرزمین پر پہلی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ حمورابی نے ہی عالمِ انسانیت کو حرمت جاں کا قانون عطا کیا۔ حمورابی کے بعد صدیوں کا سفر طے کرکے انسانیت آئینی بادشاہت تک پہنچی۔ اس کے بعد انبوہی جمہوریت اور آئینی جمہوریت کا دور گزرا اور اب عہد جدید کا انسان ادارہ جاتی جمہوریت کے پیچیدہ نظام سے استفادہ کر رہا ہے؛ چنانچہ اکیسویں صدی میں پچاس لاکھ انسان قبائلیت کے گنبدِ بے در سے نکل کے بنیادی انسانی حقوق اور سیاسی آزادیوں سے مستفید ہوں گے۔
ہمارے سیاسی ماحول میں شدید ترین کشیدگی کے باوجود حیرت انگیز طور پر پہلی بار قومی قیادت کا ایک بڑے سیاسی ایشو پہ متفق ہونا کسی معجزہ سے کم نہیں، تاہم اس پورے عمل میں مرکزی کردار پاک فوج کی لیڈرشپ کا تھا۔ منتخب لیڈرشپ سمیت پورا سماج فاٹا کو قومی دھارے میں لانے اور قبائلی علاقوں میں اصلاحات متعارف کرانے کا حامی ہے‘ لیکن اس تصور کو روبہ عمل لانے کے بارے میں ایک سے زیادہ آرا پائی جاتی تھیں۔ مولانا اور اچکزئی سمیت قبائلیوں کی روایتی لیڈرشپ اصلاحات کے نفاذ سے قبل ریفرنڈم کے ذریعے قبائلیوں کی رائے لینے پہ اصرار کرتی رہی۔ ان کے برعکس مسلم لیگ نون، پیپلز پارٹی، اے این پی اور تحریک انصاف سمیت مقتدر قوتیں منتخب آئینی اداروں کی وساطت سے اصلاحات کے جلد نفاذ کے حامی تھیں۔ بالآخر ہوا وہی جس کی اکثریت نے حمایت کی۔ حساس اداروں کی اطلاعات یہ تھیں کی عالمی طاقتیں قبائلی علاقوں کو کشمکش کا میدان کارزار بنانے کی خاطر مغربی سرحد پر نئے تنازعات پیدا کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔ اس لئے فاٹا کے انضمام سے ایک تو مملکت کی مغربی سرحدوں کا حتمی تعین کر لیا گیا‘ دوسرا انتظامی اکائیوں میں منقسم پٹھان دوبارہ یکجا ہو گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ فوجی قیادت نے افغانستان سے ملحقہ سترہ سو کلومیٹر طویل سرحد پہ باڑ لگانے کے علاوہ بہترین حکمت عملی سے قبائلی معاشرے کو اس کولیٹرل ڈیمیج سے بچایا جو جنگی حربوں کا لازمی نتیجہ ہوتا ہے۔ پچھلے ایک سال سے فوج نے قبائلی علاقوں میں کہیں بھی ہوائی حملے نہیں کئے‘ جن میں دہشتگردوں کے ساتھ کچھ بے گناہ شہری بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے تھے۔ سماجی وظائف کی بجاآوری میں رکاوٹ بننے والی چیک پوسٹوں کی تعداد گھٹا دی گئی۔ اس وقت ڈیرہ اسماعیل خان سے وانا تک صرف دو چیک پوسٹیں ہیں۔ جس طرح فوجی قیادت نے ناراض بلوچوں کو قومی دھارے میں واپس لانے کی خاطر عام معافی کا اعلان کیا‘ اسی طرح پشتو بولنے والے طالبان جنگجوئوںکو بھی دہشتگردی ترک کرکے پرامن زندگی کی طرف لوٹنے کی راہ دی گئی۔ اس وقت قبائلی معاشرہ جنگ کی تباہ کاریوں اور ایف سی آر جیسے کالے قانون کی جکڑ بندیوں سے نکل کے زندگی کے خوبصورت امکانات کی طرف بڑھ رہا ہے۔ بلاشبہ ہر تہذیب ہمیشہ ابتری اور بدنظمی کے خاتمہ سے شروع ہوئی۔ جب خوف پہ قابو پا لیا جائے تو تجسّس اور تعمیری اپچ آزاد ہو جاتے ہیں اور انسان قدرتی طور پہ زندگی کی تزئین و آرائش کی طرف مائل ہوتا ہے۔ تاریخ کے طالب علموں کی جانکاری کے لئے یہاں ایف سی آر کے اس قانون کا تاریخی پس منظر بیان کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا، جس نے ڈیڑھ صدی تک قبائلی نظام کو برقرار رکھا۔ اجتماعی ذمہ داری کے اصول پہ مبنی ایف سی آر کے تحت فرد کے حقوق و فرائض اور جزا و سزا کے نظام کو پورے قبیلے سے وابستہ رکھا گیا۔ یہی قوانین چونکہ قبائلوں کے گروہی مفاد اور علاقائی رواجات کو ریگولیٹ کرتے رہے‘ اس لئے قبائلی سماج نہ صرف اسے بسر و چشم قبول کرتا‘ بلکہ تمام تر قباحتوں کے باوجود اس سے دامن چھڑانے سے ہچکچاتا رہا۔ 1849ء میں جب انگریزوں نے سکھوں سے اقتدار ہتھیایا تو اس وقت قبائلی پٹی پنجاب کا جزو تھی؛ چنانچہ ابتدا میں انگریز نے سرحدی قبائل کے ساتھ مقامی رسوم و رواج میں عدم مداخلت اور عدم جارحیت کے معاہدات کرکے انہیں مطیع بنا لیا۔ ایف سی آر کا قانون 1867ء میں بنا۔ اس میں جزوی ترامیم کے بعد 1872ء میں پہلی بار اسے میانوالی، کیمبل پور (اٹک) اور ملحقہ اضلاع میں نافذ کیا گیا۔ 1879ء میں خیبر ایجنسی کے قیام کے ساتھ ہی ایف سی آر کو افغانستان کے سرحدی علاقوں تک وسعت ملی۔ 1892ء میں کرم ایجنسی بنی اور ڈیورنڈ لائن معاہدہ کے دو سال بعد 1897ء میں نارتھ اور سائوتھ وزیرستان ایجنسیوں کے قیام کے ساتھ ہی قبائلی علاقوں میں اجتماعی ذمہ داری کے اصول پہ مبنی ایف سی آر کا نفاذ مکمل ہو گیا۔ قبائلیت کے اجتماعی مفادات (نکات) کو قائم رکھنے کی خاطر 52 سال تک ایف سی آر میں ترمیم و تنسیخ سے گریز کیا گیا۔ 1997ء میں پہلی بار قبائلی علاقوں کے مکینوں کو ووٹ کا حق ملا لیکن فاٹا کے پارلیمنٹیرینز کو قانون سازی کا حق نہیں دیا گیا۔ 2011ء میں صدر زرداری نے ایف سی آر میں 18جزوی ترامیم کرکے قبائلی عوام کو کچھ بنیادی سہولیات دیں، جن میں اجتماعی ذمہ داری کے قوانین میں ترمیم کرکے 16 سال سے کم عمر بچوں اور 65 سال سے بڑی عمر کے بوڑھوںکو گرفتاری سے استثنیٰ اور فرد کے جرم میں پورے قبیلے کی پکڑ دھکڑ ممنوع قرار دی۔ ایف سی آر مقدمات کو معینہ مدت میں نمٹانے کی پابندی عائد کی اور اپیلوں کی سماعت کرنے والے ٹربیونل کو بااختیار بنانے کے علاوہ مقدمات کی سماعت کو آزادانہ بنایا۔ قبائلوں پر جھوٹے مقدمات بنانے کی صورت میں مواخذہ اور پولیٹیکل انتظامیہ کے فنڈ کے آڈٹ کا نظام بھی رائج کیا گیا۔ ان اٹھارہ ترامیم نے ایف سی آر جیسے کالے قوانین کی شدت کم تو کی لیکن ایسی ترامیم مکمل شہری آزادیوں کا نعم البدل نہیں تھیں۔اب انضمام کے بعد یہاں سیاسی و معاشی اصلاحات میں اولین ترجیح اجتماعی ملکیت میں پڑی اراضی کی سیٹلمنٹ کو دینا ہو گی، مشترکہ ملکیت میں رکھی وسیع اراضی کی منصفانہ تقسیم اگر جلد ممکن نہ بنائی گئی تو قبائلیوں کی آئندہ نسلیں کبھی نہ ختم ہونے والی خونریزی میں الجھ سکتی ہیں۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved