تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     31-05-2018

مقصد ِ حیات

سوچنا ذہن کا اصل کام ہے۔ سوچ اپنے طور پر پیدا نہیں ہوتی۔ مشاہدہ اور مطالعہ ذہن کو خیالات کے ترتیب دینے کی طرف لے جاتا ہے۔ ہمارے ذہن میں ابھرنے والا ہر خیال‘ ہر تصور کسی نہ کسی ایسی حقیقت کی بنیاد پر استوار ہوتا ہے‘ جو ہم جانتے ہیں۔ اس حوالے سے دنیا بھر میں تحقیق ہوتی رہی ہے۔ ذہن کے لیے خوراک کے طور پر استعمال ہونے والے حقائق خیالات کو پروان چڑھانے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ 
محققین کا ایک نظریہ یہ ہے کہ ہم جس دنیا یا کائنات کا حصہ ہیں ‘وہ دراصل ایک طے شدہ نظام (پروگرام یا ہولو گرافک سِمیولیشن) ہے جس میں ہم طے شدہ کردار کے ساتھ رکھے گئے ہیں۔ ہم وہی کرتے ہیں ‘جو ہمارے ذہن میں پہلے سے ڈال دیا گیا ہے یا ''فیڈ‘‘ کردیا گیا ہے۔ اس تصور کو ذہن نشین رکھیے ‘تو پھر کسی بھی فرد کو اچھے کام کے لیے سراہا جاسکتا ہے ‘نہ بُرے کام پر تادیب کی جاسکتی ہے۔ اگر ہم پہلے سے طے شدہ امور کے ساتھ بھیجے گئے ہیں ‘تو ہمیں کسی بھی طرح random کے اصول کے تحت کچھ بھی کرنے کی اجازت نہیں۔ 
آج کی سائنسی تحقیق میں virtual reality یا virtuosity کا بہت چرچا ہے۔ اسی اُصول کو بنیاد بناکر ویڈیوگیمز تیار کیے جاتے ہیں۔ بہت سے سائنس دان دُنیا سمیت پوری کائنات کو بھی ایک ایسی ہولو گرافک سِمیولیشن کے طور پر لیتے ہیں‘ جس میں سب کچھ طے شدہ ہے اور کسی بھی جاندار کو اپنے طے شدہ کردار سے ہٹ کر کچھ بھی کرنے کا اختیار حاصل نہیں۔ یہ سب کچھ تصور کی سطح پر اب تک ابتدائی مرحلے میں ہے۔ 
ایک بڑا سوال یہ ہے کہ اگر دُنیا ہولو گرافک سِمیولیشن ہے‘ تو پھر اس میں موجود کردار ‘ہم انسان شعور کی سطح پر پنپتے کیوں ہیں۔ کسی بھی ''پروگرامڈ‘‘ ماحول میں کرداروں کو اپنے طور پر کچھ بھی کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اِس اختیار سے انہیں یکسر محروم رکھا جاتا ہے۔ ایسے میں یہ بات قابلِ غور ہے کہ انسان کو اختیار دیا گیا ہے۔ اُسے فکر و عمل کی پوری آزادی حاصل ہے۔ وہ اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرتا ہے اور مذہبی کتب میں یہ بات پوری صراحت کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ انسان اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے یعنی ہر اچھے عمل کی جزا اور بُرے عمل کی سزا مقرر ہے۔ اگر یہ دنیا محض سِمیولیشن پر مبنی ہو‘ یعنی ''ورچوئل‘‘ ہو تو کسی سے بھی باز پُرس کیوں ہو‘ جواب طلب کیوں کیا جائے؟ 
ٹام کیمبل اور رابرٹ مونرو نے مل کر چند رضاکاروں کی مدد سے شعور کی چند ترمیم شدہ شکلوں کے ذریعے ''آؤٹ آف باڈی‘‘ مشاہدات کیے۔ مقصود یہ جاننا تھا کہ فزیکل ریئلٹی سے باہر کیا ہے اور ہم اِس فزیکل ریئلٹی کے دائرے میں کیوں ہیں۔ ٹام کیمبل اور رابرٹ مونرو نے بنیادی طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا کہ شعور یا تعقل ہی اصل ہے‘ فزیکل ریئلٹی اس سے ہٹ کر اور اس سے محروم حالت کا نام ہے۔ ٹام کیمبل نے اپنی کتاب ''مائی بگ ٹو‘ دی تھیوری آف ایوری تھنگ‘‘ میں یہ تصور پیش کیا ہے کہ ہمارا ذہن ہی ہمارے پورے ماحول یا اِس دنیا کو خلق کرتا ہے اور اس میں تبدیلی بھی لاتا ہے۔ اُن کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا کا اور اس کی ہر چیز کا احساس ہمیں ذہن کراتا ہے۔ گویا ذہن نہ ہو تو کچھ بھی نہ ہو۔ ٹام کا خیال ہے کہ ہمارا شعور دراصل انفارمیشن کمپیوٹر کے طور پر کام کرتا ہے۔ حواسِ خمسہ ہماری حقیقت یعنی فزیکل ریئلٹی میں پائی جانے والے ہر طرح کے مواد کو پڑھتے اور ادراک کی منزل سے گزر کر ہمارے لیے عمل کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ 
اس کائنات میں جو کچھ بھی ہے وہ رفتہ رفتہ اپنی توانائی سے محروم ہوتا جارہا ہے۔ اس عمل کو سائنسی اصطلاح میں entropy کہا جاتا ہے۔ ٹام کیمبل کہتے ہیں کہ کمتر درجے کی ''اینٹروپی‘‘ زندگی کو بامعنی اور بامقصد بناتی ہے۔ یہی عمل بہت بڑے پیمانے پر اور بہت تیزی سے ہو تو خرابیوں اور تباہی کا ذریعہ ثابت ہوتا ہے۔ حقیقت یا کائنات میں فطرت کے تمام اصول طے شدہ ہیں‘ معیارات مقرر کردیئے گئے ہیں۔ اس سِمیولیشن میں موجود کھلاڑیوں یعنی انسانوں اور دیگر جانداروں کا معاملہ یہ ہے کہ وہ فزیکل ریئلٹی سے باہر جیتے ہیں۔ ہمارے پاس دوسروں کی مرضی یا انتخاب پر اثر انداز ہونے کا اختیار بھی نہیں۔ ہم اپنے شعور کی حدود میں رہتے ہوئے کچھ ایسا کرسکتے ہیں ‘جو کسی بڑی تبدیلی کی راہ ہموار کرے۔ ٹام کیمبل کا بنیادی استدلال یہ ہے کہ ہم اپنی مرضی سے چند ایک ایسے اقدامات کرسکتے ہیں جن سے فزیکل ریئلٹی کا ڈھانچا تھوڑا بہت تبدیل ہو۔ فزیکل ریئلٹی میں بہتری اُسی وقت آتی ہے جب ہم اپنے وجود اور اُس سے وابستہ مفادات سے بالاتر ہوکر دوسروں کا خیال رکھیں‘ اُن کے مفادات کو مقدم رکھیں اور اُن کی بہبود پر متوجہ ہوں۔ 
ٹام کیمبل نے گھوم پھر کر وہی بات کہی ہے‘ جو دین ہم سے کہتا ہے۔ سب کچھ اُس وقت پنپتا ہے ‘جب ہم دوسروں کے بارے میں سوچنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اپنے وجود کو ایک طرف ہٹاکر دوسروں کے مفادات کو مقدم رکھنے کی ذہنیت ہی اس کائنات کو خیر سے ہم کنار کرتی ہے۔ 
آج کا انسان عجیب مخمصوں کا شکار ہے۔ ایک طرف تو وہ ماضی کے علوم و فنون کی روشنی میں بہت کچھ سمجھنا چاہتا ہے۔ ڈیڑھ دو ہزار سال قبل علماء نے جو کچھ کہا‘ اُس کی روشنی میں وہ اپنی حقیقت کا جائزہ لینا چاہتا ہے اور کائنات میں اپنا مقام متعین کرنے کا خواہش مند ہے۔ اور دوسری طرف وہ دورِ جدید کی ہماہمی سے اس قدر حواس باختہ ہے کہ اُس کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آرہا کہ زندگی کس طور بسر کرے‘ معاملات کو کس طور نمٹائے کہ خرابیاں اپنے لیے پیدا ہوں نہ دوسروں کے لیے۔ انسان کو جو کچھ بھی درکار تھا وہ ایجاد یا دریافت کیا جاچکا ہے۔ ہزاروں میل دور بیٹھے ہوئے فرد سے بھی ''رئیل ٹائم‘‘ میں بات کرنا‘ اُسے دیکھنا اب ممکن ہوچکا ہے۔ اب انسان کے پاس کوئی عذر نہیں۔ وہ لاکھ کوشش کرلے‘ اُس کے لیے ذمہ داری سے مفر ممکن نہیں۔ 
ہر دور کے انسان کی طرح آج کے انسان کو بھی اصلاً تو دوسروں کے لیے جینا ہے‘ جو صرف اپنے وجود کو مقدم رکھے‘ وہ اس کائنات کے خالق کی نظر میں مکرّم ہے۔ اللہ کی نظر میں تکریم اُس کی ہے جو اُس سے ڈرتا ہے اور ڈرتا وہی ہے‘ جو اللہ کی مرضی کے مطابق جیتا ہے اور اللہ کی مرضی کے مطابق جینا یہ ہے کہ انسان صرف اپنی ذات کو اہمیت نہ دے بلکہ دوسروں کے مفاد اور بہبود پر بھی غیر معمولی توجہ دے تاکہ یہ دنیا زیادہ ''قابلِ رہائش‘‘ ہو۔ 
اللہ کا شکر ہے کہ فطری علوم و فنون کے جو ماہرین ہر معاملے میں اپنی ذات کو مقدم رکھنے‘ یعنی شخصی آزادی کو ہر شے پر محیط کرنے کی تعلیم دیا کرتے تھے وہی اب برملا کہہ رہے ہیں کہ زندگی کا حقیقی مقصد اس کے سِوا کچھ نہیں کہ انسان اپنے مفاد کو بالائے طاق رکھ کر دوسروں کی بہبود کو اولیت دے۔ ہم اس دنیا کا حصہ اِسی لیے بنائے گئے ہیں۔ ؎ 
اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں 
ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved