سرمایہ دارانہ مقابلے کا نظام اپنی زیر اثر منڈیوں میں بھی کسی طرح کی نرمی نہیں دکھا رہا۔کافی عرصہ ہوا یہ نظام‘اپنے تمام سائنسی اور تجارتی حربوں کو ترقی کی بہت بڑی سطح پر لے جا چکا ہے۔چین اور امریکہ کے مابین تجارت بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ ذیل میں '' بلوم برگ‘‘سے لیا گیا ایک تجزیہ پیش خدمت ہے۔
''چین اور امریکہ اب خود کو ایک دوسرے کی ضد یا ایک دوسرے کی مخالف سیاسی گورننس کی مثالوں کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔چین نے اپنا وژن پھر سے شباب پہ آنے والی ایک قوم کے لئے پیش کیا ہے‘ یعنی ایک سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کے لئے‘ جس کی عمارت اعداد و شمار اور تجزیات کی بنیادوں پر استوار کی گئی ہے اور جو مارکیٹ اکانومی کی جگہ لے گی۔ امریکہ نے اس کے بالکل برعکس راستہ اختیار کیا ہے۔ مارکیٹوں یا منڈیوں سے حکومت کے عمل دخل کو آہستہ آہستہ کم کیا جا رہا ہے۔ ایگزیکٹو آرڈرز کے ذریعے معیشت کو ڈی ریگولیٹ یعنی پابندیوں سے آزاد کیا جا رہا ہے۔ فنڈز کے ریگولیٹرز (معاملات کو منظم بنانے والوں) کو محدود کیا جا رہا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایسے افراد کو ایجنسی سربراہ کے طور پر تعینات کیا جا رہا ہے‘ جن کا ریکارڈ اپنی ایجنسیوں یا مشنز کے بارے میں مخاصمانہ رہا۔ قبل ازیں دونوں ممالک اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ مارکیٹ کو قابو میں رکھا جانا چاہئے۔ لیکن اب دونوں ہی اپنے اس موقف سے پیچھے ہٹ رہے ہیں اور اپنے لئے الگ الگ راستہ اختیار کر رہے ہیں۔
حال ہی میں تیار کی گئی ایک دستاویزی فلم "The China Hustle" میں اس حقیقت کو آشکار کیا گیا کہ امریکی مارکیٹوں میں کس طرح چینی کمپنیاں فراڈ کر رہی ہیں؟ اس فلم میں ان کمپنیوں‘ جو پبلک سرمایہ کاروں سے زیادہ سے زیادہ سرمایہ حاصل کرنے کی خواہاں ہیں‘ کی جانچ پڑتال کے نرم معیارات کی فہرست کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ چینی کمپنیاں دونوں نظاموں (امریکی اور چینی) میں پائے جانے والے فرق سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔ یہ فرق کیا ہے؟ ان معاملات کی نگرانی کرنے والے چینی ادارے اور حکام اس لئے اپنی ذمہ داریوں سے دست بردار ہو جاتے ہیں کہ سرمایہ کار امریکی ہیں۔ دوسری جانب مارکیٹ کے نظام پر نظر رکھنے والے امریکی حکام اس لئے کوئی ٹھوس فیصلہ نہیں کر پاتے کہ انکی چینی ریکارڈز تک رسائی ہی ممکن نہیں‘ جن کی جانچ پڑتال کرکے کمپنیوں کی جانب سے کئے گئے فراڈوں کا پتہ چلایا جا سکے۔ مارچ میں چین کی ڈیپازٹری رسیدوں کو قبول کرنے کی اجازت دینے کا اقدام کیا گیا‘ لیکن اس سے مسئلہ حل ہونے کے بجائے مزید الجھ گیا۔ مسئلے کی شدت پہلے کی نسبت بڑھ گئی کیونکہ اس طرح کے مینزآئی لینڈ اور برٹش ورجن آئی لینڈ جیسے ویران جزیروں میں رجسٹرڈ کمپنیوں کے لئے چینی سرمایہ کاروں سے سرمایہ اکٹھا کرنے کے نئے نئے طریقے ایجاد کر لئے گئے۔ 2009ء سے 2012ء کے درمیانی عرصے میں کئی چینی کمپنیاں فراڈ ثابت ہوئیں اور پھر وہ دوسری کمپنیوں میں ضم کر دی گئیں۔ پھر ٹیکنالوجی سے متعلق بہت سی بڑی چینی کمپنیوں کے کچھ اپنے طریقہ کار اور اصول و ضوابط ہیں اور یہ پوری دنیا سے سرمایہ کاروں کی توجہ کا مرکز ہیں۔ ان دونوں (ٹیک جائنٹس اور ضم ہونے والی کمپنیوں) کے مابین کیا تعلق ہے؟ مذکورہ دستاویزی فلم میں اس کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔ ان بڑی کمپنیوں نے مارکیٹنگ کے طریقہ کار کو اس نہج تک پہنچا دیا ہے کہ اگر ان پر معیار کے حوالے سے چیک رکھا جائے تو یہ چند ہی دنوں میں مارکیٹ سے سینکڑوں بلین‘ حتیٰ کہ کئی ٹریلین نکال کر عالمی منڈیوں کو ہلا کر رکھ سکتی ہیں۔ بڑی کمپنیوں کے پاس خود کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے بھی کئی طریقے ہیں۔ یہ رپورٹنگ کے معیارات میں پائے جانے والے تنوع سے ناجائز طور پر فائدہ اٹھاتی ہیں۔ اس طرح ان کمپنیوں کے مالکان کوئی قانون توڑے بغیر سرمایہ کار کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ جیسے نئے کلیم بنا کر‘ جن کا آڈٹ نہ ہو سکتا ہو۔ جیسے پارٹنر سٹرکچرز کے ذریعے ان لوگوں کو خفیہ رکھنا جو ایسے اداروں سے حتمی طور پر مستفید ہوتے ہیں۔
ضوابط کے مطابق ہنڈی کا کاروبار اب ان اداروں‘ جو فراڈ ثابت ہو چکے ہیں‘ کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ کسی دوسری جگہ جا کر اپنا کاروبار جاری رکھ سکتے ہیں۔ ذرا سوچئے‘ نہ صرف یہ کہ پبلک مارکیٹ کے سرمایہ کاروں کو ٹھگنے پر کوئی جرمانہ نہیں‘ بلکہ فراڈ کرنے والوں کو ایک طرح سے نوازا جاتا ہے۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ کوئی کمپنی اپنے پیچھے آڈٹ شدہ رپورٹوں کی ایک پوری جو ٹریل Trail چھوڑ کر جاتی ہے‘ وہ ایک نئی فہرست کے لئے بنیاد فراہم کر دیتی ہے جبکہ وہ مقدمات‘ جن کی بنیاد پر کسی کمپنی کو اچھے کاروباریوں کی فہرست سے نکالا گیا ہوتا ہے‘ نئی منڈی‘ جہاں یہ فراڈ ثابت ہونے والی کمپنی اپنا کاروبار پھر سے شروع کرتی ہے‘ ان مقدمات اور ثابت شدہ الزامات پر ایک نظر ڈالنا بھی پسند نہیں کرتی۔ اسی طرح کے اور بھی بہت سے فراڈ ہوتے رہتے ہیں لیکن نیشنل گورننس سسٹم کو ان چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں بنایا جا سکا۔ اس کے باوجود کہ تجارت اور سرمایہ کاری کے حوالے سے ''بین الاقوامی آرڈر‘‘ اپنی حیثیت کھو چکا ہے‘ اس آرڈر کے سب سے بڑے چیمپئن کے طور پر امریکہ نے عملی لحاظ سے ثابت کیا ہے کہ اسے بھی اصولوں پر عمل کرنا زیادہ پسند نہیں۔ تجارتی اور کاروباری ضوابط کو مضبوط بنانے والے اور استحکام بخشنے والے قوانین اور اداروں کی عدم موجودگی میں سرمایہ کار خود کو زیادہ آسودہ محسوس کرتے ہیں۔ بین الاقوامی ریگولیٹری اداروں کے خاتمے اور امریکی حکومت کی جانب سے بین الاقوامی سطح پر ہونے والے وعدوں یا معاہدوں کی پاسداری نہ کرنا گلوبلائزیشن کی اگلی انقلابی سٹیج ثابت ہو سکتا ہے۔ نوآبادیاتی دور کے بعد دنیا کی بڑی آبادیوں کے ابھر کر سامنے آنے کے عمل نے ہمیشہ ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ وغیرہ کو چیلنجز پیش کئے ہیں‘ کیونکہ ان اداروں (ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اور آئی ایم ایف) کو ترقی یافتہ ممالک نے تخلیق کیا تھا اور یہ طویل عرصے سے انہی ممالک کے مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں۔ اس صدی کی سب سے بڑی گیم کو سوشل میڈیا پر بھی خاصی توجہ مل رہی ہے۔ سوشل میڈیا کہتا ہے کہ یہ ہر طرح کے ضابطوں سے ماورا ہے۔ اب جبکہ دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتیں ہماری آنکھوں کے سامنے ایک دوسرے کے مقابل کھڑی نظر آتی ہیں تو ان کے سرمایہ کاروں کے لئے سب سے اہم سوال یہی ہے کہ اس نئی گریٹ گریم کا ریفری کون ہو گا؟‘‘