تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     01-06-2018

کیا انتخابات وقت پر ہوں گے؟

2018ء کے پارلیمانی انتخابات کیلئے 25 جولائی کی حتمی تاریخ مقرر ہو چکی ہے۔ مرکزمیں قائم مقام وزیراعظم کے نام پر اتفاق رائے ہو چکا ہے۔ امید ہے کہ چاروں صوبوں میں بھی آئینی طریقہ کار کے مطابق قائم مقام وزرائے اعلیٰ کا تقرر ہو جائے گا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے ووٹرز لسٹ کے مکمل ہونے کا اعلان بھی کیا جا چکا ہے۔ حلقہ بندیوں کے بارے میں مسائل بھی جلد طے کر لئے جائیں گے۔ غرضیکہ عوام اور حکومتی مشینری 2018 ء کے پارلیمانی انتخابات کیلئے بالکل تیار ہے۔ اس کے باوجود بعض اہم شخصیات اورحلقے رائے دے رہے ہیں کہ اگر انتخابات دو چار ماہ کیلئے ملتوی ہو جائیں ‘تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اگرچہ اہم سٹیک ہولڈرز مثلاً پاکستان مسلم لیگ (ن) پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک ِانصاف کی جانب سے اس نوع کے کوئی اشارے نہیں ملے‘ بلکہ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف تو یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ انتخابات ہر صورت بروقت ہونے چاہئیں اور چند ماہ تو درکنار انتخابات کے انعقاد میں ایک دن کی بھی تاخیر برداشت نہیں کی جائے گی‘ تاہم جن حلقوں اور شخصیتوں کی طرف سے انتخابات کے التوا کی تجاویز پیش کی جا رہی ہیں‘انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا‘ کیونکہ وہ کسی نہ کسی انداز میں مقتدر اعلیٰ قوتوں کے قریب اور معتمد ہیں۔ اسی لئے ان کی طرف سے جاری کردہ کسی بیان یا تجویز کو غیر اہم سمجھ کر رد نہیں کیا جا سکتا۔ یہ حلقے اور شخصیتیں کون ہیں؟ان کو ظاہر کرنے سے پہلے بہتر ہو گا کہ یہ بتایا جائے کہ انتخابات کے التواء کے حق میں کیا دلیلیں پیش کی جا رہی ہیں:۔
سب سے پہلے تو گرم موسم کو بطورِ دلیل پیش کیا جا رہا ہے۔ پاکستان ہی نہیں پورے بر صغیر میں جولائی اور اگست بارشوں کے مہینے ہوتے ہیں اور سیلاب کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس لئے 25 جولائی کو جب ساون عروج پر ہو گا‘ انتخابات کیلئے سازگار قرار نہیں دیا جا رہا۔ پاکستان میں اب تک جتنے بھی انتخابات منعقد ہوئے ہیں‘ وہ عام طور پر کم بارشوں والے مہینوں‘ یعنی اکتوبر سے مارچ کے دوران میں ہوئے ہیں۔ اس لئے جولائی کی بجائے اگر ستمبر یا اکتوبر میں انتخابات کروائے جائیں ‘تو ووٹرز اور حکومت دونوں کے لئے آسانی ہو گی۔ موسم کے علاوہ انتخابات کے التواء کے حق میں جو دیگر دلیلیں پیش کی جا رہی ہیں۔ ان کا تعلق تازہ ترین مردم شماری کے نتائج پر نئی حلقہ بندیوں کی تشکیل ہے۔ یہ مطالبہ ایم کیو ایم (پاکستان) کے ایک گروپ (بہادر آباد) کے اہم رہنما اور سینیٹر فروغ نسیم کی طرف سے پیش کیا گیا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ایم کیو ایم کے اس گروپ کی سیاسی ہمدردیاں کن حلقوں کے ساتھ ہیں۔ یہ وہ حلقے ہیں‘ جو جوڑ توڑ کے ذریعے انتخابات کے مطلوبہ نتائج کے خواہشمند ہیں اور اگر انہیں یہ نظر آئے کہ ان کی خواہش پوری نہیں ہو سکتی‘ بلکہ ان کی خواہش کے برعکس انتخابی نتائج کا قوی امکان ہے ‘تو وہ انتخابات کے التوا کے حق میں مختلف دلیلیں پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید احمد نے تو التوا کا کوئی جواز بھی پیش کرنے کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے صاف اور برملا کہہ دیا ہے کہ اگر انتخابات دو چار ماہ کیلئے ملتوی کر دیئے جائیں ‘تو قیامت نہیں آ جائے گی۔ ان کی طرف سے یہ رائے پہلی دفعہ نہیں پیش کی گئی‘بلکہ جب سے میاں محمد نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے احتساب کا عمل شروع ہوا ہے‘ وہ کہتے چلے آ رہے ہیں کہ پہلے اس احتسابی عمل کو اپنے منطقی انجام پر پہنچانا چاہئے اور اس کے بعد انتخابات کا سوچنا چاہئے۔ شیخ رشید جانتے ہیں کہ محض نا اہل قرار دینے‘ وزارت عظمیٰ سے ہٹانے یا مسلم لیگ (ن) کی سربراہی چھیننے سے نواز شریف کو سیاسی منظر نامہ سے غائب نہیں کیا جا سکتا۔ وقت نے ان کی رائے کو سچ ثابت کر دیا ہے۔ اور ان تمام مراحل سے گزرنے کے باوجود نواز شریف کی مقبولیت کم نہیں ہوئی۔ اب صرف جیل بھیجنا باقی رہ گیا ہے‘ جس کے بارے میں سبکدوش ہونے والے وزیراعظم جناب شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ نواز شریف جیل جانے کے لئے تیار ہیں اور مسلم لیگ (ن) کے حلقوں نے واضح کر دیا ہے کہ نواز شریف کے جیل جانے سے پارٹی کی انتخابی مہم پر کوئی اثر نہیں پڑے گا‘ بلکہ اسے پورے زور و شور سے چلایا جائے گا۔ اس سلسلے میں مسلم لیگ (ن) کے ایک حالیہ اجلاس میں آئندہ انتخابات میں حصہ لینے اور اپنے امیدواروں کے حق میں ملک گیر اور موثر مہم چلانے کیلئے بھی ایک لائحہ عمل تیار کر لیا گیا ہے۔ 
شیخ رشید عالم سیاست کے گرگِ باراں دیدہ ہیں۔ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ نواز شریف کے جیل جانے سے ان کے مخالفین کے راستے کی تمام رکاوٹیں دور نہیں ہو جائیں گی‘ بلکہ نواز شریف کے جیل جانے سے حالات مزید الجھ سکتے ہیں‘ کیونکہ پاکستان گیلپ سروے کے مطابق نیب کے مقدمات‘ نواز شریف کی نا اہلی اور مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی کی ایک بڑی تعداد کی جانب سے سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کے باوجود (ن) لیگ اب بھی پنجاب میں سب سے مقبول پارٹی ہے۔ اپنے حالیہ اجلاس میں‘ جس کی صدارت نواز شریف نے کی مسلم لیگ کی قیادت نے بھی انتخابات کے دوران پنجاب پر خصوصی توجہ مرکوز کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ فیصلہ جتنا قابل فہم ہے‘ اتنا اہم بھی ہے۔ پنجاب مسلم لیگ (ن) کا گڑھ رہا ہے۔ یہ حقیقت اس کے انتخابی حریف بھی تسلیم کرتے ہیں۔ اس لئے ان کی طرف سے بھی پنجاب میں بھرپور انتخابی مہم چلائی جائے گی‘ مگر ملک کے دیگر صوبوں میں بڑی سیاسی جماعتوں کی عدم دلچسپی اور نمبر گیم پر ضرورت سے زیادہ انحصار پاکستانی وفاق کی جڑیں کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ چھوٹے صوبوں خصوصاً بلوچستان کو پہلے ہی بڑی سیاسی جماعتوں سے شکایت ہے کہ وہ سیٹوں کی دوڑ میں انہیں نظر انداز کرتی چلی آ رہی ہیں۔ اس سال کے آغاز میں بلوچستان میں جس سیاسی بحران نے سر اٹھایا تھا، اس کی تہہ میں بھی رنجش کار فرما تھی۔ اس لئے آئندہ الیکشن میں بھی اگر بڑی سیاسی جماعتوں نے زیادہ سے زیادہ نشستوں کیلئے بھاگ دوڑ میں حسب ِدستور بلوچستان اور دیگر چھوٹے صوبوں کو نظر انداز کیا‘ تو انہیں غیر متوقع نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور جہاں تک پنجاب کا تعلق ہے ‘اس کے ووٹ بینک میں ابھی تک پاکستان مسلم لیگ (ن) کا حصہ سب سے زیادہ ہے۔ پارٹی کے حلقوں کو یقین ہے کہ نواز شریف کی نا اہلی اور مقدمات سے پنجاب میں پارٹی کی مقبولیت میں کمی نہیں آئی اور اس کا ثبوت نواز شریف اور مریم نواز کے جلسوں میں حاضرین کی بڑی تعداد میں موجودگی ہے‘ اگر انتخابات ملتوی ہوتے ‘تو اس کی اصل وجہ موسم یا کوئی اور عوامل نہیں ہوں گے‘ بلکہ پنجاب کے معرکے کے نتیجے کے بارے میں بے یقینی ہوگی‘ کیونکہ اگر مسلم لیگ (ن) کا پنجاب میں ووٹ بینک قائم رہا‘ تو انتخابات ملتوی ہو سکتے ہیں۔ انتخابات دو چار ماہ کیلئے ملتوی کرنے کی رائے ان شخصیتوں اور پارٹیوں کی طرف سے دی جا رہی ہے‘ جنہیں موجودہ حالات میں کامیابی کی زیادہ امید نہیں۔ اسی لئے وہ چاہتے ہیں کہ سازگار حالات کے پیدا ہونے سے پہلے انتخابات نہ کروائے جائیں‘ لیکن دو بڑی سیاسی جماعتوں یعنی پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کو علی الترتیب پنجاب اور سندھ میں اپنی سابقہ پوزیشن برقرار رکھنے کی پوری امیدہے۔ اسی لئے اگر چند سیاسی موقعہ پرستوں یا چور دروازے سے اقتدار پر قبضہ کرنے والوں کے دبائو میں آ کر انتخابات کو ملتوی کرنے کی کوشش کی گئی‘ تو ان دو بڑی سیاسی جماعتوں‘ جو پاکستان کے دو اہم ترین صوبوں کو اپنا مضبوط گڑھ سمجھتی ہیں‘ کی طرف سے سخت رد عمل آئے گا‘ جس کے نتائج ملک کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved