تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     01-06-2018

رمضان، علماء اورسیاستدان

رمضان کا روزہ رحمت سے بھرپور ایسا عمل ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا ''اگر کوئی شخص روزہ دار کو گالی دے یا اس سے گتھم گتھا ہونے کی کوشش کرے‘ تو وہ کہہ دے کہ میں روزہ دار ہوں‘‘ (بخاری:1894)۔ 
قارئین کرام! آج میں جن لڑنے جھگڑنے اور گتھم گتھا ہونے والوں کی بات کرنے لگا ہوں ‘وہ عام جھگڑالو لوگ نہیں ‘ جو گلیوں بازاروں میں لڑتے ہیں‘ ایک دوسرے کو گالیاں دیتے ہیں‘ سڑکوں پر گاڑیوں سے اترتے ہیں اور اس بات پر کہ گاڑی کو خراش آ گئی ہے‘ ایک دوسرے کے چہروں پر تھپڑ رسید کر کے رخساروں پرخونیں سرخ خراشیں ڈال دیتے ہیں۔ ایسا تو ہم اپنے معاشرے میں دیکھتے ہی رہتے ہیں‘ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ وہ لوگ ایسا کرنے لگ گئے ہیں ‘جو رہنما ہیں‘ قوم کے رہبر ہیں۔ انہوں نے ادب و احترام کا کردار پیش کر کے قوم کو اخلاقی سطح پر مہذب بنانا ہے‘ وہ آپس میں لڑنے لگ گئے ہیں۔ جلسوں میں وہ ایک دوسرے کو گالیاں دینے لگ گئے ہیں۔ ٹی وی پروگراموں میں دانشورانہ انداز سے یوں پیش آنے لگ گئے ہیں کہ ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہونے لگ گئے ہیں۔ ایک دوسرے کو طمانچے مارنے لگ گئے ہیں۔ ایسے ہی ایک پروگرام میں مسلم لیگ (ن) کے ایک وزیر نے تحریک ِانصاف کے ایک مرکزی رہنما کو دوران گفتگو چور کہہ دیا‘ جواب میں نعیم الحق صاحب نے ہاتھ اٹھایا اور دانیال عزیز کے رخسار پر تھپڑ رسید کر دیا۔ کروڑوں لوگ اس منظر کو دیکھ چکے ہیں۔ دونوں پارٹیاں اقتدار میں رہ چکی ہیں اور مستقبل میں بھی برسراقتدار ہوں گی... میں خوفزدہ اس بات پر ہوں کہ رہنمائوں کا یہ حال ہے ‘تو جوشیلی قوم کا کیا بنے گا؟
شیخ ناصر الدین البانی ؒ اپنے سلسلہ صیححہ میں حدیث لائے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے چہرے کو اپنی صورت پر بنایا ہے۔ میں بائبل پڑھ رہا تھا۔ بائبل کے پرانا عہد نامہ میں تورات شامل ہے۔ تورات کی پہلی کتاب پیدائش ہے۔ انسان کی پیدائش کے ضمن میں دو آیات ہیں‘ فرمایا ''پھر خدا نے کہا کہ ہم انسان کو اپنی صورت پر اپنی شبیہ کی مانند بنائیں اور وہ سمندر کی مچھلیوں اور آسمان کے پرندوں‘ چوپایوں‘ اور تمام زمین اور سب جانداروں پر جو زمین پر رینگتے ہیں‘ اختیار رکھیں اور خدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔ خدا کی صورت پر اس کو پیدا کیا۔ نروناری ان کو پیدا کیا‘‘ (پیدائش‘ باب1‘ فقرہ 27-26)۔ 
قارئین کرام! غور فرمائیں ‘جو بات حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی اور وہ تورات کا حصہ بن گئی‘ وہ بات حضرت محمد کریمﷺ پر نازل ہوئی اور حدیث کی کتابوں کا حصہ بن گئی۔ یاد رہے! اللہ تعالیٰ ایک نور ہے اور اس کا چہرہ جلال و اکرام والا ایسا ہے کہ ہم اس کی کیفیت بیان نہیں کر سکتے۔ بس ایمان رکھتے ہیں کہ اس کا چہرہ ہے اور انسان کو یہ تکریم ملی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے چہرے کو اپنی صورت پر بنانے کی عزت سے نوازا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور نبی کریمﷺ نے چہرے پر مارنے سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے‘ مگر جہالت اور نادانی کی اس قدر فراوانی ہے کہ بعض جاہل خاوند اپنی بیوی کے چہرے پر تھپڑ رسید کرتے ہیں۔ پولیس یا دیگر فورسز کا اہلکار ملزم کے منہ پر تھپڑ مارتا ہے۔ نادان ماں اپنے بچے کے منہ پر تھپڑ مارتی ہے‘ یعنی ہر جگہ کمزور کا چہرہ تھپڑ کھاتا ہے۔ پہلے ایک نام نہاد مولوی نے میاں نوازشریف صاحب کو دینی ادارے میں جوتا دے مارا‘ پھر آپا جی نثار فاطمہ ‘جو جنرل ضیا الحق مرحوم کی مجلس شوریٰ میں ممبر تھیں اور ختم نبوت کی علمبردار نیک خاتون تھیں‘ ان کے صاحبزادے محترم احسن اقبال کو مذہبی تعصب میں بلاوجہ گولی مار دی اور اب رمضان المبارک کے مہینے میں ایک سیاستدان نے دوسرے سیاستدان کو تھپڑ اور وہ بھی چہرے پر مار دیا۔
رمضان المبارک کے ایک پروگرام میں‘ جس کے میزبان ڈاکٹر عامر لیاقت حسین تھے‘ انڈیا کے شہر گجرات سے ایک مسلمان سوال کرتا ہے کہ کیا حضرت علیؓ کو حضورﷺ سے خلافت ملی تھی؟ جواب صرف اس قدر تھا کہ آج سے چودہ سو سال قبل جب مضبوط وراثتی بادشاہت کا زمانہ تھا‘ ہمارے حضورﷺ نے اس کا خاتمہ کیا اور ایسا خاتمہ کیا کہ اپنی حیات ِمبارکہ کے آخری دن تک کسی کو خلیفہ نامزد نہ کیا۔ حضرت ابوبکرؓ کو لوگوں نے خلیفہ بنایا۔ حضرت علیؓ چوتھے خلیفہ راشد ہیں... اتنی سی بات تھی‘ یہ جواب تو دیا نہیں گیا جبکہ عامر لیاقت صاحب اور مولانا کوکب نورانی صاحب انڈیا ہی کے ایک اور عالم جو یہاں موجود نہیں‘ ڈاکٹر ذاکر نائیک پر برس پڑے‘ پھر مولانا خلیل الرحمان پر برس پڑے‘ فرقہ وارانہ گفتگو شروع ہو گئی۔ پروگرام چھوڑ کر کوئی بھاگ اٹھا اور کوئی فرقہ وارانہ باتیں کر کے بائیکاٹ کا کہنے لگا... یہ ہے ‘علماء کا کردار پوری امت کے سامنے ‘جبکہ پہلے ہی ایک مولوی صاحب گالیوں کے اعتبار سے معروف ہیں۔ 
انتہائی افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ رہنمایانِ قوم کدھر جا رہے ہیں اور کیا کر رہے ہیں۔ رمضان اور روزہ رکھنے والا کہاں گیا‘ جو غضب کو کنٹرول کرے اور کہے کہ میں تو روزہ دار ہوں۔ رمضان میں ہمارا یہ حال ہے‘ غیر رمضان میں کیا ہو گا؟ رمضان میں جب بڑے بڑے شیاطین قید کر دیئے جاتے ہیں‘ تب راہبران ملت کا یہ حال ہے‘ ان کی آزادی پر ہمارا حال کیا ہو گا کہ الیکشن کا موسم آ گیا ہے۔
حضرت ام خالدؓ جو ہجرتِ حبشہ کے دوران میں حبشہ (ایتھوپیا) میں پیدا ہوئی تھیں‘ وہ بیان کرتی ہیں کہ میں اپنے والد سعیدؓ کے ہمراہ حضورﷺ کی مجلس میں حاضر ہوئی (حضورﷺ کی چادر مبارک کندھے سے سرک جانے پر نیچے ہوئی) تو میں مُہرِ نبوت سے کھیلنے لگی۔ میرے والد نے مجھے جھڑک ڈالا۔ حضورﷺ نے والد سے کہا: اسے کچھ نہ کہو‘ کھیلنے دو (اور باپ کی ڈانٹ کا مداوا اس طرح کیا کہ مجھے دعا دیتے ہوئے فرمایا:) اللہ تعالیٰ تجھے لمبی عمر دے (چنانچہ ام خالدؓ کی عمر بہت لمبی ہوئی) (صحیح بخاری:5993) سبحان اللہ! یہ تھا مدینے کی مملکت کے حکمران کا کردار جو انتہا درجے کا مشفقانہ تھا۔ 
حضورﷺ نے فرمایا ''اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کے 100حصے پیدا فرمائے ہیں‘ 99حصے اپنے پاس روک کر رکھے ہیں۔ زمین پر صرف ایک حصہ نازل فرمایا ہے۔ اسی ایک حصے سے تمام مخلوقات (انسان‘ درندے‘ چرندے‘ پرندے اور کیڑے مکوڑے) باہم ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور رحمت سے پیش آتے ہیں۔ گھوڑی جو اپنے بچے سے اپنا پائوں (ٹچ ہوتے ہی فوراً) اوپر اٹھا لیتی ہے کہ بچے کو تکلیف نہ ہو ‘اسی ایک حصہ رحمت کی وجہ سے ہے‘‘ (بخاری:6000)۔
قارئین کرام! مذکورہ حدیث کو امام بخاری دوسری جگہ لائے ہیں‘ تو وہاں اس جملے کا اضافہ ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا'' اگر کافر کو اللہ کی ساری رحمت کا‘ جو اس کے پاس ہے‘ پتہ چل جائے ‘تو وہ اللہ کی جنت سے کبھی مایوس نہ ہو اور اگر مومن کو اللہ کے ہاں ہر قسم کی سزا کا علم ہو جائے‘ تو وہ دوزخ سے کبھی بے خوف نہ ہو‘‘ (بخاری:6469)۔
جی ہاں! جس نے رمضان میں بھی اللہ کے بندوں کے حقوق کو پامال کیا‘ انسانی حقوق کا احترام نہ کیا‘ وہ کتنا ہی مومن بنا پھرے‘ اللہ کی سزا سے بچ نہیں سکتا‘ لہٰذا میں عرض کروں گا کہ ظالموں کو فوراً مظلوموں سے معافی کا طلبگار ہو جانا چاہئے۔ مظلوموں کی مدد کا یہ مہینہ ہے‘ آگے بڑھنا چاہئے۔ حضورﷺ نے فرمایا'' جو کسی پر رحم نہیں کرتا ‘اس پر بھی رحم نہیں کیا جائے گا ‘‘(بخاری:6013)۔ یاد رہے! اللہ کے رسولﷺ نے پریشان حال ضرورت مند کی مدد کرنے کو بھی صدقہ قرار دیا۔ کسی کو نقصان پہنچانے سے کوئی رک جائے اسے بھی صدقہ قرار دیا (بخاری: 6022)۔ بیوہ اور مسکین کی مدد کی خاطر بھاگ دوڑ کرنے والے کو ایسا مجاہد قرار دیا‘ جو دن کو روزہ رکھتا ہے اور رات کو نماز پڑھتا ہے (بخاری:6006)۔
لوگو! اللہ کے رسولﷺ ایسا معاشرہ چاہتے ہیں!!۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved