تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     01-06-2018

کون زیادہ خوش قسمت؟

بعض اوقات انسان سوچتا ہے کہ وہ لوگ جو غربت میں زندگی گزار رہے ہیں ، ان کی زندگیاں کس قدر تکلیف دہ ہیں ۔ دوسری طرف آپ دیکھیں تو اس دنیا میں کچھ چیزیں ایسی ہیں ، جو کہ امیر اور غریب کی تخصیص کے بغیر سب کو ایک جیسی دی گئی ہیں۔ ان چیزوں میں جسم میں موجود immune systemسر فہرست ہے ۔
یہ ایک ایسا نظام ہے ، جو جسم میں ایک باہر سے آنے والے ایک ذرّے کو بھی دشمن قرار دے کر اس پر حملہ آور ہو جاتاہے ۔ اسی امیون سسٹم کا کرشمہ ہے کہ کرہ ٔ ارض کے اربوں افراد میں سے زیادہ تر آلودہ پانی پینے کے باوجود موت کا شکار نہیں ہوتے ‘ جن لوگوں کے گردے ، جگر یا کوئی اور عضو ناکارہ ہو جائے اور انہیں وہ عضو پیوند کرانا پڑے تو ان کا امیون سسٹم اس باہر سے آنے والے عضو کے خلاف بھرپور اعلانِ جنگ کر دیتاہے ۔ اسے صرف اور صرف اس بات سے غرض ہوتی ہے کہ یہ چیز اس جسم سے belongنہیں کرتی ‘ یہ دشمن ہے ‘لہٰذا اسے تباہ کر دینا چاہیے ۔ اس صورتِ حال میں ڈاکٹر اس شخص کو ایسی دوائیاں دیتے ہیں ، جس سے یہ امیون سسٹم کمزور ہو جائے ۔ اس کے بعد عضو کی پیوند کاری کرانے والا یہ شخص مختلف بیماریوں کے رحم و کرم پر ہوتاہے ۔ ایک زندہ لاش کی طرح اسے اپنی باقی زندگی گزارنا پڑتی ہے ۔
ہم سب امیروں اور غریبوں میں یہ امیون سسٹم موجود ہے ۔ اس کی مالیت کھربوں ڈالرز میں بھی ادا نہیں کی جا سکتی۔ اسی امیون سسٹم کا کرشمہ ہے کہ جو لوگ علاج نہیں بھی کراتے ، وہ بھی زیادہ تر کیسز میں خود ہی لوٹ پوٹ کر ٹھیک ہو جاتے ہیں ۔یہ امیون سسٹم صرف انسانوں میں ہی نہیں بلکہ سب جانوروں میں پایا جاتاہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جنگلات میں زندگی گزارنے والے کھربوں جانور کسی بھی ڈاکٹر تک رسائی نہ ہونے کے باوجود موت سے پہلے تک اپنی زندگی با آسانی جیتے ہیں ۔اسی طرح ٹانسلز بھی بہت اہمیت کے حامل ہیں ، خصوصاً شیر خوار بچوں میں ۔یہ امیروں اور غریبوں ، سب کے بچوں میں ایک ہی طرح سے نصب ہوتے ہیں ۔ ایک بہت ہی اہم چیز ہے خون کا جمنا ۔ جب انسان کو زخم لگتاہے‘ تو خون فوری طور پر جم کر ایک موٹی سی تہہ بنا لیتاہے ۔ یہ کس قدر بڑی نعمت ہے ‘ اس کااندازہ اسی کو ہو سکتاہے ‘ تھیلیسیمیا کی وجہ سے جس کا خون جم نہیں پاتا ہے ۔ 
اسی طرح جسم کا سٹرکچر ؛ سخت کھوپڑی اور ہڈیاں ہی وہ بنیادی نظام ہیں ‘ جو جسم کو مہلک چوٹ سے بچاتی ہیں ۔ الّا یہ کہ بندے کا وقت پورا ہو چکا ہو‘ یہ کھوپڑی اور ہڈیاں انسان کی جان بچا ہی لیتی ہیں ۔ یہ جسم کے اندر موجود اہم اعضا کو نقصان پہنچنے نہیں دیتیں ۔ اسی طرح زخم کا بھرنا وہ نعمت ہے ‘ جو کہ سب انسانوں بلکہ سب جانداروں کو دی گئی ہے ۔ ہمارے جسم پر کوئی زخم لگے تو ایک کھرنڈ یا سخت تہہ اس کے اوپر بن جاتی ہے ۔ نیچے زخم بھرتا رہتاہے ۔ جب پوری طرح بھر جاتاہے تو پھر یہ اوپر والی سخت تہہ آہستہ آہستہ اتر جاتی ہے ۔ 
سب جسمانی اور ذہنی معاملات میں امیر اور غریب ایک برابر ہو جاتے ہیں ۔ دونوں بڑھاپے اور بیماری کا شکار ہوتے ہیں ۔ اس عمر کو کھربوں ڈالر ز دے کر بھی روکا نہیں جا سکتا۔ ایک امیر شخص جو کہ بوڑھا ہے ‘ اس کے مقابلے میں ایک غریب لڑکا جسمانی قوت اور جوش وجذبے کی وجہ سے زیادہ اچھا محسوس کرتاہے۔وہ خوامخواہ سیٹی بجاتا رہتاہے ۔ 
بہت ساری دوسری چیزیں بھی کم اہم نہیں ‘ مثلاً:اچھی بیوی ۔ میرا ایک دوست ٹیکسی ڈرائیور ہے ، جو ہمیشہ جھولی اٹھا اٹھا کر اپنی بیوی کو دعائیں دیتا رہتاہے ‘ اس کے اچھے روّیے کی تعریف کرتا رہتاہے جبکہ بہت سارے امیر لوگ اپنی بیویوں کی شکایت کرتے پائے گئے ہیں ۔ کچھ بیویاں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ شوہر آفس سے پندرہ منٹ لیٹ ہو تو اسے فون پر فون کرتی ہیں ۔ نگرانی کا ایک پورا نظام کام کر رہا ہوتاہے ‘ جس کا معیار سی آئی اے سے بھی اوپر ہوتاہے ۔ ایک نادیدہ رسّی شوہر صاحب کے گلے میں بندھی ہوتی ہے ۔ اسی طرح بیویوں کو اچھے مزاج کا شوہر ملے‘ یہ ضروری نہیں ‘ خواہ وہ کتنی ہی امیر ہوں ۔ ہو سکتاہے کہ ایک غریب عورت کا شوہر اس کا بہت خیال رکھتا ہو ۔ 
اسی طرح امارت اس چیز کی ضمانت نہیں کہ آپ کو اچھی اولاد ہی ملے گی ۔ باوجود بے انتہا دولت کے باوجود اولاد انتہائی نافرمان ثابت ہو سکتی ہے ۔ کچھ غریب لوگوں کو مثالی اولاد ملتی ہے ‘ جو کہ ساری زندگی ماں باپ کی خدمت کرتی رہتی ہے ۔شدید بڑھاپے میں ذاتی طور پر اپنے ماں باپ کا خیال رکھتی ہے ۔ مراد یہ ہے کہ ان چیزوں میں امیر اور غریب کی تخصیص نہیں بلکہ ان کا تعلق قسمت سے زیادہ ہے ۔ 
اسی طرح آپ رزق کا جائزہ لیں ‘تو حدیث کی روشنی میں رزق وہ وسائل ہوتے ہیں ‘ جو کہ انسان دنیا میں واقعی استعمال کر لیتاہے ۔ جیسے میں نے دن میں دو روٹیاں کھانی ہیں اور جس مٹی کی اینٹوں سے بنے ہوئے ‘جس کمرے میں رہنا ہے ‘جس لکڑی کے بنے پلنگ پر سونا ہے ‘ وہ میرا رزق ہے ۔ اس حساب سے اگر آپ دیکھیں ‘تو غریب امیروں سے زیادہ روٹیاں کھاتے ہیں ۔ پھر یہ کہ انسان کے پاس اکائونٹ میں جتنی دولت بھی موجود ہو‘ وہ دو تین روٹیوں سے زیادہ تو نہیں کھا سکتا ۔ جتنی بھی زمینیں اور پلاٹ ہوں‘ وہ ایک ہی کمرے میں سو سکتاہے ۔لباس بھی ایک ہی پہن سکتاہے ۔ اور امیر ہوں یا غریب‘یہ لباس سب نے پہنا ہوتاہے ۔
ایک بہت اہم چیز جسمانی مشقت ہے ۔ میڈیکل سائنس یہ بتاتی ہے کہ جسمانی کام کاج کرنا صحت کے لیے بہت اچھا ہے ۔ اسی لیے لوگ کروڑوں روپے لگا کر جم بناتے ہیں اور اس میں محنت کرتے ہیں جبکہ غربا کی اکثریت جسمانی مشقت کرنے پر ویسے ہی مجبور ہے ۔یوں وہ جسمانی طور پر امیروں سے زیادہ فٹ رہتے ہیں ۔ جسمانی فٹنس‘ جس قدر مسرت انسان کو دیتی ہے ‘ یہ وہی جان سکتاہے ‘ جس نے کبھی بھرپور جسمانی مشقت کی ہو ۔ 
ذہنی سکون کس کے پاس زیادہ ہے ؟ امیر کے پاس بھی ہو سکتاہے اور غریب کے پاس بھی ۔ سکون کا تعلق بھی دولت سے نہیں ہے ۔ بادشاہوں کو زیادہ تر مضطرب دیکھا گیا ہے ۔ اسے آخری وقت تک یہی سمجھ نہیں آتی کہ کون اس کے ساتھ مخلص ہے اور کون دشمن کا ہرکارہ ۔ انسانی خواہشات اتنی زیادہ رکھی گئی ہیں کہ ایک وسیع و عریض سلطنت کا مالک بھی مطمئن نہیں رہتا بلکہ حدیث کے مطابق ایک سونے کی وادی کے بعد دوسری سونے کی وادی کی خواہش پیدا ہوجاتی ہے ‘ تو جو اچھے طریقے سے اپنی ضرورت پوری کرنے کے بعد قناعت اختیار کرے‘ وہی مطمئن رہ سکتاہے ۔ 
ضروری نہیں کہ امیر مضطرب اور بے سکون ہی ہو۔ ضروری نہیں کہ اسے برا شریکِ حیات ہی ملا ہو ‘ ضروری نہیں کہ وہ جسمانی طور پر ان فٹ ہی ہو ۔ ضروری نہیں کہ امیر کو نافرمان اولاد ہی نصیب ہو بلکہ معاملہ اس کے برعکس بھی ہو سکتاہے ۔ بہرحال یہ وہ چیزیں ہیں ، جن میں دولت کی بجائے انسان کی قسمت زیادہ اہم ہے ۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved