میاں نوازشریف کا ایک دیرینہ اور مخلص کارکن گزشتہ شام ملاقات کے لئے پہنچا۔ کئی افسروں کی سفارشیں لکھوائیں۔ دوچار ایم پی ایز ‘بااثر لوگوں کی سفارشیں لے کر میاں صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔سب کا مدعا ایک ہی تھا۔
''کسی نے عرض کی تھی کہ آپ مہربانی فرمائیں اور میاں صاحب سے اپنے ایک حلقے میں ٹکٹ کے لئے میری سفارش کر دیں‘‘۔ باقی سفارشیں بھی ایسی ہی تھیں
میاں صاحب ابتدا میں تو متعجب ہوئے کہ یہ مجھ سے کس پارٹی کے لئے ٹکٹ کی سفارش کرنے آگیا؟ انہیں کچھ حیرت ہوئی‘ لیکن پھر خیال کیا کہ یہ تو میرا دیرینہ پرستار ہے لیکن باتیں اکھڑی اکھڑی کر رہا ہے۔پھر بھی احتیاطاً انہوں نے پوچھ لیا کہ تم کس حلقے کا ٹکٹ لینے آئے ہو؟
''سفارش کی فرمائش کر نے کے لئے میں خود آپ کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ میاں جی! ہمارا سارا خاندان آپ کا احسان مند ہے۔ ہم سارے بھائیوں اور رشتے داروں کی مشترکہ فرمائش ہے کہ آپ ہمیں فلاں حلقے کے لئے ٹکٹ دلو ادیں‘‘۔
''آپ نے بڑا احسان فرمایا۔ میں خود بھی سوچ رہا تھا کہ فلاں ضلعے میں صوبائی حلقے کا ٹکٹ آپ کو دلوا دوں‘‘۔
''سر!میں پہلے بھی اسی حلقے کا ٹکٹ مانگنے آیا تھا۔ لیکن آپ نے مجھے چھوڑ کرکسی سرمایہ دار کوٹکٹ دے دیا تھااور ساتھ ہی الیکشن لڑنے کے لئے کچھ رقم بھی اس کے حوالے کی تھی‘‘۔
''پھر کیا ہوا؟ میاں صاحب نے پوچھا؟‘‘۔
''ہونا کیا تھا؟آپ کے نام پر بڑے بڑے باکس بھر گئے‘‘۔
'' یہ1993ء ہو گا۔ جس نے بھی ہمارا ٹکٹ لیا‘ اس نے جی بھر کے دولت کمائی۔تم بڑے خوش نصیب ہو کہ ہمارے پاس آگئے ہو‘‘۔
''اس با ر مہربانی کردیں‘‘۔میں بڑی امیدیں اور آرزوئیں لے کر آیا ہوں ۔
''ایک مرتبہ احسان فرما دیجئے اور ٹکٹ کی سفارش کے لئے رقعہ لکھ دیجئے‘‘۔
''رقعہ تو ابھی لکھ دیتا ہوں‘ لیکن....‘‘۔
''آپ کا بے حد شکریہ۔ بڑی مہربانی۔ آپ نے پہلے بھی میری زندگی بدلی تھی۔اس بار بھی امید لے کر آیا ہوں۔ بس آپ جلدی سے ایک خط لکھ دیں تاکہ قسمت پھر مجھ پر مہربان ہو جائے‘‘۔
''یہ خط خط تم نے کیا لگا رکھی ہے؟ٹکٹ مجھے دینا ہے۔ ابھی لکھ دیتا ہوں‘‘۔
''آپ کی ذرا سی مہربانی سے اللہ تعالیٰ پھر ہماری سن لے گا اور پہلے سے بھی زیادہ جھولیاں بھر جائیں گی‘‘۔
''اوئے تم خط کس کے لئے مانگ رہے ہو؟‘‘
''وہی جی! قوم کا کپتان‘ جس کا نام عمران خان ہے‘‘۔
''اٹھ اوئے تیری۔۔۔۔ابھی دفع ہو جائو ۔ورنہ باہر کھڑے ہوئے میرے پرستار تمہاری ہڈی پسلی ایک کر دیں گے‘‘۔
حاجت مند جلدی سے نکلا اور دروازے کی حالت دیکھ کر پکارا''سر! یہاں تو کوئی بھی نظر نہیں آرہا‘‘۔
وہاں سے مایوس ہو کر واپس جا رہا تھا کہ چند بندوں کی ایک ٹولی آتی دکھائی دی تو واپس جانے والے شخص نے پوچھا '' کدھر جا رہے ہو؟‘‘
''میاں صاحب کے دفتر جا رہے ہیں‘‘۔
''وہاں کیا لینے جا رہے ہو؟‘‘
''کپتان کا فارم‘‘۔
''اوئے بے وقوفو! ادھر تو میچ کے ٹکٹ مل رہے ہیں ۔ ووٹ کی پرچی نہیں‘ ‘۔