تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     02-06-2018

ٹام اینڈ جیری کا قہقہہ

اسلام آباد میں موجود ایک سینئر سفارت کار‘نگران وزیر اعظم کی نامزدگی کی خبریں تو پہلے ہی دے چکے تھے کہ آپ کاCare Taker اوپر سے آئے گا۔ ہمارے جیسے بہت سے لوگ سمجھتے رہے کہ شائد اُن کاا شارہ خلائی مخلوق کی جانب ہے‘ لیکن جب خورشید شاہ اور شاہد خاقان عبا سی جو یہ کہتے ہوئے ایک دوسرے سے منہ موڑ چکے تھے کہ اب کوئی ملاقات نہیں ہو گی‘ او پر سے برسنے والے کوڑے سے پھر اکٹھے ہوئے اور وہ نام سامنے لائے‘ جس کا کسی کو یقین ہی نہیں آ رہا ۔۔۔ کہا جا رہا تھا کہ نئے مقرر کئے گئے امریکہ میں پاکستانی سفیر علی جہانگیر صدیقی کے چارج لینے سے پہلے امریکی وائسرائے کی جانب سے دیئے گئے نام کا اعلان ضروری تھا۔ اگر کسی کو میری اس بات پر کچھ تشویش ہو رہی ہے یا وہ اسے نا قابل ِیقین سمجھ رہا ہے‘ تو2013ء میں میرے اُس آرٹیکل کو سامنے رکھ لے‘ جس میں USAID کے اس راجیو شاہ کے نام کا ذکر کیا تھا کہ مئی کے ان انتخابات کیلئے اس نے کتنی رقم مہیا کی تھی؟ اس وقت بھی میری کسی بات پر دھیان دیئے‘ بغیر اپنے چند خوشامدی اور منہ بگاڑکر انگریزی بولنے والوں میں گھرا ہوا عمران خان آنکھیں بند کئے بیٹھا رہا اور الیکشن منعقد کرانے کے نام پر اربوں ڈالر سمیٹنے والے اپنی چال چلنے میں کامیاب ہو گئے ۔
نامزد وزیر اعظم کی تعریف اس سے زیا دہ کچھ نہیں کہ یہ وہی ہیں‘ جنہوں نے خیر سے سپریم کورٹ میں ایک ایسی سزا ‘جو اپیل کی آئینی اور قانونی مدت پوری کر چکی تھی‘ اس کو زندہ کرکے طیارہ سازش کیس کی سماعت کرتے ہوئے نواز شریف کو دھوم دھڑلے سے بری کر دیا۔ میںا ن دنوں سپریم کورٹ میں یہ سماعت دیکھتا اور سنتا رہا اور اس بنچ میں شامل آج کے نگران وزیر اعظم کے تیور دیکھتا اور ریمارکس بھی سنتا رہا ہوں۔ میرے لئے حیرانی کی سب سے بڑی بات یہ تھی کہ موصوف بہت ہی دھیمے مزاج اور کم بولنے والے شخص جانے جاتے تھے‘ لیکن طیارہ سازش کیس میںمیاں نواز شریف کی وکالت کرتے ہوئے ‘ان کو اس طرح ٹھوک بجا کر بری کرنے کا حکم سنا گئے کہ ان کی آواز میں ایک اور ہی طرح کی گھن گرج پیدا ہو رہی تھی۔ لگتا تھا کہ نامزد وزیر اعظم نے میاں صاحب کو نہیں بلکہ اپنے کسی عزیز کو بری کرنے کا حکم دیا ہے۔ 
نا صر الملک کی نا مزدگی سے شفاف الیکشن کی تمام خوش فہمیاں ختم ہو چکی ہیں۔ اب کوئی معجزہ ہی ہوگا‘ جواس ملک میں عوام کو اپنی مرضی کی حکومت منتخب کرنے کا موقع مل جائے ۔ کیا سمجھ لیا جائے کہ ایک مرتبہ پھر خلائی مخلوق کا دبائو بڑھ گیا ہے۔۔۔اطلاعات تو مل رہی تھیں کہ دونوں طرف کے انتہائی راز دار عزیز آصف علی زرداری اور میاں محمد نواز شریف کی ہدایات پرایک دوسرے سے میثاق ِجمہوریت کی بحالی کیلئے رابطوں میں تھے۔۔۔سیکرٹری الیکشن کمیشن یعقوب بابر کی الیکشن کو کسی بیرونی طاقت کے ہاتھوں چرائے جانے کی چیخ و پکار کو اب کچھ اور ہی رنگ کے معنی پہنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں‘ لیکن انہوں نے جو کچھ کہا ؛ وہ نگران وزیر اعظم کی نامزدگی کے پس منظر کو دیکھ کر ہی کہا ہے‘ سوچئے یہ باتیں انہوں نے پہلے کیوں نہیں کیں؟
یعقوب بابر اسلام آباد میں ہی بیٹھے ہوئے ایک پرانے اور بہت ہی وسیع حلقہ احباب رکھنے والے سینئر ترین عہدے سے ریٹائر ہونے والے بیوروکریٹ ہیں ‘ جن کے غیر ملکی سفارت کاروں سے ہم سے بھی زیا دہ رابطے ہیں۔انہوں نے جو کچھ کہا‘ بالکل درست کہا ہے کہ ملکی انتخابات اغوا کئے جانے کا خدشہ ہے۔ نگران وزیر اعظم بننے والے سابق چیف جسٹس نا صر الملک کی نامزدگی پر نواز شریف اسی لئے شادیانے بجا رہے ہیں کہ وہ خیر سے اس بنچ کے رکن تھے‘ جس نے میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف پر خصوصی نوازشات کرتے ہوئے ریویو پٹیشن میں سپریم کورٹ کے اس تین رکنی معزز بنچ کی جانب سے دی جانے والی ان کی نا اہلی کی سزاکو ختم کرنے میں فعال کردار ادا ۔۔۔مبین الدین قاضی ایڈوو کیٹ سپریم کورٹ نے تین رکنی بنچ کے سامنے‘ میاں برادران کی نا اہلی کیلئے جو پٹیشن تیار کی اور انہوں نے جو دلائل دیئے تھے‘ انہیں سننے کے بعد میرے ساتھ کمرہ عدالت میں بیٹھے ہوئے بہت سے وکلا بے ساختہ کہنے لگے کہ میاں برادران نا اہل ہو جائیں گے اور پھر ایسا ہی ہوا‘ لیکن پھر نامزد وزیر اعظم کی جانب سے انہونی ہوگئی ۔آج‘ اگر میاں نواز شریف یا شہباز سیا ست میں ہیں یا تین تین مرتبہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب بن کر پانچ برس تک اختیارات کا بھر پور فائدہ اٹھاتے رہے ‘ تو یہ سب اس بنچ کی وجہ سے ممکن ہو ا‘ جس کے جناب ناصر الملک رکن تھے۔
جناب نا صر الملک اس کمیشن کے سربراہ تھے ‘جو2013 ء کے انتخابات میں بقول اس وقت کے صدر مملکت آصف علی زرداری کے صاف اور شفاف نہیں تھے بلکہ ROs کے الیکشن تھے اور جب دھاندلی کی انہی وسیع شکایات پر تحریک انصاف نے اسلام آباد کو بند کرنے کی دھمکی دی‘ تو اسے روکنے کیلئے جو جوڈیشل کمیشن قائم کیا گیا ‘اس نے ان الیکشن کو کلین چٹ دے دی اور اس کمیشن کے سربراہ جناب نا صر الملک تھے‘ جنہوں نے بغیر ان شکایات کی تحقیق کرنے کے میاں صاحب کو ان تمام الزامات سے مبرا کر دیا‘ جن کے بارے میں اب میڈیا کا ایک ایک رکن بول رہا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ کے کہنے پر یہ افتخار چوہدری اور کیانی کے مرتب کئے گئے نتائج تھے ...وہ لوگ جو عمران خان کے بارے میں بڑے ہی مضحکہ خیز انداز میں امپائر کی انگلی کے حوالہ دیتے ہوئے جو ڈیشل مارشل لاء کی بات کرتے ہیں‘ تو اس وقت یہی نا صر الملک چیف جسٹس تھے اور خاص طور پر جاوید ہاشمی جیسے لوگ منہ اٹھا کر کہہ رہے ہیں کہ عمران خان نے اسلام آباد دھرنے کے پس منظر کے متعلق بتاتے ہوئے کہا تھا کہ جلد ہی'' جوڈیشل مارشل لائ‘‘ لگ جائے گا‘ جب عمران خان پر امپائر کی انگلی یا جو ڈیشل مارشل لاء کا الزام لگاتے ہیں‘ تو بھول جاتے ہیں کہ ا س وقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس یہی جناب نا صر الملک ہی تھے۔ اب ان سے پوچھا جائے کہ کیا ان کی عمران خان سے کوئی پس پردہ تعلقات تھے ؟جس کی بنا پر جاوید ہاشمی بار بار کہے جا رہا ہے کہ مجھے جوڈیشل مارشل لاء کی خبر ملی تھی۔ 
چڑیا کہہ لیں یا میرے استاد گوگا دانشور کی مخبری سمجھ لیں‘ اب آپ کو آصف زرداری اور نواز شریف کے دو انتہائی خاص رشتہ داروں کے درمیان ہونے والی اس گفتگو کی چند خاص خاص باتیں بتاتے ہیں‘ جو جناب ناصر الملک کی غیر متوقع نگران وزیر اعظم کے طور پر تقرری کی وجہ بنی۔ ''دیکھو ہماری اور آپ کی لڑائی کوئی نئی بات نہیں‘ برسوں سے ایک دوسرے کو ہم گالیاں طعنے اور دھکے دیتے چلے آ رہے ہیں‘ اگر ہم نے آپ کو ایک بار نیچے گرایا‘ تو تھوڑے عرصے بعد آپ نے بھی ہمیں اٹھا کر نیچے پھینک دیا‘ اس لئے ہمارا اور آپ کا حساب برا بر رہتا رہا‘بہتر ہے کہ وہ آدمی لے کر آئیں‘ جو ہمارے ڈھب کا ہو‘ نا کہ کوئی اکھڑ اور غیر جانبدار‘‘۔
اور پھر ٹام اینڈ جیری ایک زبردست قہقہہ برساتے ہوئے ایک دوسرے سے بغل گیر ہو گئے...!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved