ایک انٹرویو پرمجھ پر غداری کا الزام لگایا گیا: نواز شریف
مستقل نا اہل اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ''ایک انٹرویو پر مجھ پر غداری کا الزام لگایا گیا‘‘ حالانکہ عدلیہ اور فوج کے خلاف بیانات پر اس سے بھی بڑا الزام لگنا چاہئے تھا ‘لیکن اس وقت میری حوصلہ افزائی کی گئی اور توہین ِعدالت تک نہیں لگائی گئی‘ افسوس کہ لوگوں میں توازن کی بے حد کمی ہے‘ نیز اب تو ڈاکٹر عاصم حسین نے بھی کہہ دیا ہے کہ نواز شریف بچ جائیں گے اور جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ وہ بھی بچ جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ''کچھ لوگ الیکشن ملتوی کرانے پر تلے ہوئے ہیں‘‘ اور یہ وہی لوگ ہیں‘ جو مجھے نکلوانے پر تلے ہوئے تھے اور بالآخر نکلوا کر ہی چھوڑا اور میں آج تک یہی کہے چلا جا رہا ہوں کہ مجھے کیوں نکالا؟ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''زندگی میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں‘‘ لیکن جتنا نشیب مجھے نظر آ رہا ہے ‘اتنا تو کبھی دیکھا نہ تھا ۔ آپ اگلے روز فیصل آباد میں خطاب کر رہے تھے۔
الیکشن کمیشن مضبوط ہونا چاہئے‘ نگران
حکومت کی ضرورت ہی نہ پڑے:عمران خان
پاکستان تحریک ِانصاف کے چیئر مین عمران خان نے کہا ہے کہ ''الیکشن کمیشن مضبوط ہونا چاہئے‘ نگران حکومت کی ضرورت ہی نہ پڑے‘‘ اور اگر الیکشن کمیشن کسی قسم کی کمزوری محسوس کر رہا ہو تو اس کے لئے ہمارے پاس جھاڑ پھونک اور دم درود کا پورا انتظام موجود ہے‘ آزمائش شرط ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''عام انتخابات مقررہ وقت پر اور شفاف ہونے چاہئیں اور 35 پنکچروں کی روایت کو نہ دہرایا جائے۔ اگرچہ موصوف نہ تینوں میں ہیں‘ نہ تیروں میں ‘ لیکن وہ طریقے تو بنا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''خواجہ آصف کی نا اہلی ‘بارے عدالتی فیصلہ قبول ہے‘‘ کیونکہ ہم تو انشاء اللہ ہر عدالتی فیصلہ قبول کرتے چلے ہیں ‘جبکہ ہمارے روحانیت کا پہلا سبق ہی یہ ہے کہ عدالتی فیصلے قبول کریں کہ نکاح کی قبولیت کے ساتھ یہ قبولیت بھی شامل تھی۔ آپ اگلے روز لاہور میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
موقع ملا تو پاکستان کے شہر کو چمکائیں
اور سنواریں گے: شہباز شریف
سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''موقع ملا تو پاکستان کے شہر کو چمکائیں اور سنواریں گے‘‘ جیسا کہ قرض اتارو‘ ملک سنوارو کے موقع پر کرنا تھا‘ لیکن اتفاق میں ایسا ہوا کہ جو رقومات باہر سے آئیں‘ وہ سیدھی بھائی صاحب کے اکائونٹس میں جمع ہوتی رہیں ‘کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اگر قرضوں نے اترنا ہے ا ور ملک نے سنورنا ہے تو یہ سب کچھ اپنے آپ ہی ہو جائے گا۔ اس کے لئے اتنا پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہر جگہ موٹرویز اور میٹرو بسیں چلائیں گے‘‘ کیونکہ بڑے منصوبوں ہی میں تو زیادہ سے زیادہ خدمت وصولی کرنے کا امکان ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ان کے علاوہ بھی میگا پراجیکٹس شروع کریں گے‘‘ کیونکہ خدمت کی تو کوئی انتہا ہے ہی نہیں‘ جتنا بڑا منصوبہ ہو گا‘ اس میں اللہ میاں اتنی ہی زیادہ برکت ڈالتے ہیں۔ آپ اگلے روز سابق ارکان اسمبلی‘بلدیاتی عہدیداروں کے ساتھ ملاقات کر رہے تھے۔
لگتا ہے کوئی سسٹم الیکشن ملتوی کرانا چاہتا ہے: پیپلز پارٹی
پاکستان پیپلز پارٹی نے کہا ہے کہ ''لگتا ہے کوئی سسٹم الیکشن ملتوی کرانا چاہتا ہے‘‘ اور یہ وہی سسٹم ہے ‘جس کے خلاف سابق وزیراعظم واویلا مچا رہے ہیں اور جس کا مقصد پارٹیوں کی دھلائی ستھرائی ہے‘ حالانکہ ہم اسی طرح میلے کچیلے ہی خوش ہیں اور یہ کام عوام کو کرنے دیا جائے ‘جو خود صاف ستھرے رہنے کے عادی نہیں ہیں اور اپنے محبوب لیڈروں کی دھلائی ہوتے بھی نہیں دیکھ سکتے۔ انہوںنے کہا کہ ''الیکشن میں تاخیر کی گئی تو ملک میں بے چینی پھیلے گی‘‘ اس لیے الیکشن میں ایسے آدمیوں کو آنے سے نہ روکا جائے‘ جن کی عوام کو عادت پڑی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نامزدگی فارم کو عدالتی حکم سے بدلنا نہیں جا سکتا‘ لیکن کیسا افسوس کا مقام ہے کہ عدالتیں مقدمات سننے کی بجائے سیاسی معاملات میں بھی دخل اندازی کر رہی ہیں حالانکہ عوام سیاستدان بھی اپنے ہی جیسے چاہتے ہیں۔ آپ اگلے روز کراچی میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
اور اب آخر میں اس ہفتے کی تازہ غزل:
کوئی مکیں نہیں‘ سارا مکاں بھرا ہوا ہے
درخت ہی نہیں اور آشیاں بھرا ہوا ہے
یہاں پہ ایک نہ ہونے کی بھیڑ ہے جس سے
ہمارے سامنے سارا جہاں بھرا ہوا ہے
وہی درخت‘ وہی گھاس‘ اور وہی گھر ہیں
میری زمین سے ہی آسماں بھرا ہوا ہے
کوئی تو بات ہے‘ غصے میں شہر کا ہر شخص
کوئی یہاں بھرا ہوا ہے اور کوئی وہاں بھرا ہوا ہے
کہیں نظر نہیں آتا ہے راستہ ہر سو
سفر کی گرد سے ہی کارواں بھرا ہوا ہے
یہ لوگ دیکھنے میں مطمئن بھی ہیں‘ لیکن
دلوں میں بھی کوئی رنج گراں بھرا ہوا ہے
کوئی بھی خوف سے خالی نہیں ملے گا یہاں
اگرچہ یوں تو یہ کنجِ اماں بھرا ہوا ہے
تو اپنی جگہ سے کیوں ہل نہیں رہی کشتی
اگر ہوا سے مرا بادباں بھرا ہوا ہے
یہ شہر وہ ہے کہ ہر کوئی بے خبر ہے‘ ظفرؔ
کہاں سے خالی ہے یہ اور کہاں بھرا ہوا ہے
آج کا مقطع
وہ ہونے والا ہے شاید‘ ظفرؔ
جو دراصل ہونا نہیں چاہیے