تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     03-06-2018

انسان ایلین ہے ؟

پاکستانی سوشل میڈیا پر اس وقت کسی امریکی سائنسدان ڈاکٹر ایلس سلور کی تہلکہ خیز ریسرچ برق رفتاری سے پھیلتی چلی جا رہی ہے ۔ یہ ریسرچ کہتی ہے کہ انسان کرہ ٔ ارض کی مخلوق نہیں بلکہ وہ ایلین ہے ۔ کسی دوسری جگہ سے آیا ہے ۔ڈاکٹر صاحب نے ایک کتاب لکھی ہے‘ جو ایمزون پر موجود ہے ۔ اس کتاب کا عنوان ہے:
. Humans are not from Earth 
یاد رہے کہ یہ میری رائے نہیں‘ بلکہ سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والے الفاظ ہیں ۔ اپنی طالب علمانہ رائے میں بعد میں عرض کروں گا۔
ڈاکٹر ایلس سلور کی تحقیق کے اہم نکات درج ذیل ہیں :
1۔ انسان اس زمین کا اصل رہائشی نہیں ہے بلکہ اسے کسی دوسرے سیارے پر تخلیق کیا گیا ۔ کسی وجہ سے اس کے اصل سیارے سے کرۂ ارض پہ پھینک دیا گیا۔ 
2۔ ڈاکٹر ایلس جو کہ ایک سائنسدان ‘محقق ‘مصنف اور امریکہ کا نامور ایکالوجسٹ(Ecologist)ہے‘ اس کے الفاظ پر غور کیجیے؛ ذہن میں رہے کہ یہ الفاظ ایک سائنسدان کے ہیں ‘جو کسی مذہب پر یقین نہیں رکھتا۔ 
3۔ڈاکٹر ایلس سلور کا کہنا ہے کہ انسان جس ماحول میں پہلی بار تخلیق کیا گیا اور جہاں یہ رہتا تھا‘ وہ سیارہ ‘ وہ جگہ انتہائی آرام دہ ‘پرسکون اور مناسب ماحول والی تھی ۔وہاں پر انسان بہت ہی نرم و نازک ماحول میں رہتا تھا ۔انسان کی نازک مزاجی اور آرام پرست طبیعت سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے اپنی روٹی روزی کے لئے کچھ بھی تردد نہیں کرنا پڑتا تھا۔یہ کوئی بہت ہی لاڈلی مخلوق تھی ‘جسے اتنی لگژری لائف میسر تھی۔۔۔ وہ ماحول ایسا تھا ‘جہاں سردی اور گرمی کی بجائے بہار جیسا موسم رہتا تھا ۔ وہاں پر سورج جیسے خطرناک ستارے کی تیز دھوپ اور الٹراوائلٹ شعاعیں بالکل نہیں تھیں ‘جو اس کی برداشت سے باہر اور تکلیف دہ ہوتی ہیں۔ 
تب اس مخلوق انسان سے کوئی غلطی ہوئی۔اس کو کسی غلطی کی وجہ سے اس آرام دہ اور عیاشی کے ماحول سے نکال کر پھینک دیا گیا تھا۔جس نے انسان کو اس سیارے سے نکالا لگتا ہے‘ وہ کوئی انتہائی طاقتور ہستی تھی ‘جس کے کنٹرول میں سیاروں ستاروں کا نظام بھی تھا ۔۔۔ وہ جسے چاہتا‘ جس سیارے پر چاہتا‘ سزا یا جزا کے طور پر کسی کو بھجوا سکتا تھا۔ وہ مخلوقات کو پیدا کرنے پر بھی قادر تھا۔ 
ڈاکٹر سلور کا کہنا ہے کہ زمین کسی ایسی جگہ کی مانند تھی‘ جسے جیل قرار دیا جاسکتا ہے۔ یہاں پر صرف مجرموں کو سزا کے طور پر بھیجا جاتا ہو‘ کیونکہ زمین کی شکل۔۔۔ کالا پانی جیل کی طرح ہے۔۔۔ خشکی کے ایک ایسے ٹکڑے کی شکل جس کے چاروں طرف سمندر ہی سمندر ہے‘ وہاں انسان کو بھیج دیا گیا۔
ڈاکٹر سلور ایک سائنٹسٹ ہے‘ جو صرف مشاہدات کے نتائج حاصل کرنے بعد رائے قائم کرتا ہے۔ اس کی کتاب میں سائنسی دلائل کا ایک انبار ہے‘ جن سے انکار ممکن‘ نہیں۔
اس کے دلائل کی بڑی بنیاد‘ جن پوائنٹس پر ہے‘ ان میں سے چند ایک ثابت شدہ یہ ہیں:۔ 
نمبر ایک۔ زمین کی کشش ِ ثقل اور جہاں سے انسان آیا ہے‘ اس جگہ کی کشش ثقل میں بہت زیادہ فرق ہے‘ جس سیارے سے انسان آیا ہے‘ وہاں کی کشش ِثقل زمین سے بہت کم تھی‘ جس کی وجہ سے انسان کے لئے چلنا پھرنا بوجھ اٹھانا وغیرہ بہت آسان تھا۔ انسانوں کے اندر کمر درد کی شکایت زیادہ گریوٹی کی وجہ سے ہے۔ 
نمبر دو؛انسان میں جتنے دائمی امراض پائے جاتے ہیں‘ وہ باقی کسی ایک بھی مخلوق میں نہیں ‘جو زمین پر بس رہی ہے۔ ڈاکٹر ایلس لکھتا ہے کہ آپ اس روئے زمین پر ایک بھی ایسا انسان دکھا دیجیے‘ جسے کوئی ایک بھی بیماری نہ ہو تو میں اپنے دعوے سے دستبردار ہوسکتا ہوں‘ جبکہ میں آپ کوہر جانور کے بارے میں بتا سکتا ہوں کہ وہ وقتی اور عارضی بیماریوں کو چھوڑ کر کسی ایک بھی مرض میں ایک بھی جانور گرفتار نہیں ہے۔ 
نمبر تین؛ ایک بھی انسان زیادہ دیر تک دھوپ میں بیٹھنا برداشت نہیں کر سکتا بلکہ کچھ ہی دیر بعد اس کو چکر آنے لگتے ہیں اور سن سٹروک کا شکار ہوسکتا ہے ۔ جانوروں میں ایسا کوئی ایشو نہیں ہے۔ مہینوں دھوپ میں رہنے کے باوجود جانور کسی جلدی بیماری کا شکار نہیں ہوتے۔ نہ ہی کسی اور طرح کے مر ض میں مبتلا ہوتے ہیں‘ جس کا تعلق سورج کی تیز شعاعوں یا دھوپ سے ہو۔ 
نمبر چار؛ ہر انسان یہی محسوس کرتا ہے اور ہر وقت اسے احساس رہتا ہے کہ اس کا گھر اس سیارے پر نہیں۔ کبھی کبھی اس پر بلاوجہ ایسی اداسی طاری ہوجاتی ہے‘ جیسی کسی پردیس میں رہنے والے پر ہوتی ہے ‘چاہے وہ بیشک اپنے گھر میں اپنے قریبی خونی رشتے داروں کے پاس ہی کیوں نا بیٹھا ہوں۔ 
نمبر پانچ؛ زمین پر رہنے والی تمام مخلوقات کا ٹمپریچر آٹومیٹک طریقے سے ہر سیکنڈ بعد ریگولیٹ ہوتا رہتا ہے‘ یعنی اگر سخت اور تیز دھوپ ہے‘ تو ان کے جسم کا درجہ حرارت خود کار طریقے سے ریگولیٹ ہو جائے گا‘ جبکہ اسی وقت اگر بادل آ جاتے ہیں تو ان کے جسم کا ٹمپریچر سائے کے مطابق ہو جائے گا جبکہ انسان کا ایسا کوئی سسٹم نہیں بلکہ انسان بدلتے موسم اور ماحول کے ساتھ بیمارہھونے لگ جائے گا۔ موسمی بخار کا لفظ صرف انسانوں میں ہے۔ 
نمبر چھ؛انسان اس سیارے پر پائے جانے والے دوسرے جانداروں سے بہت مختلف ہے۔ اس کاڈی این اے اور جینز کی تعداد اس سیارہ زمین پہ جانے والے دوسرے جانداروں سے بہت مختلف اور بہت زیادہ ہے۔ 
نمبر سات؛ زمین کے اصل رہائشی (جانوروں) کو اپنی غذا حاصل کرنا اور اسے کھانا مشکل نہیں‘ وہ ہر غذا ڈائریکٹ کھاتے ہیں‘ جبکہ انسان کو اپنی غذا کے چند لقمے حاصل کرنے کے لیے ہزاروں جتن کرنا پڑتے ہیں۔ پہلے چیزوں کو پکا کر نرم کرنا پڑتا ہے‘ پھر اس کے معدہ اور جسم کے مطابق وہ غذا استعمال کے قابل ہوتی ہے۔ اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ انسان زمین کا رہنے والا نہیں ہے۔ جب یہ اپنے اصل سیارے پر تھا تو وہاں اسے کھانا پکانے کا جھنجٹ نہیں اٹھانا پڑتا تھا بلکہ ہر چیز کو ڈائریکٹ غذا کے لیے استعمال کرتا تھا۔
مزید یہ اکیلا دو پاؤں پر چلنے والا ہے‘ جو اس کے یہاں پر ایلین ہونے کی نشانی ہے۔
نمبر آٹھ؛ انسان کو زمین پر رہنے کے لیے بہت نرم و گداز بستر کی ضرورت ہوتی ہے‘ جبکہ زمین کے اصل باسیوں ‘یعنی جانوروں کو اس طرح نرم بستر کی ضرورت نہیں ہوتی۔یہ اس چیز کی علامت ہے کہ انسان کے اصل سیارے پر سونے اور آرام کرنے کی جگہ انتہائی نرم ونازک تھی ‘ جو اس کے جسم کی نازکی کے مطابق تھی۔
نمبرنو؛ انسان زمین کے سب باسیوں سے بالکل الگ ہے ؛لہٰذا یہ یہاں پر کسی بھی جانور کی ارتقائی شکل نہیں ہے ۔ 
نمبردس؛ انسان اتنا نازک مزاج ہے کہ اس سخت مشکلات والی جگہ پر آنے کے بعد بھی اپنی نازک مزاجی کے مطابق ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتا رہتاہے ۔ اس نے نرم بستر‘ بجلی ‘ اے سی اور طرح طرح کی آسائشات ایجاد کی ہیں ۔ محلات تعمیر کیے ہیں کیونکہ اسے محلات میں رہنے کی عادت تھی ۔
یاد رہے کہ یہ سب نکات ایک سائنسدان بیان کر رہا ہے ۔ 
نمبر11۔ ارتقا کے نظریات کا جنازہ اٹھ چکا ہے ۔ اب انسانوں کی سوچ کی سمت درست ہو رہی ہے ۔ یہ سیارہ ہمارا نہیں ہے ۔ 
جیسا کہ شروع میں عرض کیا ‘ ایک الگ کالم میں اپنی طالب علمانہ رائے اس تھیوری پر بیان کروں گا۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved