تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     04-06-2018

الیکشن ہوں گے مگر…!!

منڈی بہائوالدین کے سابق ایم پی اے طارق ساہی کا مقدمہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فُل بینچ میں پیش تھا۔ ساہی کی طرف سے بحث کے دوران انتخابات کے متعلق زبردست آئینی ڈیبیٹ ہوئی۔ چیف الیکشن کمشنر سردار رضا صاحب نے بہت اہم سوال اٹھایا۔ کہنے لگے: الیکشن شیڈول میں ہم الیکٹوریٹ سے کہتے ہیں، اپنے حلقہ میں الیکشن لڑو یا امیدوار کا چنائو کرو‘ بابر صاحب یہ بتائیں اگر کوئی حلقہ ہی موجود نہیں ہے‘ حلقہ بندیوں کے مقدمے سنے جا رہے ہیں تو الیکشن کمیشن کیسے کہے کہ الیکشن لڑو یا نمائندے چنو؟ اس ملین ڈالر سوال کے جواب میں عرض کیا: الیکشن ایکٹ 2017ء کے باب نمبر تین کی دفعات 17,20 اور 21 ان سوالوں کا مکمل جواب دیتی ہیں۔ میرے جواب کا دوسرا حصہ آئین کے آرٹیکل نمبر224-A اور 218(3) میں لکھا ہے۔ سادہ لفظوں میں صرف اتنا کہ آئین میں طے شدہ وقت کے اندر ہی جنرل الیکشن منعقد ہوں گے۔ ساتھ کہا، الیکشن آگے لے جانے کے دو ہی راستے ہیں۔ پہلا آئینی اور دوسرا غیر آئینی۔
آئینی راستہ آئین کے اندر سے کھلتا ہے جس کا طریقہ آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 238 اور 239 میں دیا گیا ہے۔ میں نے اسے (Amend the constitution) کا راستہ کہا۔ ساتھ یہ وضاحت بھی کر دی کہ آئین میں ترمیم کا راستہ فی الحال بند ہو چکا۔ سادہ وجہ پارلیمان کی غیر موجودگی ہے‘ کیونکہ قومی پارلیمان کے دونوں ایوان دو تہائی اکثریت کے ساتھ آئینی ترمیم پاس کر سکتے ہیں‘ سادہ اکثریت سے نہیں۔ دوسرا غیر آیئنی راستہ ہے (Suspend the constitution)۔ بطور آئین ساز وزیرِ قانون کے میرے نزدیک (suspend the constitution) راستہ نہیں بلکہ گہری کھائی ہے۔ طارق ساہی کا مقدمہ میرے حق میں ہو گیا۔ بحث لیکن جاری رہی کہ الیکشن نہیں ہوں گے۔ گاہے سندھ سے آواز اُٹھی مگر تسلسل کے ساتھ نااہل شریف کی جانب سے۔ پھر چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب کو بھی بولنا پڑ گیا: الیکشن میں ایک منٹ کی بھی تاخیر نہیں ہو گی۔ بحث مگر اس کے بعد پھر بھی جاری ہے۔ 
اس میں نیا ٹوئسٹ لاہور ہائی کورٹ کے الیکشن نامزدگی فارم والے فیصلے سے آیا۔ ایک انتخابی سیاسی جماعت کے سربراہ کو یہ حکم پسند نہ آیا۔ انھیں کہنا پڑا: تازہ فیصلے سے لگتا ہے بروقت الیکشن نہیں ہوں گے۔ پھر انتخابی اصلاحات کی پارلیمانی کمیٹی اِن دی لائن آف فائر آ گئی۔ دوسری جانب الیکشن کمیشن خم ٹھونک کر کھڑا ہوا۔ انتخابی اصلاحات کمیٹی نے نامزدگی فارمز میں کمی بیشی کا ملبہ الیکشن کمیشن پر پھینکا۔ کمیشن کا جواب مگر اس سے بھی سوا آیا۔ گھمسان کے اس رن نے یہ حقیقت آشکار کر دی کہ انتخابی اصلاحات کے معاملے میں پارلیمنٹ، قوم کی توقعات پوری کرنے میں بری طرح فیل ہوئی ہے۔ بے چاری کو نہ صفائی کے 10 نمبر ملے‘ نہ ہی اس امتحان میں پاس ہونے کے لیے روایتی 33 فیصد نمبر حاصل ہو سکے۔ ایک بات سے مگر کسی کا فرار ممکن نہیں رہا۔ پارلیمنٹ، پارلیمنٹ ہوتی ہے‘ قومی ضرورتوں کے مطابق قانون بنائے یا بے ثمر بحث مباحثہ کرنے والی سیاسی اداکاری کی نوٹنکی رچاتی رہے۔ بے سمت، نان ایشوز والی پوائنٹ سکورنگ بھی۔
گزشتہ شام ایک اہم تھنک ٹینک سے متعلقہ دوست تشریف لائے‘ جن کے لیے ویک اینڈ پر ہفتے کی شام والی چھٹی قربان کرنا پڑی۔ اتوار کو لا آفس کھلتا ہے۔ سوموار کے دن عدالتیں مقدمات چلاتی ہیں‘ جن کی تیاری کے لیے اتوار کا دن ہی دستیاب ہوتا ہے۔ جسٹس ثاقب نثار صاحب کے دور میں ایسا بھی تب ممکن ہے‘ جب اتوار کو میرا کوئی کیس سپریم کورٹ کی کاز لسٹ میں شامل نہ ہو۔ تھنک ٹینک والے دوست واقعی'' تھِنکنگ‘‘ کرکے آئے تھے۔ اولین سوال یہ پوچھا: جس ملک میں لاکھوں لوگ ارب پتی‘ اور ان گنت کروڑ پتی ہیں‘ وہاں اکثریت دال روٹی اور چائے پتی سے محروم ہے‘ وجہ کیا ہے؟ عرض کیا: غلط ترجیحات اور ''لُٹو تے پُھٹو پالیسی‘‘۔ چند دن پہلے پنجاب کے مسیحا نے یہی تو کہا: کل سے لوڈ شیڈنگ والا سوال 58 روزہ کیئر ٹیکر حکومت سے پوچھنا‘ مجھ سے نہیں۔ کھربوں روپے کنکریٹ کے جنگل اُگانے پر لگانے والا درخت یوں کاٹتا ہے جیسے ناخن۔ باغ اُجاڑ کر تختیاں لگانے والی حکومت۔ کھیل کے میدانوں سے مستقل ناراض قیادت۔ ریاستی جنگلات پر ہائوسنگ پراجیکٹس ٹھونسنے والی گُڈ گورننس۔ اپنے ہی ملک کے سکولوں، ہسپتالوں سے دور بھاگنے والی اشرافیہ۔ ایسے خوش بخت جنہیں سرکاری خرچ پر ذاتی کمزوریوں کا علاج کرانے کے لئے 7 سمندر پار کا خرچہ ملے۔ سات سمندر پار چھوڑئیے بلکہ ملتان سے لاہور کا ریٹرن ٹکٹ ہو یا لاہور سے ملتان روٹ پر سرکاری جیپ کا مفت پھیرا۔ آپ ایسے مسخرے سے کسی کو بھی ایمان کی دولت سے محروم، وفا کے وصف سے عاری یا جو چاہیں گالی دلوا دیں۔ ایزی لوڈ ذہنیت نے ٹنوں کرپشن کے نیچے دبے ہوئے قتل کے ملزموں تک کے سہولت کار پیدا کر رکھے ہیں۔ ترجیحات درست کیے بغیر غربت اور محرومی کے جزیرے ٹھپ نہیں کیے جا سکتے۔
عمران خان کی ریڈنگ ٹیبل پر ایک کتاب ملی جس کا عنوان ہے: قومیں کیوں ناکام ہوتی ہیں ''why nations fail‘‘۔ ڈیرن ایسمگلو، جیمز اے راسن نے جدید ریاستوں پر شاندار مقالہ لکھا ہے‘ جو سیاسیات کے طالب علموں کے لیے دنیا کے ہر ملک کا کیس سٹڈی ہے۔اس بیسٹ سیلر کتاب میں دی اوریجنز آف پاور، پراسپیرٹی اینڈ پوورٹی کی نشاندہی ہے۔ آئیے یہ اسباب دیکھیں: 
پہلا سبب: کسی قوم میں گورننس کے ذمہ دار اداروں کے لئے خوشحالی اور بد حالی کی وجوہات جاننا ضروری ہے۔ دوسرا سبب: ایک جیسے لوگ ساتھ ساتھ ملکوں کے رہنے والے کلچر، جغرافیہ ایک سا جاننا ہو گا، ایک ملک امیر دوسرا غریب کیسے ہوا۔ تیسرا سبب: ناکام ملکوں کے لیڈر نہیں جانتے/ نہیں جاننا چاہتے کہ کن پالیسی اقدامات سے شہری خوشحال ہو سکتے ہیں۔چوتھا سبب: ملکی ادارے کس پالیسی کے ذریعے غریب عوام کی اصل ضرورتوں کا مستقل ادارہ جاتی علاج کریں۔ پانچواں سبب: تصادمی سیاست کے باوجود طے کیا جائے، ناکام ماضی میں سے کامیاب آج کیسے تخلیق ہو گا۔ چھٹا سبب: ادارے کس طرح اپنے اپنے دائرے سے اوپر اٹھ کر سب سے ایک سا سلوک کرنے کی سطح تک پہنچیں۔
ساتواں سبب: 1688ء میں انگلینڈ کے سیاسی انقلاب نے اداروں کی دنیا بدل کر کیسے صنعتی انقلاب کا دروازہ کھولا۔ 
آٹھواں سبب: چین کے ترقیاتی ماڈل کا راز اور مستقبل جاننا کیوں ضروری ہے۔
نواں سبب: کس طرح یورپین نوآبادیات طاقتوں نے دنیا کے ایک بہت بڑے حصے کو امیر سے غریب بنایا۔
دسواں سبب: کس طرح کرۂ ارض کی مختلف قوموں نے تاجِ برطانیہ سے نجات حاصل کرکے خوشحالی کی منزل پائی۔ 
گیارہواں سبب: وہ ادارے بنیں جو غریبوں میں احساسِ محرومی ختم کرنے کے لیے فوری مثبت اقدامات کریں تاکہ قوم کو اعتبار آئے کہ اس کے سامنے خوشحالی کا دروازہ ضرور کھلے گا۔
سبب نمر12: ادارے کس طرح غربت پیدا کرنے والے مراکز کا خاتمہ کریں‘ اور ایسی ہر منفی پیش رفت پر چیتے کی نگاہ رکھیں۔
سبب نمبر13: why nations fail today اس ناکامی کے ذمہ دار 3 ہی ہیں۔ پہلے، ادارے۔ دوسرے، ادارے اور تیسرے بھی ادارے۔
سبب نمبر14: مخصوص معاشی ماڈل جو غریبی اور امیری کے درمیان فاصلہ بڑھا رہا ہے‘ اسے نظر انداز کرکے چند ملکوں نے فوری خوشحالی حاصل کی۔
یہ جاننا ضروری ہے کہ بار بار غربت کے خاتمے کی کوششیں کیوں ناکام ہوئیں۔ کیا دنیا انسانوں کے جینے کے لیے بہتر جگہ نہ ہوتی اگر لیڈروں کو یہ سب کچھ سمجھ آ جاتا۔
پسِ نوشت: سپریم کورٹ نے کہا: الیکشن ہوں گے۔ شہباز شریف سے پوچھا سرکاری ملازموں کو 25،25 لاکھ تنخواہ کس اختیار سے دی۔ دربار سے خطاب کے عادی اداکار کا جواب آیا۔ مجھے کتے نے نہیں کاٹا اربوں روپے بچائوں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے '' پتا نہیں آپ کو کس نے کاٹا ہے۔ خزانے کے امین تھے پائی، پائی آپ کو واپس کرنی پڑے گی‘‘۔ کتے کاٹنے لگیں تو دو نالی چلتی ہے۔
ابھی یہ پتا چلانا ہو گا۔ 10 ہزار میگاواٹ بجلی رائے ونڈ محل کی کس کوٹھڑی میں بند ہے اور گُڈ گورننس... 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved