تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     27-03-2013

حسینہ بی بی بھی کسی کی شوکت خانم ہے!

پچھلے دو ہفتے طوفان کی طرح گزرے ۔ ہر روز نیا سکینڈل اور ہر روز نئی بربادی کی کہانی ۔ اب بھی بہت کچھ فائلوں میں موجود ہے کیونکہ کرپشن کا طوفان اپنے پیچھے بہت کچھ چھوڑ گیا ہے جس کا ملبہ صاف کرنے کے لیے برسوں درکار ہیں ۔خوش قسمت ہیں کرپٹ لوگ کہ نئے الیکشن کا منظر نامہ چل پڑا اور یہ خاموشی سے اربوں کما کر گھروں کو نکل گئے ۔ اب یہ سوداگر نما سیاستدان لوگوں کو نئے خواب بیچیں گے۔ وہی پرانے رونے روئے جائیں گے، شامِ غریباں پڑھی جائے گی کہ لہو کی قیمت ابھی وصول کرنا باقی ہے۔ ابھی فوجی فائونڈیشن میں ہونے والے ایک سکینڈل کی داستان لکھناباقی ہے کہ کیسے برازیل میں اپنے اپنے خاندانوں کے ساتھ جہاز پر بورڈ آف گورنرز کا اجلاس بلایا گیا اور کیسے ہزاروں ڈالرز ٹی اے ،ڈی اے لیا گیا ۔ کسانوں کو لُوٹ کر کھاد کے منافع سے برازیل میں اجلاس طلب کیا گیا ۔ اس سکینڈل کو نیب نے دبائو پڑنے پر چپکے سے بند کر دیا ہے اور سب کو کلین چٹ دے دی ہے کیونکہ سمجھدار لوگ اپنے سے طاقتور لوگوں سے پنگا نہیں لیا کرتے ،یہی کام جناب فصیح بخاری نے کیا ہے۔ بھلا وہ کتنے محاذ کھول سکتے ہیں۔ آخر وہ بھی تو انسان ہیں اور اس معاشرے میں زندہ رہنا چاہتے ہیں۔ ریلوے کے سابق وزیرحاجی غلام احمد بلورجن کی وزرات میں دس ارب روپے کا سکینڈل بنا ، جواپنی جگہ ایسا کارنامہ ہے جسے مدتوں یاد رکھا جائے گا ۔ چین سے ریلوے انجن خریدتے وقت ان کے ایک غلط فیصلے کی وجہ سے نہ صرف پاکستان کے پندرہ ملین ڈالرز ڈوب گئے بلکہ پچھلے تین سال سے پاکستان ہر روز ایک چینی بنک کو روزانہ ڈیڑھ لاکھ روپے جرمانہ بھی ادا کر رہا ہے ۔اب تک چودہ لاکھ ڈالرز سے زیادہ جرمانہ ادا کیا جاچکا ہے اور یہ ادائیگی ابھی جاری ہے۔ ہم روزانہ یہ قیمت بلور صاحب کو بچانے کے لیے ادا کررہے ہیں ۔ یہ کوئی زیادہ قیمت نہیں کہ آخر ہندوستان کی آزادی کے سرخیل باچہ خان کے وارثوں کا اس ملک پر اتنا حق توبنتا ہے ۔ڈیڑھ لاکھ روپے روزانہ کا جرمانہ اتنی بڑی رقم بھی نہیں ۔ اس ملک پر ساٹھ ارب ڈالرزقرضہ چڑھنے کا آج تک پتہ نہیں چلا ۔ڈیڑھ لاکھ روپے کی کیا حیثیت ہے ۔ بربادی کی ان داستانوں میں کچھ اچھی خبریں بھی ہیں۔ لیہ کی حسینہ بی بی کی کہانی دنیا میں شائع ہوئی تو کئی ای میلز وصول ہوئیں اور مہربان لوگوں نے اس غریب خاتون کی مدد کا وعدہ کیا۔ ایک فون کال امریکی ریاست جارجیا سے میاں اعجاز صاحب کی تھی جن کا تعلق لاہور سے ہے۔ انہوں نے صبح سے ہی مجھے جگانے کی کوششں جاری رکھی ہوئی تھی۔ آخر ٹیکسٹ میسج کیا کہ ہماری نیندیں اڑا کر خود سو گئے ہو۔ اسی طرح ایک پیغام شوکت خانم میں کام کرنے والے میرے کالم کے مہربان قاری کا آیا ۔ ان کا کہنا تھا اس مریضہ کو یہاں بھجوا دیں ، پورے مراحل سے گزرنے کے بعد اگر ان کا علاج ہوسکا تو پھر سب کچھ میرٹ پر ہوگا ۔ لیہ سے خاتون مریضہ کو لاہور بھجوانا اپنی جگہ ایک امتحان تھا ۔ اعجاز صاحب نے ایمبولنس اور ٹیسٹ کی قیمت ادا کرنے کے لیے اپنے عزیز میاں ایاز کو صبح سویرے شوکت خانم بھیجا ۔ قاری صاحب نے سب ٹیسٹ کرائے اور خوشخبری سنائی کہ کینسر ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے ۔ انشاء اللہ خاتون علاج سے تندرست ہوجائے گی۔ خدا کا شکر ادا کیا کہ چلیں اپنی ذاتی تنہائیوں کے اداس اور بے وفا موسم میں کوئی تو اچھی خبر بھی سنی ۔انشاء اللہ چار چھوٹے بچوں کی ماں بچ جائے گی۔ شوکت خانم ہسپتال کے انسان دوست قاری سے پوچھا کہ میں آپ کے لیے کیا کر سکتا ہوں؟ بولے ’’اپنے دستخطوں سے اپنی تین کتابیں بھجوا دیں ‘‘۔ دوسری اچھی خبر اور طرح کی ہے۔جب روزنامہ ’’دنیا ‘‘میں ڈی جی خان کی گونگے بہرے بچوں کو پڑھانے والی گیارہ غریب گھروں کی لڑکیوں کی کہانی شائع ہوئی تو مجھے کوئی شبہ نہیں تھا کہ اس معاملے پر پاکستانی بیوروکریسی کچھ نہیں کرے گی ۔ لوئر مڈل کلاس سے اوپر آنے والے بیوروکریٹ ساری عمر اپنے احساسِ کمتری سے نہیں نکل پاتے اور ساری زندگی اپنے جیسے انسانوں سے بدلے لینے میں گزار دیتے ہیں کہ اس سے ان کی مریضا نہ انا کو کچھ سکون ملتا ہے۔ تاہم ایک ہلکی سے امید چیف سیکرٹری پنجاب ناصر محمود کھوسہ سے ضرور تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ خود ڈیرہ غازی خان سے تعلق رکھتے ہیں ۔دوسرے ،میری ان کے بارے میں رائے بھی اچھی رہی ہے کہ وہ کلین افسر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ خیر ،میں نے اسی اُمید پر ایک ٹیکسٹ پیغام کھوسہ صاحب کو بھیج دیا۔ شام کو فون آیا اور کہنے لگے کہ کالم پڑھ لیا تھا اور سوشل ویلفیئر کے سیکرٹری سے رپورٹ بھی مانگی تھی۔ ان کے بقول لاہور کی بیوروکریسی کا کہنا ہے کہ ان لڑکیوں کو ایک سال قبل برطرف کیا گیا تھا ،یہ پرانا کیس ہے لہٰذا اب کچھ نہیں ہوسکتا ۔ میں نے متاثرہ لڑکیوں سے رابط کیا تو ان کا کہنا تھا کہ انہیں ایک ماہ قبل برطرف کیا گیا تھا ۔ کھوسہ صاحب کو دوبارہ پیغام بھیجا کہ انہیں بیوروکریسی غلط اطلاعات دے رہی ہے۔ کھوسہ صاحب نے جواب نہیں دیا ۔ظاہر ہے انہیں گونگے بہرے بچوں کو پڑھانے والی غریب بچیوں کی فریاد سننے سے کوئی زیادہ ضروری کام آن پڑا ہوگا ۔ناصر کھوسہ صاحب سے کوئی گلہ نہیں کہ انہوں نے اب لاہور میں رہنا ہے ، ڈیرہ غازی خان میں نہیں۔ نیویارک سے ایک پیغام تھا ،ان لڑکیوں کو بتائیں کہ اگر وہ امریکہ میں معذور بچوں کو پڑھا رہی ہوتیں تو انہیں وہاں کیا عزت اور مقام ملتا! اسی اداسی میں ایک ای میل سعودی عرب سے پرویز اسلم صاحب کی ملی ۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی جیب سے ان بچیوں کو ہر ماہ تنخواہ دینے کو تیار ہیں ۔ انہیںکہیں کہ وہ معذور بچوں کے سکول میں پڑھاتی رہیں۔ وہ بیوروکریسی جس کے لیے ان بچیوں کو نوکری پر بحال کرنا چند لمحوں کا کام تھا ،ان سے یہ نہ ہوسکا ۔ اب ایسی بچیوں کی تنخواہیں بھی انسان دوست بیرونِ ملک مقیم پاکستانی ادا کریں گے۔ کیا پنجاب دیوالیہ ہوگیا ہے یا پھر یہ گیارہ بچیاں اور یہ سات سو معذور بچے کسی اور سّیارے سے اترے ہیں؟ کیا سارا پیسہ لاہور کی میٹرو بس پر لگ گیا ہے یا پھر کسی نئے منصوبے کے لیے رقم درکار ہے جو ان بچیوں کی نوکریاں چھین کر بچائی جارہی ہے؟ بیوروکریٹس کی ساری عمر اپنے افسر یا وزیر کی خوشامد ، اپنے لیے اچھی پوسٹنگ، بچوں کو بیرون ملک تعلیم ، سرکاری گاڑیوں، مفت پٹرول، ترقیوں اور ریٹائرمنٹ سے قبل تین تین پلاٹس حاصل کرنے میں گزرجاتی ہے۔ ان کے نزدیک دکھ وہ ہوتا ہے جس سے وہ گزرتے ہیں، باقی کو وہ اللہ کی رضا قرار دے کر آنکھیں بند کرلیتے ہیں۔ چھوڑیں ان بیکار سرکاری افسروں کو ۔ سب لوگ بے حس نہیں ہوتے۔ اب بھی اچھے انسان زندہ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ڈیرہ غازی خان کی نوکری سے محروم ہونے والی غریب استانیاں ان کی اپنی بچیاں ہیں اور لیہ کی کینسر کی مریضہ حسینہ بی بی بھی کسی کی ’’شوکت خانم ‘‘ہے !!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved