کل والے کالم میں شعر و شاعری کے ضمن میں جو اشعار درج کیے تھے‘ ان میں کبیر اطہر کا یہ شعر بھی تھا؎
زادِ راہ اس لیے باندھا ہے کہ یہ دیکھ سکیں
کیسے لگتے ہیں تجھے چھوڑ کے جاتے ہوئے ہم
اس پر ہمارے دوست علی اصغر عباس کا فون آیا کہ یہ شعر ادریس لاہوری کا ہے‘ جو ناروے میں مقیم ہیں اور ان کے مجموعہ کلام ''ذرا سی دھوپ رہنے دو‘‘ میں درج ہے۔ انہوں نے مجھے وہ پوری غزل پڑھ کر سنائی بھی‘ جس پر میں نے کہا کہ مجھے وٹس ایپ کر دیں؛ چنانچہ وہ غزل اس طرح سے ہے؎
چشمِ نازاں میں طلب اپنی بڑھاتے ہوئے ہم
اور بھی عریاں ہوئے ننگ چھپاتے ہوئے ہم
ہم اسیرانِ محبت ہیں اسیرانِ انا
پا بہ زنجیر ترے پاس بھی آتے ہوئے ہم
کیا پرندے ہیں‘ ہوائیں کہ ثمر بار شجر
موسم گل میں وہ تتلی سی اڑاتے ہوئے ہم
زادِ راہ باندھ کے بیٹھے ہیں کہ یہ دیکھ سکیں
کیسے لگتے ہیں ترے شہر سے جاتے ہوئے ہم
کیا تصّور ہے کہ تصویر بنے جاتا ہے
خود بھی دلکش سے ہوئے تجھ کو سجاتے ہوئے ہم
دل تو کرتا ہے اسے درد سنائیں‘ ادریسؔ
اشک بن جاتے ہیں پر لفظ بناتے ہوئے ہم
زمین چونکہ ایک ہی ہے اور مضمون بھی‘ اس لئے کریڈٹ ادریس لاہوری کو جاتا ہے اور ہو سکتا کہ کبیر اطہر کا یہ شعر ہو ہی نہیں اور کسی نے یونہی ان کے نام سے فیس بک پر لگا دیا ہو‘ لیکن ایمانداری کی بات یہ ہے کہ کبیر اطہر کے نام سے منسوب شعر زیادہ بہتر بھی ہے اور پُر تاثیر بھی‘ کیونکہ ترے شہر سے جاتے ہوئے، میں وہ بات نہیں ہے‘ جو تجھے چھوڑکے جاتے ہوئے میں ہے‘ کیونکہ شہروں میں تو آنا جانا لگا ہی رہتا ہے۔عرض کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کبیر اطہر سے منسوب شعر زیادہ کمپیکٹ ہے‘ نیز کبیر اطہر خود اتنے عمدہ شاعر ہیں کہ انہیں کسی کے شعر پر ہاتھ صاف کرنے کی ضرورت ہی نہیںہے‘ ورنہ یہ کام تو بڑے بڑوں نے کیا ہے ‘جیسا کہ بیدل کا شعر ہے؎
بوئے گل نالۂ دل‘ دودِ چراغِ محفل
ہر کہ از بزم تو برخواست پریشاں براخواست
غالب ؔصاحب نے دوسرے مصرعے کو اُردو میں تبدیل کر لیا اور شعر بنا لیا؎
بوئے گل نالۂ دل‘ دودِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا سو پریشاں نکلا
اور پھر دیوان میں یہ حوالہ بھی نہیں ہے کہ بیدلؔ سے‘ جو ان کے معنوی استاد تھے ‘سے استفادہ کیا گیا ہے۔
یک نہ شد دو شد
ابھی یہاں تک پہنچا تھا کہ محبی ڈاکٹر تحسین فراقی کا فون آ گیا۔ حال چال پوچھا تو بتایا کہ دو دن سے بخار میں مبتلا ہوں۔ دعائے صحت کا وعدہ کیا اور بتایا کہ آج والے کالم میں آپ کی غزل بہت اچھی تھی‘ لیکن اس کا ایک مصرع خارج از وزن ہو گیا ہے۔ میں نے کہا؛ ابھی میرے پاس اخبار نہیں پہنچا‘ کون سا مصرع ہے ؟تو بتایا کہ
کوئی یہاں بھرا ہوا ہے اور کوئی وہاں بھرا ہوا ہے
میں نے کہا کہ مصرع واقعی زیادہ لمبا کھنچ گیا ہے‘ میں دیکھوں گا کہ میں نے لکھا ہی ایسے تھا یا کمپیوٹر کی مہربانی ہے؛چنانچہ مسودہ اور اخبار کا موازنہ کیا‘ تو کھلا کہ ماشاء اللہ لکھا ہی اس طرح گیا تھا؛ چنانچہ تر اش خراش کے بعد اس کی صورت اس طرح نکلی ہے؛ع
کوئی یہاں ہے تو کوئی وہاں بھرا ہوا ہے
ایک بار پہلے بھی ایسا ہو چکا ہے کہ مصرع وزن میں تو رہتا ہے‘ لیکن بڑا ہو کر بحر سے باہر نکل جاتا ہے۔ اس کا احساس پہلے بھی برادرم اقتدار جاوید ہی نے دلایا تھا۔ آج یہ کر م فرمائی پہلے ڈاکٹر تحسین فراقی صاحب نے کی‘ اللہ میاں دونوں کو سلامت رکھے اور یہ نیکی آئندہ بھی کرتے رہیں۔
اور اب کچھ شعر و شاعری ہو جائے:
جھک کے چلتا ہوں کہ قد اس کے برابر نہ لگے
دوسرا یہ کہ اسے راہ میں ٹھوکر نہ لگے
تم نے چھوڑا تو کسی اور سے ٹکرائوں گا میں
کیسے ممکن ہے کہ اندھے کا کہیں سر نہ لگے (عمیر نجمی)
میرا بچپن‘ میرے خواب تم بیچ کر
ڈھونڈ لائے میرے واسطے پالکی (حناعنبرین)
میں جو روتا ہوں تو روتی ہے گلے سے لگ کر
میں جو ہنستا ہوں تو وہ اور ہنساتی ہے مجھے (سجاد بلوچ)
پرندوں کو بلایا جا رہا ہے
مجھے جنگل بنایا جا رہا ہے (مقدس ملک)
ابھی گھر میں دیا جلتا ہے میرا
ابھی ہوں گی ہوائیں اور برہم (طارق اسد)
آج کا مقطع
ہم نے چھیڑا نہیں اشیائے محبت کو‘ ظفرؔ
جو جہاں پر تھی پڑی‘ اس کو وہی رہنے دیا