تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     04-06-2018

انسان ایلین ہے ؟..... ( 2)

سائنس اور مذہب کے کسی بھی طالب ِعلم کو ڈاکٹر ایلس سلور کی کتاب Humans are not from Earthکو مسترد کرنے میں ایک سیکنڈ لگے گا۔ انسان ایلین نہیں ہے ‘مقامی ہے ۔ قرآن میں خدا نے بار بار آدم علیہ السلام کی تخلیق میں مٹی استعمال کرنے کا ذکر کیا۔ یہ مٹی کرۂ ارض ہی سے لی گئی۔ ساتھ ہی خدا یہ فرماتا ہے کہ ہر زندہ شے کو ہم نے پانی سے پیدا کیا(سورۃ الانبیا 30)۔زندہ اشیا ء میں انسان بھی شامل ہے ۔اب جو جاندار کرۂ ارض کی مٹی اور پانی کو ملا کر بنایا جا رہا ہے ‘ اسے آپ ایلین کہیں گے ؟ 
یہ بات صاف ظاہر ہے کہ کسی پاکستانی مسلمان نے ڈاکٹر ایلس سلور کی کتاب پڑھی اور اسے جنت کے ثبوت کے طور پر پیش کرنے کی ٹھان لی؛حالانکہ جنت ‘ دوزخ‘ چاند کا دو ٹکڑے ہونا ‘ معراج کا واقعہ ‘ یہ وہ چیزیں اور وہ معجزے ہیں کہ جن کو سائنس کی رو سے ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ان چیزوں کو انسانی دسترس سے باہر رکھا گیا ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اگر سائنس ان چیزوں کی وضاحت کر سکتی ‘تو پھر ان کو معجزہ کون کہتا ؟ہاں ‘ البتہ خدا کے وجود کی نشانیاں ہمارے اند ر اور ہمارے باہر ہر کہیں موجود ہیں ۔ جہاں کہیں کائنات پہ خدا نے تبصرہ کیا ہے ‘ وہ بالاخر درست ثابت ہوا ہے ؛ حالانکہ 14صدیاں پہلے کائنات کے بارے میں انسانی تصورات کب کے غلط ثابت ہو چکے ۔ 
انسان کی نازک مزاجی کا سبب اس کی عقل اور اس عقل کی مدد سے ہونے والی ایجادات ہیں ۔ ان ایجادات نے انسان کو سہل کوش بنا دیا ہے ۔ دو تین صدیاں پہلے تک ہر انسان بھرپور جنگجو ہوا کرتا تھا۔ کر ۂ ارض پہ سورج کی الٹرا وائلٹ شعاعوں سے محفوظ رکھنے کے لیے زمین کے مقناطیسی میدان ‘ اوزون‘ بھاری آب و ہوا اور کثیر مقدار میں پانی (سمندر) انسان سمیت سب جانداروں کے لیے یکسا ں ہیں ۔
کرۂ ارض پہ بہت سی جگہیں انتہائی خوبصورت ہیں ۔ لوگ ہزاروں میل کا سفر طے کر کے انہیں دیکھنے جاتے ہیں ۔ اس لیے زمین کو کالا پانی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ 
ممکن ہے کہ ڈاکٹر ایلس سلورواقعی سائنسدان ہو ۔ جو تحریر گزشتہ کالم میں آپ لوگوں کے سامنے پیش کی‘ اس میں کہیں بھی سائنس نظر نہیں آئی ؛ البتہ ٹوٹے پھوٹے بچگانہ دلائل موجود ہیں ‘ مثلاً: یہ کہنا کہ جہاں سے انسان آیا ہے ‘ وہاں کششِ ثقل انتہائی کم تھی ۔ اگر یہ سچ ہوتا تو انسان کے لیے ایک قدم اٹھانا بھی مشکل ہو جاتا ۔ دوسری طرف ہم دیکھ سکتے ہیں کہ انسان تیز رفتار سے بھاگ سکتاہے ۔ انسان میں کمر درد کی اصل وجہ اس کی ریڑھ کی ہڈی کا uniqueسٹرکچر ہے ۔ہر وقت موبائل‘ بستر پہ لیٹ کے لیپ ٹاپ استعمال کرنا اور کرسی کا ناموزوں سٹرکچر کمر درد کی اصل وجہ ہے بلکہ سب سے بڑھ کر موٹاپا ‘ جو کہ انسانوں میں عام ہوچکاہے ۔ 
یہ بات انتہائی مضحکہ خیز ہے کہ صرف انسان بیماریوں کا شکار ہوتاہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ سب جانداروں میں بیماریاں پائی جاتی ہیں ورنہ انسانوں میں جانوروں کے معالج کیوں پائے جاتے ؟ انسانوں کی نسبت بیمار جانور اکثر جلد موت کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ 
دھوپ انسانوں اور دوسرے جانوروں کو ایک طرح ہی سے متاثر کرتی ہے‘ لیکن انسان اے سی کا عادی ہوگیا ہے ۔ اب اگر اچانک اے سی والے یخ بستہ کمرے سے بندہ پچاس ڈگری سینٹی گریڈ والی دھوپ میں باہر نکلے تو سٹروک کا خطرہ کافی بڑھ جاتاہے ۔جانوروں میں جلدی امراض دیکھنے میں آتے ہیں ۔ خارش زدہ کتے کی اصطلاح بھی عام ہے ۔ 
رہی یہ بات کہ ایک سائنسدان یہ بات کر رہا ہے‘ توزندگی کے ہر شعبے میں متنازع نظریات پیش کرکے سستی شہرت حاصل کرنے والے لوگ موجود ہوتے ہیں ۔ 
اس بات سے میں اتفاق کرتا ہوں کہ ہر انسان کے لاشعور میں یہ احساس موجود ہے کہ یہ سیارہ اس کا اصل گھر نہیں ‘لیکن اسے بھی سائنس کی رو سے ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ 
یہ ایک سفید جھوٹ ہے کہ انسان کا جسم بدلتے ہوئے درجۂ حرارت کے مطابق بدلتا نہیں اور باقی سب مخلوقات کا بدل جاتاہے ۔ انسان کی طرح ان گنت جانور اپنے جسم کا ایک مخصوص درجہ ٔ حرارت برقرار رکھتے ہیں ۔کچھ جاندار جسم کا درجہ ء حرارت گرا اور بڑھا سکتے ہیں ۔ جیساکہ ریچھ جبکہ انسان ہی کی طرح شیر اور چیتے میں یہ صلاحیت موجود نہیں بلکہ زیادہ تیز بھاگنے کی وجہ سے چیتا ایک منٹ میں ڈھے پڑتاہے ۔ یہ نکتہ جس نے بھی پیش کیا ہے کہ انسان کے علاوہ سب مخلوقات اپنے جسم کا درجہ ٔ حرارت بدلتے ہوئے ماحول کے مطابق بدلتی رہتی ہیں‘ وہ سائنسدان نہیں ہو سکتا ۔ کوئی بھی سائنسدان اس درجہ جہالت آمیز بات نہیں کر سکتا۔ 
رہی یہ بات کہ انسان کے جینز اس سیارے پر پائے جانے والے دوسرے جانداروں سے بہت مختلف ہیں ‘تو یہ بات بھی ایک سائنسدان نہیں کر سکتا۔ مسلمانوں میں نظریہ ٔ ارتقا کو مذہبی بنیادوں پر جھوٹ سمجھا جاتاہے ۔ میں نہ اس کی حمایت میں ہوں اور نہ مخالفت میں ۔سائنسی حقائق یہ ہیں کہ انسان اور بعض جانوروں کے جینزمیں 96فیصد تک مماثلت ہوسکتی ہے ۔ 
آگ استعمال کرنا‘ ایک مفصل زبان بولنا‘ زمین کے نیچے سے معدنیات نکالنا‘انجن اور پہیہ ایجاد کرنا ‘ یہ سب اور ان گنت ایجادات انسانوں سے مخصوص ہیں ۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ انسانوں کو ایک خاص امتحان کے لیے پیدا کیا گیا؛لہٰذا اسے عقل سے نوازا گیا۔ خدا موجود ہے‘ بلکہ خدا ہی موجود ہے ۔ جنت اور دوزخ موجود ہیں‘ لیکن انہیں سائنسی کلیات کی مدد سے ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ 
انسان دو پائوں پر چلنے والا واحد جانور ہے ۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ انسان کو حکمرانی کے لیے پیدا کیا گیا ۔ روئے زمین کے جانوروں کو وہ بطور سواری اور وزن اٹھانے کے لیے استعمال کرتاہے ۔ یہ بات درست نہیں کہ انسان کو سونے کے لیے بہت نرم و نازک بستر کی ضرورت ہوتی ہے ۔ فٹ پاتھ پر بھی لوگوں کو سوتے ہوئے میں نے اپنی آنکھ سے دیکھا ہے ۔ 
رہا یہ نکتہ کہ انسان اتنا نازک مزاج ہے کہ اس سخت مشکلات والی جگہ پر آنے کے بعد بھی اپنی نازک مزاجی کے مطابق ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتا رہتاہے ۔ اس نے نرم بستر‘ بجلی ‘ اے سی اور طرح طرح کی آسائشیں ایجاد کی ہیں ۔ محلات تعمیر کیے ہیں کیونکہ اسے محلات میں رہنے کی عادت تھی ۔یہ بات درست ہے ۔ انسان کے لاشعور سے جنت کی آسائشیں پوری طرح نکل نہیں سکیں ‘لیکن یہ بھی کوئی ایسی چیز نہیں ‘ جسے لیبارٹری میں ثابت کیا جا سکے ۔ 
آخری نکتہ یہ تھا کہ اس کتاب کے سامنے آنے کے بعد ارتقا کے نظریات کا جنازہ اٹھ چکاہے ۔ میری رائے میں اس کتاب نے اگر کسی کا جنازہ اٹھایا ہے‘ تو وہ مصنف ہی کا جنازہ ہے اور اس کے پاکستانی مترجم کا بھی ۔ یہی وہ حرکات ہیں ‘ جن کی وجہ سے سائنس والوں کے لیے مذہب والوں کا مذاق اڑانا ممکن ہوجاتا ہے ۔ 
نتیجہ : انسان یقینا جنت سے نکالا گیا ‘لیکن اس کا جسم اسی کرۂ ارض سے لے جائی گئی مٹی سے بنایا گیا تھا۔ اس کا دل‘ اس کے گردے‘ اس کا جگر‘ پھیپھڑے ‘ جلد‘ آنکھیں ‘خوراک کی نالی‘ معدہ‘ نسیں ‘ nervesسب کچھ دوسرے جانوروں جیسا ہی ہے ۔ زندہ چیزوں میں حیرت انگیز حد تک مماثلت ہوتی ہے ۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved