زیر نظر مضمون میں بھارت‘چین کے ساتھ ایک نئے اتحاد کی طرف پیش رفت کر رہا ہے ‘جو کہ مشرق کے ایک نئے اتحاد کی حیثیت سے ابھرے گا۔ملاحظہ فرمائیے۔
''امریکی سیکرٹری دفاع‘ جیمس میٹس نے سنگا پور میں سالانہ سکیورٹی کانفرنس میں شرکت کے لئے سفر کے دوران اپنی بات چیت میں بھارت کو 'انڈو پیسیفک‘ خطے میں سکیورٹی کا مرکز قرار دیا۔ اس کانفرنس میں پہلی بار بھارت کو مدعو کیا گیا۔ اگر تو میٹس نے یہ سوچ کر بھارت کی تعریف کی کہ نریندر مودی اس پلیٹ فارم کو استعمال کر کے امریکہ‘ جاپان اور آسٹریلیا کے اس گروپ میں شامل ہو جائیں گے‘ جسے کواڈ (Quad ) کا نام دیا گیا ہے اور جس کے قیام کا مقصد چین کی علاقائی وسعت کو زیادہ شدت کے ساتھ چیلنج کرنا ہے‘ تو انہیں مایوسی ہو گی۔ اس کے برعکس مودی نے دونوں فوجی طاقتوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر رکھنے کا منصوبہ بنا یا ۔ وہ اس سلسلے میں کوششوں میں بھی مصروف نظر آتے ہیں۔ مودی نے اپنی تقریر میں کواڈ کا کوئی ذکر نہیں کیا اور تحفظ کی اس طرح کی ضرورت پر تنقید کی‘ جس کو امریکہ شدت سے محسوس کر رہا ہے۔ ان دونوں باتوں سے چینی مندوبین خوش ہی ہوئے ہوں گے۔ لندن سے تعلق رکھنے والے بین الاقوامی انسٹی ٹیوٹ فار سٹریٹیجک سٹڈیز کے منظم کردہ اس شنگری لا ڈائیلاگ (Shangri-La Dialogue) کے لئے جمع ہونے والے وزرائے دفاع اور فوجی حکام کو مودی نے بتایا کہ چین اور بھارت اگر مل کر کام کریں گے‘ تو اس سے ایشیا اور پوری دنیا کو بہتر مستقبل ملے گا۔ مودی نے جہاز رانی کی آزادی‘ بے روک کامرس اور بین الاقوامی قوانین کے تحت تنازعات کے پُرامن حل جیسی امریکی اپیلوں کا بھی جواب دیا اور ان حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بنایا‘ جو دوسرے ممالک کو ناقابل ِبرداشت قرضوں کے بوجھ کا شکار بنا رہے ہیں۔ یہ دونوں اشارے چین کی طرف ہو سکتے ہیں۔ ایک‘ جنوب چینی سمندر کے تناظر میں اور دوسرا‘ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو انفراسٹرکچر پروجیکٹس کی طرف‘ جن کی وجہ سے دوسرے ممالک پر قرضوں کا بوجھ بڑھ سکتا ہے۔ یہ تنقید اپنی جگہ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ حالیہ چند ہفتوں میں مودی چین کی طرف بڑھے ہیں ؛حالانکہ 2014ء میں اقتدار میں آنے کے بعد وہ امریکہ کے زیادہ انگیج ہو گئے تھے‘ حتیٰ کہ انہوں نے مضبوط ''ایکٹ ایسٹ‘‘ کے تحت چین کی بڑھتی اور پھیلتی ہوئی طاقت کو روکنے کا مؤقف بھی اختیار کیا تھا۔ چین اور بھارت کے مابین مسائل‘ کشیدگی اور تلخی نے اس وقت جنم لیا جب گزشتہ موسم گرما میں طویل عرصے سے چلے آ رہے‘ ایک سرحدی جھگڑے پر دونوں ملکوں کی افواج ایک دوسرے کے سامنے آ گئیں۔ پہلے سے مشتعل بھارت کو اپنے مزید قریب کرنے کے لئے امریکہ نے یہ بہتر موقع جانا اور اپنی ایشیا پیسیفک پالیسی کو ''انڈو پیسیفک‘‘ پالیسی میں تبدیل کر دیا۔ یہ ایک ایسی تبدیلی تھی‘ جس نے چین کو حدود میں رکھنے کی امریکی پالیسی کے بارے میں چینی تحفظات کو مزید بڑھا دیا۔ نئی دہلی میں قائم آبزرور ریسرچ فائونڈیشن کے لئے کام کرنے والے منوج جوشی نے اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ''شنگری لا ڈائیلاگ کے منتظمین پچھلے کچھ عرصے سے مودی کا انتظار کر رہے تھے‘ کیونکہ بھارت کو چین کے مخالف اتحاد کا محور تصور کیا جا رہا تھا۔‘‘ پالیسی میں اس تبدیلی سے مودی کے لئے مسائل میں اضافہ ہوا اور مودی کو چین کے سامنے اپنی صورتحال واضح کرنا پڑی۔
اپریل کے اواخر میں جب دنیا کی توجہ شمالی اور جنوبی کوریا کے رہنمائوں کے درمیان تاریخی کانفرنس پر مرکوز تھی‘ چینی صدر‘ ژی جن پنگ نے مودی کو بیجنگ طلب کیا تاکہ وسطی ایشیا کے معاملات کے بارے میں ان سے بات چیت کی جا سکے۔ لگ بھگ یہی وہ وقت تھا جب یہ رپورٹیں سامنے آئیں کہ بھارت نے جاپان‘ امریکہ سالانہ بحری مشقوں میں آسٹریلیا کو شامل کرنے کی مخالفت کی ہے۔ اور یہ وہ معاملہ تھا‘ جو امریکہ کی خواہش تھی کہ ہو‘ لیکن چین یہ سب کچھ دیکھنے یا سننے کا خواہش مند نہیں تھا۔ چینی وفد کی سربراہی کرنے والے لیفٹیننٹ جنرل ہی لی نے بعد ازاں حکومتی سرپرستی میں چلنے والے چائنا سنٹرل ٹیلی وژن کو بتایا ''مودی نے اپنی تقریر میں چین بھارت تعلقات کے بارے میں ٹھیک تجزیہ پیش کیا ہے۔ ان کی تقریر مثبت تھی اور اس میں دونوں ملکوں کے مابین گہرے دو طرفہ تعلقات کی غمازی کی گئی‘‘۔
اگلے ہفتے مودی پھر چین جانے والے ہیں۔ وہاں وہ 9 اور 10 جون کو ہونے والی شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کی سربراہ کانفرنس میں شرکت کریں گے۔ اس تنظیم پر چین اور روس کا غلبہ ہے اور اس میں بھارت کو ابھی گزشتہ سال ہی پوری رکنیت دی گئی ہے۔یہ سب کچھ بھارت کی پالیسی میں تبدیلی کی وجہ سے ہو رہا ہے یا بھارتی حکومت 2019ء کے عام انتخابات سے پہلے یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ آئندہ ‘گزشتہ برس جیسے سرحدی تنازعات کھڑے نہیں ہوں گے‘ بھارت کے خارجہ پالیسی کے تجزیہ کار اس بارے میں مختلف اراء رکھتے ہیں۔ یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ صدر ژی کے سامنے کتنا جھکا جا سکتا ہے؟ جبکہ انہیں جاپان جیسے ایک دشمن کا سامنا ہے اور امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے چین کی تجارتی پالیسیوں کے حوالے سے دبائو بھی مسلسل بڑھایا جا رہا ہے۔ کچھ کے نزدیک یہ تبدیلیاں حقیقی ہیں‘کیونکہ بھارت کو اس بات کا احساس ہو چکا ہے کہ چین کے مقابلے میں اس کی معاشی اور فوجی طاقت اتنی کم ہے کہ وہ (بھارت) اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ کے قابلِ اعتبار ہونے کے بارے میںغیر یقینی صورتحال بھی اپنا کام دکھا رہی ہے۔ سنگا پور کے لی کوان ییو سکول آف پبلک پالیسی میں ایشیا اینڈ گلوبلائزیشن سنٹر کے ڈائریکٹر ‘کانتی پرشاد باجپائی کا اس حوالے سے خیال ہے کہ بھارت کو حقائق کا ادراک ہونا شروع ہو گیا ہے کہ'' مودی اس حقیقت کو جان چکے ہیں کہ بھارت ایک حد سے زیادہ چین کو اپنے ناخن نہیں دکھا سکتا۔ خصوصی طور پر اس وقت جب امریکی صدر ٹرمپ کا رویہ انتہائی ناقابل اعتبار ہے‘‘۔ فوجی اخراجات کی بات کی جائے تو بھارت اور چین کا کوئی موازنہ نہیں کیا جا سکتا‘ کیونکہ جہاں بھارت اپنے دفاعی بجٹ کا دو تہائی معمول کے اخراجات پورے کرنے پر صرف کرتا ہے‘ وہاں چین نے اتنے وسائل پیدا کر لئے ہیں کہ اعلیٰ ٹیکنالوجی والے ہتھیار خرید سکے یا خود تیار کر سکے۔ معاشی جائزے کی بات ہو تو فرق اس سے بھی زیادہ نظر آنے لگتا ہے۔ بنگلہ دیش میں قائم انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی ایڈووکیسی اینڈ گورننس نامی بین الاقوامی تھنک ٹینک کے چیئرمین‘ سید منیر خسرو کا کہنا ہے کہ'' بھارت کے پاس چین کے بیلٹ اینڈ روڈ پروگرام پر رد عمل ظاہر کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔بھارت کے پاس آرٹ‘ کلچر‘ بالی وڈ اور اپنی جمہوریت کی شکل میں ایک خاصی بڑی سافٹ پاور ہے‘ لیکن اس کے مقابلے میں چین کے پاس کیش پاور ہے‘‘۔
آئی آئی ایس ایس میں سائوتھ ایشیا پروگرام کے سربراہ‘ راہول رائے چوہدری کا تجزیہ یہ ہے کہ دوسروں کے لئے غور طلب معاملہ آئندہ الیکشن ہیں‘ لیکن بھارت کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ چین کی فوجی وسعت کے معاملے کو لے کر بڑی چوکنا ہے کیونکہ چین بحر ہند میں اپنے پائوں پھیلانے اور جمانے کی کوشش کر رہا ہے‘ جسے بھارت صرف اپنا علاقہ سمجھتا ہے‘ جبکہ مودی یہ چاہتا ہے کہ اگلے سال تک مزید کوئی پھڈا نہ ہو تاکہ اس کی جیت کی راہ ہموار ہو سکے۔
اس کے ساتھ ساتھ بھارت یہ بھی چاہتا ہے کہ امریکہ ‘بھارت کو سائوتھ چائنا سی کے ایشو پر چین کے خلاف استعمال نہ کرے‘ جہاں چین کا خیال ہے کہ اس کا علاقہ اس سے زیادہ ہے‘ جتنے پر اس کی اس وقت دسترس یا رسائی ہے۔ بھارت ہمیشہ بحری آپریشنوں اور کواڈ (Quad) کو سکیورٹی پر توجہ مرتکز رکھنے والی ایک آرگنائزیشن بنانے کے سلسلے میں تذبذب کا شکار رہا ہے‘‘۔