یہ ان دنوں کا قصہ ہے جب صبحیں بہت اجلی اور شامیں رنگوں میں ڈوبی ہوتی تھیں۔ جب پھولوں کے رنگ بہت گہرے اور اُن کی خوشبو بہت مسحور کن ہوتی تھی یا پھر شائد مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا۔ انہی مہکتے دنوں میں ایک دن تھا جب میں سر سید کالج مال روڈ میں فرسٹ ایئر کا طالب علم بنا۔ اس وقت راولپنڈی کی مال روڈ دو رویہ درختوں میں گھری ایک خاموش اور خوبصورت سڑک ہوتی تھی۔ گاڑیوں کی تعداد بہت کم تھی۔ مجھے یاد ہے‘ ہمارے سارے کالج میں صرف ایک گاڑی ہمارے ایک پروفیسر کی ہوتی تھی جو خاندانی طور پر بہت امیر تھے‘ ورنہ اساتذہ اور طلباء کے پاس سائیکلیں ہوتی تھیں۔ سر سید کالج راولپنڈی کے پرانے اور معروف کالجوں میں ایک نیا کالج تھا۔ راولپنڈی کینٹ میں پہلا کالج جو آرمی ڈائریکٹوریٹ کے زیرِ اہتمام تھا‘ اور جہاں میرے ہم جماعتوں میں بہت سوں کا پس منظر آرمی کا تھا۔ سر سید کالج دوسرے کالجوں سے کئی لحاظ سے مختلف اور ممتاز تھا۔ اس کا ایک امتیاز یہاں کا ڈسپلن تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اس کا آغاز سکول سے ہوا تھا۔ یہ غالباً 1958ء کی بات ہے جب سر سید سکول کی بنیاد رکھی گئی‘ اور یہ بہت جلد اپنے تعلیمی ماحول، اعلیٰ معیار اور اہم نصابی سرگرمیوں کی وجہ سے ایک Brand Name بن گیا تھا۔ سکول کا یونیفارم گرے ٹراؤزر، سفید شرٹ اور بلیو بلیزر تھا اور اس کے ساتھ ٹائی جس پر نیلے اور پیلے رنگوں کی ترچھی لائنیں۔ 1968ء میں یہاں انٹرمیڈیٹ کی کلاسز کا آغاز ہوا لیکن کالج بن کر بھی اس کا مجموعی مزاج ایک سکول کا تھا‘ اور ہمیں اسی چیز کی شکایت تھی۔ سکول سے نکل کر کالج میں آزادی کی دلربا داستانیں سنی تھیں‘ لیکن سر سید کالج میں آ کر یوں لگا ایک سکول سے نکل کر ایک اور سکول میں آ گئے ہیں۔
سر سید سکول اور کالج چونکہ ایک ہی کمپاؤنڈ میں تھے اس لیے ہمارا گراؤنڈ بھی ایک تھا۔ یوں سکول اور کالج کے طلباء ایک ہی خاندان کے افراد تصور ہوتے تھے۔ کالج میں یونیفارم کی پابندی تھی‘ ٹائی کے بغیر کالج میں داخلہ منع تھا۔ کالج کا ایک وسیع و عریض گرائونڈ تھا‘ جہاں کھیل بھی ہو رہا ہوتا اور کبھی کبھار بریک ٹائم میں اساتذہ کرسیوں پر بیٹھے ملتے۔ گرائونڈ کے قریب ہی کیفے ٹیریا تھا‘ جس کی شیشے کی دیواروں سے باہر کے منظر صاف نظر آتے تھے۔ کیفے ٹیریا کا ایک معروف اور محبوب کردار وہاں کا ویٹر چمکیلا تھا‘ جس کے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ ہوتی۔ اس وقت کالج میں ہمارے پرنسپل قریشی صاحب تھے جو پرانی وضع کے روایتی پرنسپل تھے۔ قریشی صاحب کے ریٹائر ہونے کے بعد ہمارے نئے پرنسپل آ گئے۔ ان کا اصل نام تو ملازم حسین ہمدانی تھا‘ لیکن وہ ایم ایچ ہمدانی کے نام سے مشہور تھے۔ ہمدانی صاحب اپنی وضع کے آدمی تھے۔ پارہ صفت تخلیقی ذہن اور غیر روایتی لیڈرشپ سٹائل۔ وہ اپنے آفس میں بیٹھنے کے بجائے ہر وقت کیمپس کا چکر لگاتے رہتے۔ کہیں کوئی ٹیچر کلاس میں دیر سے پہنچتا یا غیر حاضر ہوتا تو انہیں فوراً خبر ہو جاتی اور وہ موقعٔ واردات پر پہنچ جاتے۔ وہ کمپیوٹرز کا زمانہ نہیں تھا۔ انہوں نے اپنے سائیڈ ٹیبل پر ٹائپ رائٹر رکھا ہوتا اور بجائے اپنے سیکرٹری کو ڈکٹیٹ کرانے کے خود ٹائپ کرتے۔ مجھے یاد ہے ایک بار مجھے ایک کریکٹر سرٹیفکیٹ چاہیے تھا۔ انھوں نے اسی وقت اپنی کرسی کو موڑا اور ٹائپ رائٹر پر ٹائپ کرکے سرٹیفکیٹ میرے حوالے کر دیا۔
ہمدانی صاحب کی نگاہ نہ صرف اساتذہ پر تھی بلکہ وہ ہر طالب علم کے بارے میں بھی باخبر رہتے تھے۔ اگر کوئی طالب علم غیر حاضر ہوتا تو ان کی طرف سے خط اگلے روز گھر پہنچ جاتا۔ اس وقت تو ان پر بہت غصہ آتا تھا لیکن اب جبکہ اس بات کو تقریباً نصف صدی گزر چکی ہے اور ہمدانی صاحب کو اس دنیا سے رخصت ہوئے بھی ایک عرصہ ہو گیا ہے‘ تو مجھے ہمدانی صاحب کی محنت اور خلوص کی یاد آتی ہے۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے اور ان کی قبر کو روشن کرے۔
ہمدانی صاحب کے آنے سے سر سید کالج کے کلچر میں ایک جوہری تبدیلی آئی‘ جس میں پرنسپل، اساتذہ اور طلباء کے درمیان ایک Interaction کا آغاز ہوا۔ انہوں نے اس کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا اور یہ پلیٹ فارم The Reporter تھا۔ یہ انگریزی اور اردو کا ایک ماہنامہ تھا جس میں طلباء کھل کر اپنے خیالات کا اظہار کرتے۔ ان دنوں میں یقینا یہ ایک تخلیقی اور جرأت آمیز کاوش تھی۔ اس کے علاوہ کالج کا سالانہ میگزین ''سر سیدین تھا‘‘ جس میں طلباء اور اساتذہ کے مضامین شائع ہوتے۔ بعد میں ہمارے اردو کے استاد اور معروف افسانہ نگار رشید امجدصاحب نے پروفیسر فاروق علی کی معاونت سے سرسیدین کے پاکستانی ادب کے ضخیم اور وقیع نمبر شائع کئے جو سکالرز کے لیے بھی ایک ریفرنس کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کالج کے وائس پرنسپل جمیل ملک صاحب تھے۔ ان کا شمار ملک کے ممتاز شعرأ میں ہوتا تھا۔ وہ کئی کتابوں کے مصنف تھے۔ آج مرحوم کو یاد کر رہا ہوں تو اُن کا ایک شعر یاد آرہا ہے۔
پیچ در پیچ سلسلے دِل کے
مجھے اُس کی اُسے کسی کی تلاش
کالج کا مین گیٹ مال روڈ کی طرف تھا۔ گیٹ کے سامنے کچھ خالی جگہ تھی اور پھر ایک ریلنگ جو کالج اور مال روڈ کے درمیان حدِ فاصل تھی۔ سرسید کالج کے طلباء کا اس زمانے میں خاص ٹھکانہ یہی ریلنگ تھی‘ جس پر ہم کبھی بیٹھا کرتے کبھی اس کے سہارے کھڑے ہو کر گپ شپ لگاتے۔ مال روڈ کے دوسری طرف سٹیٹ بینک کی عمارت تھی جس کے احاطے میں سُرخ لوبیے کی چاٹ کی ایک ریڑھی تھی۔ اس چاٹ میں کوئی خاص بات ضرور تھی کہ وہاں گاہکوں کا ہجوم رہتا تھا۔
سرسیدکالج اپنے حجم میں ایک مختصر سا کالج تھا لیکن قومی زندگی میں اس کا وقیع کردار تھا۔ سرسید سکول کی خاص بات یہ تھی کہ اس کی فیس عام تعلیمی اداروں جیسی تھی اور خواص و عام کے بچے بغیر کسی تفریق کے یہاں تعلیم حاصل کرتے تھے۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر زور دیا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں سے فارغ التحصیل طلبا قومی زندگی کے ہر شعبے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس وقت بھی پاکستان کی مرکزی عسکری قیادت آرمی چیف محترم قمر باجوہ صاحب، ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس جنرل عاصم منیر صاحب، اور چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف میجر جنرل زبیر حیات کا تعلق سرسیدسکول؍ کالج سے رہا ہے۔ ملٹری اور سول بیوروکریسی میں سینکڑوں کی تعداد میں یہاں سے فارغ التحصیل طلباء اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔ اسی طرح سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے جج صاحبان میں بھی سر سید سکول؍ کالج کے فارغ التحصیل طلبا شامل ہیں۔ اس وقت پانچ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کا تعلق سرسید سکول/ کالج سے رہا ہے۔ پچھلے دنوں ان وائس چانسلرز کو اپنی مادرِ علمی میں مدعو کیا گیا۔ اس سلسلے میں مجھے بھی دعوت ملی۔ تقریب کا اہتمام ایک ہال میں کیا گیا تھا۔ یہ ہال اس وقت نہیں تھا جب میں یہاں پڑھا کرتا تھا۔ ہال میں کالج کے طلباء اور اساتذہ موجود تھے۔ وائس چانسلرز اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔ ہال میں بیٹھے بیٹھے مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وقت ستر کی دہائی میں لوٹ گیا ہے۔ جب میں کالج کے گیٹ میں پہلی بار داخل ہوا تھا اور ہر چیز کو حیرت سے تک رہا تھا۔ تالیوں کا شور مجھے واپس تقریب میں لے آیا۔ تقریب کے اختتام پر میں نے سر سید کالج کے پرنسپل سے درخواست کی: کیا میں اپنے کلاس روم کو دیکھ سکتا ہوں۔ انہوں نے کمال مہربانی سے اس کا اہتمام کر دیا۔ کالج میں چھٹی ہو چکی تھی۔ کلاس روم خالی تھا۔ میں جا کر اس بینچ پر بیٹھ گیا جہاں آج سے چار دہائیاں پہلے بیٹھا کرتا تھا۔ مجھے یوں لگا میرے ارد گرد وہی مانوس آوازیں پھر سے جاگ اٹھی ہوں۔ میں بینچ سے اٹھ کر شیشے کی بڑی کھڑکی سے نیچے جھانکتا ہوں جہاں سے کالج کا مختصر سا لان نظر آتا ہے‘ جس میں سبز گھاس ہے اور کیاریوں میں پھول کھلے ہیں۔ واپسی پر میں اس لان میں جاتا ہوں اور پھولوں کی کیاریوں کے پاس بیٹھ جاتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کچھ بھی تو نہیں بدلا۔ وہی لان، ویسی ہی کیاریاں اور اُن کیاریو ں میں کھلتے ویسے ہی پھول جیسے میرے کالج کے دنوں میں کھلتے تھے لیکن ایک فرق تھا۔ اِن پھولوں کے رنگ نہ تو اُتنے گہرے تھے نہ ہی ان کی خوشبو اُتنی مسحور کُن تھی یا پھر شائد مجھے ایسا لگا تھا۔