تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     27-03-2013

یہ کیا کررہے ہو، یہ کیا ہورہا ہے ؟

شریف برادران کی حب الوطنی شک و شبہ سے بالاتر ہے جبکہ اس صفت سے ہر سیاستدان کو متصف کرنا شاید اتنا آسان نہ ہو۔ ہرسیاستدان غلطیاں بھی کرتا اور نتائج بھی اسے ہی بھگتنا پڑتے ہیں ؛ جبکہ قومی سطح کی ہرغلطی کی سزا قوم اور ملک کو بھی بھگتنا پڑتی ہے۔ چنانچہ ہر بات کو آپ اپنے ذاتی نفع ونقصان کے ترازو میں نہیں تول سکتے اور اس قومی مفاد کا بہرحال خیال رکھنا پڑتا ہے جو ہمارے ہاں مذاق کی حیثیت اختیار کرچکا ہے اور اس سے بڑا المیہ کوئی اور ہوہی نہیں سکتا ۔ قومی انتخابات سر پر ہیں اور ہوتے نظر بھی آرہے ہیں، اس لیے ہر جماعت نہ صرف اپنی اپنی صفیں سیدھی کررہی ہے بلکہ دونوں بڑی پارٹیوں نے تو اپنے اپنے منشور بھی دوبارہ اعلان کیے ہیں اور بین الاقوامی یا خارجہ معاملات میں اپنی اپنی پالیسی کا بھی اظہار کیا جارہا ہے جس کا انہیں پورا پورا حق حاصل ہے اور جس کا مقصد ایسی فضا تیار کرنا ہے جس سے آئندہ الیکشن میں کامیابی حاصل کی جاسکے۔ تاہم اس بات کا خیال رکھنا اشد ضروری ہے کہ ملک وقوم کے فائدے میں کیا ہے اور کیا نہیں ہے جبکہ اس ضمن میں ذاتی مفاد بعض اوقات قربان بھی کرنا پڑتا ہے۔ نواز لیگ ایک سیاسی غلطی تو ایسی کرچکی ہے جس کی تلافی اب ہوہی نہیں سکتی، اور وہ ہے لشکر جھنگوی وغیرہ کے لیے دل میں نرم گوشہ رکھنا ۔اس سے نواز لیگ کو یقینا ایک وقتی سیاسی فائدہ ضرور ہوگا لیکن دیگر اداروں کے علاوہ خود عوام اسے کس نظر سے دیکھیں گے، اس کا اندازہ لگانے کے لیے کسی خاص ذہنی صلاحیت کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس کا ایک نقصان یہ بھی ہوگا کہ ایک آزاد خیال اور سوچ کی سرحد پر کھڑا ووٹر یقینا اس کا منفی اثر لے گا اور اس حمایت کو برابر کردے گا۔ دوسری بڑی اور تازہ غلطی پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر نواز لیگ کا مخالفانہ موقف ہے جس کا اب کھل کر اظہار کیا جانے لگا ہے۔ بظاہر اس کا مقصد امریکہ اور اس کے دوست ممالک کو خوش کرنا ہے ،تاہم ہماری اپنی خارجہ پالیسی اور اپنی ضروریات اور ترجیحات ہیں جو ہمارے قومی تقاضوں کے عین مطابق ہیں اور موجودہ حالات میں جن کے بغیر ہمارے لیے مشکلات ومسائل کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے ۔ بڑے میاں صاحب حال ہی میں ایک خلیجی ملک سے بھی ہوکر آئے ہیں اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اپنے محسن شہزادگان کے ایما پر میاں صاحب ،جنرل پرویز مشرف کے لیے بھی اپنے دل میں نرم گوشہ پیدا کرچکے ہیں ۔ یہ بات قابل غور ہے کہ ایران پاکستان اس منصوبے کے خلاف واحد آواز شریف برادران ہی کی جانب سے اٹھائی گئی ہے۔ بیشک یہ زرداری ہی کا نیلی آنکھوں والا بچہ ہے، لیکن کیا ایک مفید اور انتہائی ضروری قومی منصوبے کی محض اس لیے مخالفت جائز ہے کہ وہ زرداری کے ذریعے وجود میں آرہا ہے جو میاں صاحبان کے سب سے بڑے سیاسی حریف ہیں ؟ اپنے حساب سے میاں صاحبان ایک تیر سے تین شکار کررہے ہیں یعنی ایک تو زرداری کی مخالفت ، دوسرے امریکہ کی خوشنودیِ طبع حاصل کرنا، وہ غالباً یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اس ملک میں امریکہ کی حمایت سے ہی اقتدار مل سکتا ہے اور وہی ہربار اقتدار سے علیحدہ کرنے میں بھی بنیادی کردار ادا کرتا ہے، اس لیے اگر امریکی پالیسی کے مطابق چلا جائے تو پوبارہ ہیں۔ لیکن وہ شاید اس بات کو ملحوظ نہیں رکھ رہے کہ ملک بھر کے عوام امریکہ اور اس کی پالیسیوں کو کتنی نفرت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور امریکہ کی اس طرح ہاں میں ہاں ملانے والی جماعت کی انتخابات میں پزیرائی کس طریقے سے ہوگی۔ نواز لیگ والے حضرات اسٹیبلشمنٹ سے مایوس بھی ہیں اور اس کا دوبارہ قرب حاصل کرنے کے بھی متمنی ۔ لیکن وہ اس بات پر کافی غور غالباً نہیں کررہے کہ اب صورت حال یکسر تبدیل ہوچکی ہے۔ امریکہ اور اس کے مطالبات کے حوالے سے حکومت اور فوج ایک ہی صفحے پر ہیں اور گیس پائپ لائن سے لے کر گوادر پورٹ کو جمہوریہ چین کی تحویل میں دینے تک وہ مکمل طورپر یکسو ہیں اور امریکی دبائو کو خاطر میں نہ لانے کا تہیہ کرچکے ہیں۔ بیشک امریکہ کی زبردست خواہش ہے کہ الیکشن کے بعد پاکستان میں اس کی کوئی حامی حکومت برسراقتدار آئے ، اور موجودہ صورت حال میں میاں نوازشریف ان کی توقعات پر پورا اترنے کا دم خم رکھتے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ماضی میں امریکہ پاکستان میں ایسی کارروائیاں اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے کرتا رہا ہے جوکہ اب کسی صورت ممکن نظر نہیں آتا۔ زیادہ سے زیادہ امریکہ ہمیں بعض مشکلات سے دو چار کرسکتا ہے، اپنی مرضی کا وزیراعظم لانا اب اس کے لیے ممکن نہیں رہا۔ یہ بھی یاد رکھیے کہ اس سے پہلے انتخابات محض ایک ڈھونگ کی حیثیت رکھتے تھے جبکہ اب اس میں پہلے جیسے ہتھکنڈے استعمال ہونے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے، اس لیے کوئی بیرونی قوت کسی سازش کے ذریعے بھی ان پر اثر انداز نہیں ہوسکتی، کم ازکم شواہد اور اطوار یہی کہتے ہیں۔ چنانچہ اس طرح شریف برادران ایک طرف تو فوج سے متھا لگارہے ہوں گے اور دوسری طرف امریکی حمایت حاصل کرنے کا خطرناک کھیل کھیل رہے ہوں گے، اور ، اس طرح اپنا نقصان کر بیٹھیں گے یعنی بظاہر بنا بنایا کھیل بگاڑ بیٹھیں گے ، لہٰذا انہیں مسائل پر جذبات سے ہٹ کر سوچنا ہوگا جن کی بدولت وہ پہلے ہی بے اندازہ نقصان اٹھا چکے ہیں اور عمران خان نے جو نئی چنگاری چھوڑی ہے، اس سے ووٹر کی صورت حال حیران کن حدتک تبدیل ہوچکی ہے ،لہٰذا میاں صاحبان جن پتوں پر تکیہ کررہے ہیں، عین ممکن ہے کہ وہی (آگ کو) ہوا بھی دینے لگ جائیں! میاں صاحب ہٹ کے پکے یعنی مستقل مزاج آدمی ہیں۔ ایک بار جو فیصلہ اور ارادہ کرلیں اس سے پیچھے نہیں ہٹتے اور ان کا یہی رویہ انتہائی غیرسیاسی بھی ہے ۔سیاست میں کوئی بات حرفِ آخر نہیں ہوتی، تاہم اس میں میاں صاحب کا بھی کوئی قصور نہیں، قصور انہیں سیاست میں دھکا دینے والوں کا ہے۔ زرداری کی چابکدستیوں کا وہ اسی لیے کبھی مقابلہ نہیں کرسکے، اور ہربار، اور ہر مرحلے پر انہیں خفت کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ باتیں ان کے ٹھنڈے دل ودماغ سے غور کرنے کی ہیں۔ چنانچہ اگر وہ اپنی سمت درست کرلیں تو ان کے لیے بھی اچھا ہوگا اور ملک کے لیے بھی ! ع شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات آج کا مطلع اگر اتنی بھی رعایت نہیں کی جاسکتی صاف کہہ دو کہ محبت نہیں کی جاسکتی

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved