تحریر : ڈاکٹر انوار احمد تاریخ اشاعت     27-03-2013

زمیں میر و سلطاں سے بے زار ہے

ملک میں ہی نہیں دنیا بھر میں بڑی تبدیلی کے آثار ہیں۔ روسی قیادت نے چینی قیادت کے ساتھ مل کر ایک نئے ورلڈ آرڈر کو تشکیل دینے کی بات کی ہے۔امریکہ اور یورپ میں ’قومی مفاد‘ اور’انسانی ضمیر‘ کے جدل کی بحث میں یہ آواز بلند آہنگ ہو رہی ہے کہ عراق،افغانستان اور پاکستان کے لوگوں کو ’پتھر کے زمانے‘ میں دھکیلنے کی امریکی کوششوں کا دفاع پیش نہیں کیا جا سکتا۔اسرائیل نے عالمِ اسلام کے نئے قائد ترکی سے فلو تیلا نامی بحری جہاز پر فوج کشی کی معذرت کر لی ہے،جو محصور فلسطینی بچوں کے لئے دوائیں اور خوراک لے کر چلا تھا ۔بھارت میں بھی آہستہ آہستہ اہلِ کشمیر کے انسانی حقوق کی پامالی پر دانش وروں کا احتجاج واضح طور پر سنائی دیتا ہے۔ پاکستان میں بھی ایک بہت بڑی سماجی اور سیاسی تبدیلی کے آثار ہیں۔ایک وقت تھا کہ ہماری ’اشرافیہ‘ کو جہاں سات خون معاف تھے،وہاں ٹیکس،بجلی،گیس کے بل،کاروں کی ڈیوٹی دینا اورزمین خرید کر گھر بنانا وغیرہ ان کے شایانِ شان خیال نہیں کیا جاتا تھا۔ یہ درست ہے کہ اب بھی کم از کم ایسے باوسیلہ سرکاری و غیر سرکاری ضرورت مند ہیں،جو مستقبل کے حکمرانوں کے واجبات چکانے،بلکہ الیکشن لڑانے اور بعد میں ان کا ’کچن ‘ وغیرہ چلانے کے لئے تیار ہیں،مگراس طرح کے سودوں میں جو کالک ماضی میں لگتی رہی ہے ،آثار یہی ہیں کہ وہ کسی کاسمیٹک سرجری سے جانے والی نہیں۔ یہ تسلیم کہ عام آدمی اپنی سیاسی پسند و ناپسند سے آزاد نہیں ہو سکتا مگر لیاری اور لاہور کے ووٹر کے اسلوب میں ایک نمایاں فرق پیدا ہو چلاہے۔لیاری کا ووٹر کھلم کھلا کہتا ہے کہ واجہ… چور ڈاکو ہے،مگر ہمارا جگر ہے۔ جب کہ لاہوری ووٹر ریلوے انجنوں کو بادامی باغ کی فیکٹریوں میں گیس چوری کر کے پگھلانے اور لاہور کی ایک بڑی مارکیٹ کا ماہانہ بجلی کابل ساٹھ،ستر ہزار روپے دینے والوں کو تواتر کے ساتھ کئے جانے والے حج اور عمروں کے باوجود کوئی ایسا بھی قابلِ عزت خیال نہیں کرتا کہ انہیں کندھوں پر بٹھا کر اسمبلیوں میں چھوڑ آئے۔اب وہ زمانہ لد گیا،جب غلام مصطفی جتوئی اور ممتاز بھٹو کی ان باتوں پر علاقے کے لوگ سر دھنتے تھے کہ وڈیرہ پیدائشی منتظم ہوتا ہے،اسے ملک کا نظام چلانے کے لئے کسی رسمی تربیت کی ضرورت نہیں۔آج جاگیر داری کے خلاف جو نفرت ہے ،اسے جاگیردارانہ ذہنیت کے خلاف بھی استعمال کیا جانا چاہیے۔جو سیاسی جماعتوں میں بھی ہے،جہاں کسی کو قائد کی دہشت یا احترام میں چوں بھی کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی،یہ درس گاہوں میں بھی ہے،جہاں ذہانت کو پروان چڑھانے والے اختلافی نقطۂ نظر کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ ’باخبر ‘ ازلی یاسیت پسند بے شک کہتے رہیں، کہ آخری لمحے میں روشنی گل ہو جائے گی،یہ انتخاب چوری ہو جائیں گے مگر کریڈٹ اندھیرے بانٹنے والی سابق قیادت کو دینا چاہیئے ،جس نے پاکستانی عوام کو اندھیرے میں چوکس رہنے والا بنا دیا ہے،اس لئے میرا تاثر ہے کہ اس مرتبہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو سندھ کے ووٹر آخری موقع دیں گے کہ اس محروم خطے کو امن اور خوش حالی لوٹادیں،ورنہ آئندہ انتخابات میں وہ تاریخ کے کوڑے دان پر ہوں گے۔اسی طرح اگر جماعتِ اسلامی نے اپنے سابق رفیق فضل الرحمن کا مصافحہ ،عمران خان سے کرا دیا تو یہ صوبہ بھی امن اور خوش حالی کے نئے دور سے آشنا ہو سکتا ہے۔میاں نواز شریف لاہور چھوڑ کر اگر بلوچستان کی حقیقی لیڈر شپ کو قیادت دئیے جانے کے عمل کی تائید کریں تو شاید اختر مینگل کی واپسی اس خطے میں بندوق کے بغیر منصفانہ نظام قائم کرنے کے آرزو مندوں کو تقویت دے سکے۔پنجاب میں نوجوانوں کو مستقبل کی دیانت دار قیادت کے بارے میں فیصلہ کرنا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس صوبے کے جنوب کے ووٹرز کو صوبے کی تقسیم کے بارے میں بھی فیصلہ کرنے دیں۔ بہت کچھ اچھا ہو رہا ہے،موجودہ پارلیمنٹ کے ارکان کی ایک تہائی کو اپنے معاشی اعمال یا عادات کی وجہ سے آپ نا اہل ہوتا دیکھیں گے،ایک تہائی کو انتخاب میں شکست کھاتا دیکھیں گے اور بمشکل ایک تہائی منتخب ہو سکیں گے۔ اگر تو آپ کو الفرڈ ہچکاک کی ڈرائونی فلم ’پرندے‘یاد ہے تو آپ اس منظر سے لطف اندوز ہو سکیں گے کہ اپنے پروں تک کو خضاب لگانے والے سیاسی پرندوں نے ن لیگ کی کشتی ڈبونے کے لئے آخری یلغار کر دی ہے۔ سست رو فخر امام کی تازہ قلابازی کوئی آزادانہ فیصلہ تو نہیں ہو سکتی،سکندر بوسن اور پسران لغاری کی جانب سے میاں صاحب کی قدم بوسی سرائیکی ووٹرزکو منطقی فیصلے کرنے میں مدد دے گی۔ شیخ رشید نے اپنی بازاری زبان ،تحریکِ انصاف کو مستعار دینے کی جو پیشکش کی ہے،وہ تحریکِ انصاف کو شکرئیے کے ساتھ جنرل مشرف کو فارورڈ کر دینی چاہیے،آخر انہوں نے کراچی ائیر پورٹ پر پی آئی اے کے ستائے مسافروں سے جو ولولہ انگیز خطاب کیا ہے،اس کے بعد وہ شیخ رشید کی آگ لگائو،سگار سلگائو خطابت کے زیادہ مستحق ہو گئے ہیں۔بہر طور آج ضرورت ہے کہ ان انتخابات کے بعد پاکستان کے لئے ایک نیا سیاسی کلچر پیدا کرنے کے لئے پھر سے صدارتی نظام کے اس تصور پر غور کیا جائے جو فیلڈ مارشل کے نظام کے خلاف مزاحمت کی روح یعنی تاریخیت کو بھی مدِ نظر رکھے،تاکہ اختیارات کسی ایک فرد یا ادارے میں مرتکز نہ ہوں،ملک میں پندرہ سے بیس صوبے ہوں اور ترکی کی طرح بلدیہ کے میئر کا الیکشن پارلیمنٹ کے ممبر سے زیادہ اہم ہو جائے اور قومی قیادت عوامی خدمت کرنے والوں میں سے ہی ابھر کر آ سکے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved