تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     07-06-2018

ابھی ایک کال کرنا باقی ہے

میری بڑی بیٹی ڈاکٹر ہے۔ اس نے 2010ء میں آغا خان ہسپتال سے ایم بی بی ایس کیا۔ اگلے سال وہاں ہائوس جاب مکمل کی اور ملتان آ گئی۔ اس کے بعد وہ ایک سال تک اپنی ماں کی تیمارداری میں مصروف رہی۔ اکیس اکتوبر کو اس کی ماں دنیا کے جھمیلوں سے آزاد ہو گئی۔ بیس روز بعد اس کی رخصتی تھی‘ بعض لوگوں کے کہنے کے باوجود رخصتی کو مؤخر نہ کیا اور وہ اپنے گھر چلی گئی۔ اگلے دو سال اس نےUSMLE یعنی ''یونائیٹڈ سٹیٹس میڈیکل لائسنسنگ ایگزامینیشن‘‘ کی تیاری کرتے گزار دیئے۔ اس امتحانی نظام کے تحت تین تحریری امتحان اور ایک پریکٹیکل ہوتا ہے۔ پہلے دو تحریری امتحان اس نے لاہور جا کر دیئے۔ یہ Step One اور Step Two کہلاتے ہیں۔ تیسرا امتحان امریکہ جا کر دیا اور پریکٹیکل بھی امریکہ میں ہوا۔ چاروں امتحانات میں پاس ہونے پر اسے MD کی ڈگری مل گئی۔ اب اگل مرحلہ شروع ہو گیا۔
یہ مرحلہ تھا امریکہ میں Residency میں داخلہ۔ یہ ایک بڑا پیچیدہ نظام ہے ‘جسے کالم میں سمجھانا مشکل تر کام ہے۔ اس میں امیدوار کو درجنوں جگہ سے انٹرویو کال آتی ہیں‘ وہ انٹرویو دیتا ہے‘ پھر اس کے نتائج ایک جگہ پر اکٹھے ہوتے ہیں اور امیدوار کی داخلہ لینے کی ترجیح اور ریذیڈنسی آفر کرنے والے ادارے کی ترجیح‘ اگر ایک ہو جائے‘ جسے MATCHING کہتے ہیں‘ تو اسے وہاں داخلہ مل جاتا ہے۔ امریکہ میں خالی خولی ایم بی بی ایس کسی کام کا نہیں ہوتا‘ اسے آپ بے شک ایف ایس سی سمجھ لیں۔ پھر تین سے چار سال کی ریذیڈنسی اور اس کے بعد دو سے چار تک کی فیلو شپ۔ ریذیڈنسی اور فیلو شپ کی مدت میں کمی بیشی کا تعلق آپ کی اختیار کردہ سپیشلائزیشن سے ہے۔
میری بیٹی کا ریذیڈنسی میں داخلہ 2014ء میں ہوا۔ اسے Internal Medicine میں امریکی ریاست مشی گن کے شہر ''گرینڈ ریپڈز‘‘ میں داخلہ مل گیا۔ ایک سال بعد 2015ء میں اس کے شوہر کو امریکی ریاست اوہائیو کے شہر ٹولیڈو کی یونیورسٹی میں نورولوجی میں ریذیڈنسی میں داخلہ مل گیا۔ یہ محض اتفاق اور خوش قسمتی سمجھ لیں کہ ٹولیڈو یونیورسٹی میںانٹرنل میڈیسن کے دوسرے سال کی ایک ریذیڈنٹ چھوڑ کر چلی گئی۔ میری بیٹی نے وہاں اپلائی کیا اور اسے بھی اسی یونیورسٹی میں دوسرے سال کی ریذیڈنٹ کے طور پر منتخب کر لیا گیا۔ دونوں میاں بیوی ایک ہی شہر کے ایک ہی ادارے میں دو مختلف سپیشلائزیشنز میں اکٹھے ہو گئے۔ بیٹی کی ریذیڈنسی تین سال کی ہے‘ جبکہ میرے داماد کو یہ کورس چار سال میں مکمل کرنا ہے۔ میری بیٹی کی ریذیڈنسی گزشتہ سال مکمل ہو گئی اور اس نے آگے فیلوشپ میں داخلہ لے لیا۔ یہ دو سال کا کورس ہے اور وہ 2019ء میں اپنی فیلو شپ جو کہ Infections Diseases میں ہے‘ مکمل کر لے گی‘ یعنی 2005ء میں شروع ہونے والی میڈیکل کی پڑھائی 2019ء میں چودہ سال بعد مکمل ہو گی اور وہ کنسلٹنٹ بن جائے گی‘ جبکہ اس کے شوہر کی یہ مشقت 2021 ء میں ختم ہو گی۔ پڑھائی اور ہسپتال کی ڈیوٹی کی سختی کا یہ عالم ہے کہ ان کے دونوں بچے، تین سالہ سفیان اور ڈیڑھ سالہ ضوریز ملتان میں اپنے دادا دادی کے پاس رہتے ہیں۔ 
قارئین! آپ حیران ہو رہے ہوں گے کہ آخر آپ کو یہ ساری تفصیل بتانے کی کیا ضرورت آن پڑی ہے؟ دراصل آپ کو یہ بتانا مقصود تھا کہ امریکی نظام کے تحت کنسلٹنٹ ڈاکٹر بننا کس مشکل اور مشقت کا کام ہے۔ اس میں کہیں کوئی شارٹ کٹ نہیں، کہیں میرٹ کی پامالی نہیں اور کہیں کسی نالائق کی گنجائش نہیں۔ یہاں وہی کامیاب ہوتا ہے ‘جو آگے ہے‘ پیچھے والے کو کوئی نہیں پوچھتا۔ پاکستان میں بھی پرائیویٹ میڈیکل کالجز کے کھلنے سے پہلے میڈیکل میں داخلہ صرف اور صرف میرٹ پر ہوتا تھا۔ ایف ایس سی میں کم نمبر لینے والے آگے بی اے، بی ایس سی اور پھر ایم اے، ایم ایس سی وغیرہ کر کے نوکری از قسم لیکچرر وغیرہ حاصل کرلیتے تھے ۔ نسبتاً قابل طالب علم ایم بی اے، ایم اے انگلش، ا کنامکس وغیرہ کر لیتے تھے اور بالکل نالائق طلبہ آخر کار ایل ایل بی کر لیتے تھے (یہ لکھنا حالانکہ بے وقوفی کا کام ہے مگر حقیقت یہی ہے)
میری بیٹی آج کل ایک ماہ کے لئے ''کلیولینڈ کلینک سیڈل اینڈ آرنلڈ ملر فیملی پیویلین‘‘ میں ٹریننگ کے لئے گئی ہوئی ہے۔ یہ ٹرانسپلانٹ کا شاندار میڈیکل سنٹر ہے اور میری بیٹی یہاں ٹرانسپلانٹ کے بعد لاحق ہونے والی انفیکشن کے علاج بارے تعلیم حاصل کر رہی ہے۔ میں نے کل اس سے پوچھا کہ یہاں ڈاکٹر کیا تنخواہ لیتا ہے؟ اس نے کہا کہ مختلف درجوں اور تجربے کے حوالے سے مختلف پیکجز ہیں۔ ٹرانسپلانٹ سرجن کے لیے پانچ لاکھ ڈالر سالانہ سے لے کر دس لاکھ ڈالر تک تو معمول کی بات ہے۔ چیف ایگزیکٹو بارے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ ممکن ہے ڈیڑھ دو ملین ڈالر سالانہ لیتا ہو۔ ڈیڑھ ملین بھی سمجھیں تو سالانہ پاکستانی روپوں میں سوا سترہ کروڑ روپے (ڈالر کی قیمت بھی ڈنڈی مار کر ایک سو پندرہ روپے لگائی ہے) سالانہ یعنی تقریباً ایک کروڑ چالیس لاکھ روپے ماہانہ سے زیادہ۔ 
میں نے ایک دن اپنی بیٹی سے پوچھا کہ اُس کا آگے کیا ارادہ ہے؟ ساتھ ہی میں نے اسے یہ بھی کہا کہ وہ اپنا ارادہ بتاتے ہوئے میری خواہش وغیرہ کو مد نظر نہ رکھے اور محض میری خوشی کی خاطر کوئی فیصلہ نہ کرنا‘ یہ تمہاری زندگی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ تم اسے اپنی مرضی سے جیو۔ زندگی میں کہیں یہ ملال نہ ہو کہ ''اگر‘‘ میں ایسا کرتی ‘تو ایسا ہو جاتا۔ تم اپنی زندگی میں کبھی ''اگر‘‘ کا ملال نہ پالنا۔ وہ کہنے لگی: میں یہ سپیشلائزیشن مکمل کر کے ایک دو سال کا تجربہ لے کر واپس پاکستان آ جائوں گی۔ پاکستان میں دو چار ہسپتال ایسے ہیں‘ جہاںمجھے دس بارہ لاکھ ماہانہ تنخواہ مل جائے گی۔ پاکستان میں اتنے پیسوں سے شاندار زندگی گزاری جا سکتی ہے۔
وہ کہنے لگی: یہ ٹھیک ہے کہ ادھر امریکہ میں ڈاکٹر کی بڑی آمدنی ہے۔ ہمارے چیف کنسلٹنٹ کا گھر کئی ایکڑ میں ہے۔ صحن کے درمیان جھیل ہے۔ اتنی بڑی کہ اس میں واٹر سپورٹس ہوتی ہے۔ دو چار ڈاکٹروں کو میں جانتی ہوں‘ جن کے پاس اپنا جہاز ہے۔ یہ تو وہ ہیں‘ جنہیں میں جانتی ہوں۔ ایسے امریکہ میں بے شمار ڈاکٹر ہیں‘ لیکن زندگی کا مزہ پاکستان جیسا نہیں۔ بچے ''ڈے کیئر‘‘ میں یا ''نینی‘‘ کے پاس چھوڑنے پڑتے ہیں۔ گاڑی خود چلانی پڑتی ہے۔ صفائی کے لئے کبھی کبھار پارٹ ٹائم میکسیکن خادمہ مل جائے‘ تو غنیمت سمجھیں۔ لیکن یہ بھی تب ہو گا جب میں پوری کنسلٹنٹ بن جائوں گی۔ ہاں! گھر زبردست ہو گا۔ گاڑی ایسی کہ پاکستان میں صرف خواب ہی دیکھا جا سکتا ہے۔ سال میں ایک دو بار دنیا کے مہنگے ترین ریزوٹس میں چھٹیاں گزاری جا سکتی ہیں۔ ہر دو سال بعد گھر کا سارا فرنیچر تبدیل کیا جا سکتا ہے اور مہنگے ترین برانڈز کے کپڑے، جیولری اور جوتے خریدے جا سکتے ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ تو پاکستان میں آ کر بھی کیا جا سکتا ہے۔ پھر یہاں زندگی گزارنے کا فائدہ؟
PKLI والا ڈاکٹر سعید بھی اسی طرح پاکستان آیا ہو گا‘ جیسا میری بیٹی کا ارادہ ہے۔ سنا ہے ڈاکٹر سعید اختر امریکہ میں پچاس ساٹھ ہزار ڈالر ماہانہ سے زیادہ تنخواہ لیتا تھا۔ اپنا جہاز تھا اور وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پاکستان آ گیا۔ کس لیے؟ کیا صرف بارہ لاکھ روپے تنخواہ کے لئے؟ ہرگز نہیں۔ امریکہ کا کوالیفائیڈ ڈاکٹر دنیا میں ہر جگہ پریکٹس کر سکتا ہے‘ جبکہ برطانیہ کا MRCP یا FRCS ڈاکٹر امریکہ، کینیڈا یا آسٹریلیا میں پریکٹس نہیں کر سکتا۔ سمجھ نہیں آتا کیا لکھا جائے اور کیسے لکھا جائے؟
کہانیاں تو اس عاجز کے پاس بہت ہیں لیکن کیا کیا جائے‘گرمی میں جیل جانے کی ہمت نہیں پڑتی اور معافی مانگنے کی عادت نہیں۔ سو کالم ختم کر کے بیٹی کو فون کروں گا اور اسے کہوں گا کہ واپس آنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ وہیں نوکری کرو۔ ٹیکس دو اور عزت کے ساتھ مزے کی زندگی گزارو۔ آخر عزت کی بھی کوئی قیمت ہوتی ہے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved