تحریر : اسلم اعوان تاریخ اشاعت     07-06-2018

اختلاف،جمہوری ارتقاء کا زینہ

منتخب جمہوری حکومت اپنی تمام تر کامیابیوں اور ناکامیوں کا ملبہ سمیٹے آئینی مدت پوری کرکے ازخود تحلیل ہو گئی۔پچھلے دس سالوں میں ہمہ گیر مشکلات کے باوجود دوسری منتخب حکومت کی بلاتعطل اپنے متعین دورانیہ کی تکمیل، سیاسی نظام کے دوام کا ذریعہ بنے گی۔ اس پیش رفت کے نتیجہ میں جہاں تقسیمِ اختیارات کی آئینی حدود سے تجاوز کرنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی ہوئی، وہاں یہ مربوط مساعی عوام کے حقِ حاکمیت کو بتدریج مستحکم کرنے کا وسیلہ بھی بن سکتی ہے۔ اگر چہ جمہوری تسلسل ابھی تک اپنی کھوئی ہوئی اتھارٹی کو پوری طرح جذب کرنے میں کامیاب نہیں ہوا تاہم آشفتہ سر سیاستدانوں کی آبلہ پائی نے راستے کے کچھ کانٹے ضرور کم کر دیئے ہیں۔اب ہم امید کر سکتے ہیں کہ پچیس جولائی دوہزار اٹھارہ کے عام انتخابات بے یقینی کی دھند صاف کرنے کے علاوہ کئی صحت مند تبدیلیوں کا پیش خیمہ بن کے سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کی نوید لائیں گے۔
یہ سچ ہے کہ ارتقاء اختلاف کے سہارے پھلتا پھولتا ہے،اس لئے گزشتہ دس سالوں میں اداروں کے مابین شدید ترین محاذ آرائی کے پہلوبہ پہلو ہر شعبۂ زندگی میں ایک صحت مند ارتقأ پروان چڑھتا دکھائی دیا۔سی پیک جیسے گیم چینجر منصوبے روبعمل ہونے کے علاوہ ایک طاقتور سیاسی جدلیات نے فکری و سیاسی انتشار میں مبتلا معاشرے کو دوبارہ منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔پچھلی حکومت نے انرجی بحران پر کافی حد تک قابو پا لیا،اقتصادی سرگرمیوں کو استوار کرنے والے انفراسٹرکچر کی تعمیر سے تجارت کو وسعت ملی،ریاستی اداروں کی موثر کارروائیوں سے دہشتگردی کے آشوب میں کمی اور امن عامہ میں بہتری آئی۔ وسیع آبادیوں کے بوجھ تلے کراہتے ملک کے بڑے شہروں میں سہولیات کی سطح قدرے بلند ہوئی، آئل اینڈگیس اور بجلی و پانی جیسے بنیادی پیداواری یونٹس کی ہموار ترسیل سے صنعتوں کا پہیہ چلنے سے معاشی سرگرمیوںکی مرحلہ وار افزائش شروع ہوئی،یو این ڈی پی کی رپورٹ اور موڈیز کے انڈیکیٹرز بہتری کے انہی رجحانات کی تصدیق کرتے ہیں۔
تاہم ایسا بھی نہیں کہ یہ سب کچھ صرف منتخب حکومتوں نے تن تنہا کر دکھایا، بلکہ اس ارتقاء کے پیچھے افواجِ پاکستان سمیت ملک کے تمام اداروں کا خاموش مگر موثر تعاون شامل رہا ہے۔خاص طور پر فاٹا کے خیبر پختون خوا میں انضمام اور دہشتگردوں کے خلاف آپریشنز جیسے بڑے فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے میں دفاعی اداروں کا کردار زیادہ نمایاں نظر آیا۔اسی سے واضح ہے کہ گہرے تضادات اورکئی پیچیدگیوں کے باوجود سول ملٹری تعلقات میں اک گوناں توازن پیدا ہو رہا ہے۔ ہیگل نے کہا تھا کہ''کشمکشِ ضدین ہی سے ایک پیچیدہ تر کلیت پیدا ہوتی ہے‘‘۔موجودہ سیاسی جدلیات ہی شاید ہمیں ادارہ جاتی توازن کی طرف لے جانے کا ذریعہ بنے۔ہمیں عدالتوں کا بھی مشکور ہونا چاہیے جن کی کار آمد فعالیت نے سرکاری اداروں کی روایتی بے حسی کے جمودکو توڑنے اور منتخب لیڈر شپ میں اپنی ذمہ داریاں نبھانے کا احساس بیدار کرنے میں زبردست کامیابی حاصل کی۔ اسی پیش دستی کی بدولت عوامی سطح پر تقسیمِ اختیارات کے فارمولے کی ازسرِ نو تدوین کی بحث چھڑی،جس نے منتخب سیاستدانوں کے اندر خود اختیاری کے شعلوں کو بھڑکایا۔ یہ ایک ایسا دو طرفہ عمل تھا جس سے ایک طرف عدالتی فعالیت پر تنقید نے آئینی حدود میں سمٹنے پر قانع کیا اور دوسری جانب منتخب حکومتوں کو بے عملی کی یبوست سے نجات ملی۔
امرِ واقعہ یہ ہے کہ آزادی کے ابتدائی پچاس سالوں تک اس مملکت خداداد کی اپنی کوئی پالیسی نہیں تھی اورہمارا فیصلہ سازی کا پورا نظام امریکہ کے عالمی مفادات کے تابع تھا۔ نائن الیون کے بعد ہماری ریاست نے امریکی دوستی کے آکٹوپس سے جان چھڑانے کا اصولی فیصلہ کیا اور نہایت یکسوئی کے ساتھ اسی نئی راہ پر چلنے کی منصوبہ بندی کی،جس کے بعد مقتدر اداروں کے اندر ملک کے داخلی سیاسی نظام کو مستحکم کرنے اور عالمی تعلقات میں توازن پیدا کرنے کا احساس جاگا۔اسی فکری تغیر کے آثار ہمیں جنرل (ر) شاہد عزیز کی کتاب''یہ خاموشی کہاں تک؟‘‘ یا پھر سن دوہزار تین میں اندر سے لکھے گئے اس خط سے ملتے ہیں جس کے افشا کی پاداش میں جاوید ہاشمی کو بغاوت کے مقدمات کا سامنا اور پھر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔یہ شعوری طور پہ ایک دلیرانہ پیشقدمی تھی جس نے ہمیں میکانیکی اور قسمت پرستانہ فلسفہء حیات سے نجات دلائی۔بلاشبہ ہر پھلتی پھولتی مملکت پہ ایک ایسا وقت ضرور آتا ہے جب پرانے طور طریقے نئے رجحانات پر قابو پانے کیلئے ناکافی ثابت ہوتے ہیں، ایسے میں زندہ قوموں کی بیدار مغز لیڈرشپ غیر معمولی فیصلے کر کے زندگی کی نئی راہیں تلاش کرلیتی ہے، اس وقت ایسے مربوط زاویہ نگاہ کی ضرورت ہے جو ہمیں باہم جوڑ کر زمانے کے تقاضوں کو سمجھنے اور جنوبی ایشیا میں تیزی سے بدلتی صورتحال سے ہم آہنگ رہنے کے قابل بنائے۔ بلاشبہ ہمیں مطلقاً قطع تعلق کرنے یا امریکہ سے الجھنے کی ضرورت نہیں لیکن اس وسیع و عریض دنیا میں اپنے لئے زندگی کے نئے امکانات تلاش کرنا ہوں گے جو ہماری قومی بقاء کا فطری تقاضا ہیں۔
ستر سالوں پر محیط امریکہ سے اپنے ہمہ جہت تعلقات سے دامن چھڑانے میں ہمیں مزید کچھ وقت درکا ہوگا جس کے بعد یہاں معاشی اور سیاسی خود مختاری کی کونپلیں پھوٹ سکیں گی۔بہرحال سیاست کے طالب علموں کیلئے یہ ایک دلچسپ سٹڈی ہو گی کہ گزشتہ سات دہائیوں کے دوران منتخب ادارے اورسویلین لیڈر شپ، کسی نظر نہ آنے والے دبائو کی بدولت نہایت خاموشی کے ساتھ اپنی آئینی پوزیشن سے کیوں پسپا ہوئی اور جس رفتار سے سویلین اتھارٹی نے اپنی ڈومین کو چھوڑا اسی تیزی سے منظم ادارے،بیوروکریسی اور نان سٹیٹ ایکٹر اس خلا کو کیسے پُر کرتے گئے۔تاہم جنرل مشرف کے آخری دور میں ابھرنے والی قانون کی حکمرانی کی تحریک،جسے عرف عام میں وکلاء تحریک کہا گیا،نے سویلین لیڈرشپ کے اندر اپنی کھوئی ہوئی ڈومین دوبارہ حاصل کرنے کا حوصلہ پیدا کیا ۔
ایک دلچسپ اور حیرت انگیز حقیقت یہ بھی ہے کہ طالبان عسکریت پسندوں کے ریاستی اداروں پر جارحانہ حملوں نے بھی خواب غفلت میں ڈوبے ارباب اختیار کو گم گشتہ جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کی دوبارہ بحالی کی یاد دلائی۔اکیسویں صدی کے پہلے عشرہ میں دہشتگردی کے خلاف جنگ کی مہیب لہروں نے مغربی سرحدوں سے ملحقہ صوبہ خیبر پختون خوا کے انتظامی ڈھانچہ کو تہہ و بالاکیا تو تشدد کی لہروں نے سب سے زیادہ اثر مقامی معیشت اور تعلیمی اداروں پر ڈالا۔اے این پی حکومت تو مفلوج رہی لیکن تحریک انصاف کی خوش گمان حکومت بھی سرتوڑ کوشش کے باوجود سرکاری تعلیمی اداروںکی تعمیر نو ممکن نہ بنا سکی۔اس لئے کہ یہاں سسٹم کو درپیش خطرات ابھی ٹلے نہیں۔
ریاست نے اپنی پہلی داخلہ پالیسی میں جس داعش کو معاشرے کیلئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے اس کے خفیہ مراکز مغربی سرحد کی دوسری جانب پنپ رہے ہیں،اس لئے ریاست خیبر پختون خوا کے دینی مدارس کو ریگولیٹ کرنے کے علاوہ اعلیٰ تعلیمی اداروں کی مانیٹر نگ موثر بنانے کی کوشش کرے گی۔ تاہم مشکل یہ ہے کہ داعش صرف جنگجو تنظیم ہی نہیں وہ ایک بڑی کاروباری آرگنائزیشن بھی ہے اور اس کا ہدف خاص طور پر بیروزگار اور وہ مثالیت پسند نوجوان بنتے ہیںجو بہت جلد زندگی کے مصائب سے اُکتا کر اس خوبصورت دنیا کو ختم کرنے کا تہیہ کر لیتے ہیں۔اب فاٹاکے خیبر پختون خوا میں انضمام کے بعد مغربی سرحد پر واقع اس حساس صوبہ میں اعلیٰ تعلیمی اداروں کے علاوہ قبائلی علاقوں کی معیشت کو ریگولیٹ کرنا بھی بڑا چیلنج ہو گا۔
یونانی کہتے ہیں علم کا حصول ضبط نفس کے بغیر ممکن نہیں لیکن بدقسمتی سے اس خطہ کے لوگ افلاس کو اپنی عظمت کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں،اس لئے انہیں فقط تعلیم ہی سے نہیں بلکہ مادی خوشحالی سے کارآمد شہری بنایا جا سکتا ہے۔بلاشبہ یہاں کا تعلیمی نظام اخلاقی بنیادیں کھو کر بگاڑ کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے، عالمی اداروں کی امداد سے منسلک نئے نظامِ تعلیم میں اساتذہ شاگردوں کی روح کو مسخر کرنے کی بجائے مخصوص اختیارات کے تحت انہیں کمانڈ کرنے لگے ہیں،اس لئے طلبہ بوقت ضرورت ہی استاد کی عزت کرتے ہیں۔سرکاری کالجز میں مخلوط بی ایس سسٹم اور یونیورسٹیز میں سمسٹر نظام نے تعلیم وتعلم کے روایتی عمل (Tool of understanding)کو مفقود کر دیا ہے۔تمام مضامین کے سوفیصد نمبر ہاتھ میں ہونے کی وجہ سے اساتذہ بھی پڑھانے کے بجائے جس کو جتنے چاہتے ہیں نمبر دے کر، طلبہ کی شخصیت کو مسخ کر رہے ہیں۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved