تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     08-06-2018

رمضان، رحمان اور اسمبلی ممبران

اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب ''قرآن مجید‘‘ کی تعلیم کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ 114سورتوں میں سے ایک بھی سورت ایسی نہیں جس کا نام مرد حضرات کے نام پر ہو جبکہ اس کے برعکس قرآن کی ایک سورت کا نام ''النسائ‘‘ ہے یعنی ''خواتین‘‘ کے نام پر سورت موجود ہے۔ ''الرجال‘‘ نام سے قرآن میں کوئی سورت نہیں۔ اسی طرح قرآن میں انبیائے کرام کے اسمائے گرامی کے علاوہ سوائے حضرت زیدؓ کے کسی امتی کا نام مذکور نہیں ہوا۔ حضرت زیدؓ کا اعزاز یہ ہے کہ وہ ایک غلام تھے جن کو حضرت محمد کریمﷺ نے منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا۔ اسی طرح قرآن میں کسی عورت کا نام نہیں آیا۔ نام آیا تو صرف حضرت مریم علیھا السلام کا اور وہ بھی ایک، دو اور چار مرتبہ نہیں بلکہ 34بار ان کے نام کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب میں کیا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ قرآن کے مذکورہ انداز کو دیکھیں تو کمزوروں کی عظمت نظر آتی ہے۔ اللہ رحمن و رحیم کی جانب سے ان کی دلجوئی نظر آتی ہے کہ ایک خاتون کا نام 34بار آیا ہے پھر خواتین کے نام سے سورت ''النسائ‘‘ بھی اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے۔ قارئین کرام! سورت ''النسائ‘‘ کی پہلی آیت کا ترجمہ ملاحظہ ہو، فرمایا:''اے انسانو! اپنے اس رب سے ڈر جائو جس نے تمہیں ایک جان (آدم علیہ السلام) سے پیدا فرمایا اور اس جان (آدمؑ کی پسلی سے) اس کی بیوی (حوّا) کو پیدا فرمایا۔ پھر ان دونوں سے بہت سارے مرد اور خواتین (زمین پر) پھیلا دیئے۔ اس اللہ سے ڈر جائو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے تعاون کے طلبگار ہوتے ہو۔ مزید برآں! رشتوں ناطوں کو توڑنے سے بھی بچ جائو (کہ ان کے حوالے سے تم باہم مدد مانگتے ہو کہ تو میرا بھائی نہیں لہٰذا میری بات مان لو) یقین جانو اللہ تعالیٰ ہر لحظہ تم کو واچ کر رہا ہے۔ (النسائ:1)
قارئین کرام! سورۃ النساء کی پہلی ہی آیت میں مردوں (الرجال) اور خواتین (النسائ) کا تذکرہ ہوا‘ مگر سورت کا نام جیسا کہ ہم نے آگاہ کیا اللہ تعالیٰ نے (النسائ) رکھا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ رشتوں ناطوں کا مرکز عورت کا وجود ہے۔ عورت کے بطن میں ایک بچے کو پرورش ملتی ہے، خوراک ملتی ہے‘ وہ پورا وجود لے کر بچے کی حیثیت سے دنیا میں آتا ہے‘ تو یہ سارا عمل ایک عورت کے وجود میں مکمل ہوتا ہے۔ اس لئے وجود ملنے کے مقام کو ''رِحم‘‘ کہا جاتا ہے۔ اللہ کے رسول حضرت محمد کریمﷺ نے فرمایا! ''اَلرَّحِمُ شُجْنَۃٌ مِّنَ الرَّحْمَانِ‘‘ (ترمذی: 1424، صحیح) رَحم رحمان کی ایک شاخ ہے۔ یاد رہے رَحم اور رِحم دونوں کا معنی ایک ہے۔ دونوں لفظوں کا اطلاق بچہ دانی پر بھی ہوتا ہے اور رشتہ داری پر بھی، یعنی رشتے یہیں بنتے ہیں۔ ان رشتوں کا پہلا مرکز تمام انسانیت کی ماں حضرت حوّا ہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے سورت ''النسائ‘‘ کی پہلی آیت میں پوری انسانیت کو مخاطب کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ تم سب آپس میں انسانیت کے حوالے سے رشتہ دار ہو۔ ایک باپ اور ماں کی اولاد ہو۔ فرمان رسولﷺہے۔ مولا کریم فرماتے ہیں رحم کی اس شاخ کو جس نے کاٹا میں ''بَتَتُّہ‘‘‘ اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دوں گا۔ موجودہ دور کے معروف مفسر حافظ عبدالسلام حفظہ اللہ اپنی ''تفسیر قرآن الکریم‘‘ میں امام شوکانی رحمہ اللہ کے حوالے سے مذکورہ آیت کی شرح میں لکھتے ہیں کہ ''اَلْاَرْحَامَ‘‘ سے مراد محرم اورغیر محرم تمام رشتے مراد ہیں‘ یعنی پوری انسانیت بھی مراد ہے اور تمام قریبی اور دور کے رشتہ دار بھی مراد ہیں۔ دوست احباب بھی مراد ہیں۔ پڑوسی بھی مراد ہیں اور جن کے ساتھ مل کر انسان کام کرتا ہے۔ وہ دفتر کے لوگ ہیں یا جماعتی نظم کے لوگ ہیں وہ بھی مراد ہیں۔ ''وَالصّاحبِ باالجنبِ‘‘ پہلو کے ساتھی یعنی جن کے ساتھ بس، ٹرین، جہاز یا کسی ریسٹ والے مقام پر کچھ دیر مل بیٹھنے کا موقع مل جائے وہ بھی مراد ہیں۔
تعلق کے لحاظ سے اہمیت کم اور زیادہ ہوتی چلی جاتی ہے۔ لامحالہ ان کی اہمیت بہت زیادہ ہو جاتی ہے‘ جن کے حوالے سے رحِم کا رشتہ براہ راست ہوتا ہے۔ وہ خونی رشتہ ہوتا ہے، بچہ پیدا ہوتا ہے تو باپ کے والدین دادا دادی بن جاتے ہیں۔ باپ کی بہنیں، پھوپھیاں اور بھائی چچا تایا بن جاتے ہیں۔ ماں کے ماں باپ نانی نانا، ماں کی بہنیں، خالائیں اور ماں کے بھائی ماموں بن جاتے ہیں۔ یہ رشتے سب سے قریبی اور اعلیٰ ترین ہوتے ہیں‘ پھر اسی بچے کے اپنے بہن اور بھائی تو وہ رشتے ہیں کہ جنہوں نے ایک ہی جگہ ایک ہی خون سے پرورش پائی ہے۔ یہ سب سے اعلیٰ ترین حق رکھتے ہیں۔ جی ہاں! رحم، رحمان سے ہے۔ رحمان کی شاخ ہے۔ حضورﷺ نے فرمایا:''اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا، حتیٰ کہ جب وہ ان کو پیدا کر کے فارغ ہو گیا‘ تو رَحِم کھڑا ہو گیا، اس نے رحمان کا دامن تھام لیا، اللہ تعالیٰ نے اس سے کہا :تیرا کیا مسئلہ ہے‘ تو کیا چاہتا ہے؟ کہنے لگا: (مولا کریم ) کھڑے ہو کر میرا فریادی بننا‘ اس کا کھڑا ہونا ہے اور ایسی جگہ کھڑا ہونا ہے ‘جو پناہ لینے کا مقام ہے‘ میں قطع تعلقی (بائیکاٹ) سے جناب کی پناہ مانگتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اسے جواب دیا: اچھا! میرے اس فیصلے پر کیا تو راضی ہے کہ میں اس شخص کو اپنے ساتھ ملائوں گا‘ جو تجھے (رشتہ داری) کو ملائے گا اور اسے اپنے سے کاٹ پھینکوں گا‘ جو تجھے کاٹ ڈالے گا۔ کہنے لگا: جی ہاں ‘ میرے رب! میں اس پر راضی ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے کہا: جا! جو تو نے مانگا عطا فرما دیا‘‘ (بخاری: 4830، مسلم: 2554)اس کے بعد اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا، اگر تم چاہو تو قرآن پڑھ لو (اللہ تعالیٰ نے فرمایا) کیا تمہاری حالت یہاں تک پہنچ گئی کہ اگر تم لوگوں کو اقتدار مل جائے ‘تو تم زمین میں فساد مچائو گے اور اپنے رشتوں ناطوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالو گے۔ یہ وہ لوگ ہیں‘ جن پر اللہ تعالیٰ نے لعنت بھیجی ہے۔ انہیں کانوں سے بہرہ اور ان کی آنکھوں سے اندھا کر دیا ہے۔ تعجب ہے یہ لوگ قرآن پر غوروفکر ہی نہیں کرتے یا پھر ایسا ہے کہ ان کے دلوں پر تالے لگ چکے ہیں (محمد:22تا 24)، بخاری و مسلم۔
یاد رہے! سورۃ محمدؐ کی آیت کے لفظ ''تَوَلَّوْا‘‘ سے حافظ عبدالسلام حفظہ اللہ نے بھی پہلی ترجیح کے طور پر حکمران مراد لئے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ وہ اقتدار کی قوت میں رشتوں ناتوں کو توڑتے ہیں۔ ایسے حکمرانوں کو جو ایسا کرتے ہیں رمضان المبارک میں اپنی آخرت کی فکر کر کے اپنی اصلاح کرنی چاہئے۔ بادشاہ لوگ تو حکمرانی کے نشے میں باپ اور بھائیوں تک کو جان سے مار دیتے تھے۔ تہ خانوں میں پھینک دیتے تھے جہاں رشتے ناطے سسکیاں لے لے کر مولا کریم کے عرش کو ہلا دیتے تھے۔ جی ہاں! اللہ کا عرش ایسے فریادی کی فریاد سے کیوں نہ ہلے کہ اللہ کے رسول حضرت محمد کریمؐ نے فرمایا:'' رَحم اللہ کے عرش کے ساتھ لٹکا ہوا ہے‘‘ (بخاری:5991)۔
قارئین کرام! ہماری اسمبلیاں مدت پوری کر چکیں، مجھے بہت اچھا لگا کہ قومی اسمبلی کے آخری دن عابد شیر علی نے ممبر خاتون محترمہ شیریں مزاری سے اپنے پرانے تکلیف دہ ریمارکس پر معافی مانگ لی۔ پانچ سال جو لوگ ممبر بن کر اکٹھے رہے تو اسمبلی ممبران کی حیثیت سے رشتہ دار تھے۔ خواتین سے متعلق سورت کی پہلی آیت پر کالم لکھنے والے امیر حمزہ کو خاتون سے معذرت کرنا بہت ہی اچھا لگا۔ دعا ہے آئندہ کی اسمبلیوں میں باہمی احترام بہت زیادہ ہو۔ اللہ تعالیٰ سب لوگوں کو جنہوں نے رشتہ داریاں اور تعلق داریاں منقطع کر رکھی ہیں، ان کو ملانے کی توفیق عطا فرمائے کیونکہ قطع رحمی ایسا عظیم گناہ اور جرم ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا! ''ظلم اور رشتے ناطے کو توڑنے سے بڑھ کر کوئی گناہ ایسا نہیں جس کی سزا اللہ تعالیٰ دنیا ہی میں دے ڈالتا ہے اور جلدی دیتا ہے پھر یہاں سزا دینے کے باوجود اگلے جہان میں ظلم اور قطع رحمی کی سزا ذخیرہ بھی کی جا رہی ہے۔ مسند احمد:38\\5) یعنی جس قدر ظلم کی مدت لمبی ہو گی، قطع رحمی کا ٹائم لمبا ہو گا۔ اسی قدر دنیا و آخرت میں سزا بھی بہت بڑی ہو گی۔ اے مذکورہ جرم کے مرتکب! عابد شیر علی کی طرح معافی مانگنے میں جلدی کر لے۔ اللہ توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved