پاکستان میں سیاسی ابتری شروع ہو چکی تھی اور بھٹو صاحب کی مقبولیت صرف عوامی تائیدو حمایت تک محدود تھی۔ان کے ساتھیوں نے مختلف دلائل تلاش کر کے جو مشورے دئیے‘ وہ ہمیشہ کی طرح ہر حکمران کے لئے ایک جیسے ہوتے ہیں۔خدا جانے کس نے ان کے ذہن میں یہ بات ڈال دی تھی کہ'' بھٹوصاحب عوام کے دلو ں میں بستے ہیں اور ان کی مقبولیت ناقابل شکست ہے‘‘۔حقیقت یہ ہے کہ انتخابات منصفانہ ہوتے تو بھٹو صاحب کو انتخابی کامیابی سے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔ لیکن اصل طاقت جس شعبے میں ہوتی ہے‘اس کے اقتدار کوکوئی متزلزل نہیں کر سکتا۔ یہ محض واہمہ نہیں‘ حقیقت ہے۔ جہاں تک عوام کی مقبولیت کا سوال ہے‘ بھٹو صاحب کو زبردست مقبولیت حاصل تھی۔ لیکن دوسری بات بھی پیش نظر رکھنی چاہئے کہ تاریخ ‘ جغرافیے اور سیاسی رجحانات یکساں نہیں ہوتے۔ جو طاقتیں ہمارے ملک میں عوامی مقبولیت کو کنٹرول میں رکھتی ہیں‘اس کا مقابلہ صرف انتخابی طاقت سے نہیں کیا جا سکتا۔ جو صورت حال 1977ء میں تھی‘ موجودہ حالات بھی اسی سمت میں جا رہے ہیں۔ وہ شخص بھٹو صاحب کا بدترین دشمن ہو گا ‘ جس نے انہیں عوامی تائید و حمایت کی بل بوتے پر انتخابات میں کامیاب ہونے کے خواب دکھائے۔ پاکستان جیسے ملکوں میں محض سیاست ہی تاریخی عمل اورعوام کی پرجوش اکثریتی حمایت‘ کسی حکمران کے لئے اقتدار کی ضمانت نہیں بن سکتے۔ 1977ء میں جو پہلے انتخابات ہوئے‘ ان میں بھٹو صاحب کو یقینی طور پر بھاری اکثریت حاصل ہوئی لیکن بھر پور عوامی مقبولیت سیاست دانوں کی طاقت میں نہیں بدلی جا سکی۔ وجہ صاف ظاہر تھی۔جن طاقتوں نے بھٹو صاحب کو1977ء کے انتخابا ت پر مجبور کیا‘وہ حکمران پارٹی کی حمایت چھوڑ چکی تھیں۔ایک طرف مسلح اور منظم طاقت تھی اور دوسری طرف غیر منظم عوام۔
جن کا '' عوامی اور میڈیا کی طاقت‘‘پر کنٹرول تھا‘ انہوں نے انتخابات کا اعلان ہوتے ہی چھوٹی چھوٹی سیاسی پارٹیوں کے اتحاد بنوا کر بھٹو صاحب کی عوامی مقبولیت سے تصادم پر تیار کر دیا۔یہ اسی طرح کے دن تھے‘ جن سے ہم حالیہ دنوں میں گزر رہے ہیں۔77ء اور موجودہ سیاسی بحران میں بہت چیزیں مشترک ہیں‘ مثلاً: اس وقت اقتدار پر بھٹو صاحب کی گرفت کمزور ہوتی جا رہی تھی‘اب نوازشریف کی گرفت کمزور ہوتی جا رہی ہے‘ جو اقتدار سے محرومی پر شدید رنجیدہ ہیں۔ ایک طرف ''عوامی مقبولیت‘‘ انہیں حوصلہ دیتی اور دوسری طرف وہ اپنی خیالی طاقت کو منظم اور مسلح طاقت کے سامنے لے آئے۔
اس وقت پاکستان دو جغرافیائی یونٹوں میں تقسیم تھا۔ اور ان دونوں کا درمیانی فاصلہ ہزار میل کے قریب تھا۔ ہمارا جغرافیائی بُعد عسکری اور سیاسی اعتبار سے روایتی دشمن بھارت کے حق میں تھا۔ مشرقی پاکستان کی تمام سیاسی قوتیں‘ صورت حال اس پر کنٹرول قائم کرنے کے اہل نہیں تھیں۔بھارت نے اپنی فوجی طاقت کو جنگلوں اوردریائوں کے درمیان تقسیم کر لیا تھا۔عوام کے منظم اور مسلح دستے پاکستانی فوج کی سپلائی لائنز جابجا کاٹ رہے تھے۔مشرقی پاکستان کے جن عوام پر ہماری قیادت نے بھروسہ کیا‘ وہ منظم اور غیر منظم طاقتوں کے رحم و کرم پر تھے۔ مسلح بنگالیوں کو بھارتی افواج‘ گھیرے میں لے ان کا اسلحہ چھین لیتی اور پھرپاکستانی فوج کے ساتھ انتہا درجے کی بدسلوکی کرتی۔بے شمارایسی مثالیں موجود ہیں کہ بھارتی افواج کے خلاف مزاحمت کرنے والے مسلح اور غیر مسلح بنگالیوں کو‘ رسوں میں جکڑ کے جنگی قیدیوں کے کیمپوں میں گھیر کے لے جاتے۔ ہم پاکستانیوں کے لئے وہ دن انتہائی اذیت ناک تھے۔جنگ کی شدت میں کمی آئی تو پاکستان کے حامی بنگالیوں کو غیر مسلح کیا جا رہا تھا اور ٹرکوں کے ٹرک بھر کے جنگی قیدیوں کے کیمپوں کی طرف لے جا یا جا رہا تھا۔ذوالفقارعلی بھٹو‘جو ہر موقع پر بھارتی جارحیت کا سامنا کر لیتا تھا‘ لیکن بھارت کی جنگی کامیابیوں نے ہمیں بے بس کر دیا تھا۔یہاں میں وہ دردناک کہانیاں ختم کرنا چاہتا ہوں‘ جو ہماری آزادی‘ وقار اور خود مختاری کو چیلنج کر رہی تھیں۔ وہ بہت تکلیف کے دن تھے۔
خودغرض اور حب الوطنی سے محروم مشرقی پاکستانیوں نے جہاں تک ممکن ہوا‘ وطن کی حفاظت کرنے کی کوشش کی۔ لیکن منظر ہی عجیب ہو گیا تھا۔ آ ج اگر موجودہ پاکستان چین کی دوستی سے محروم ہوتا تو ہم انتہائی بے بسی کے عالم میں اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کر رہے ہوتے۔ بڑے سیاسی لیڈروں نے دونوں طرف غلط محاذ چنے۔ریاستی طاقت کے گھیرائو میں ہماری آدھی سے زیادہ آبادی‘ دشمن کے سامنے بے بس تھی۔مغربی پاکستان میں کوئی محاذ ہی نہیں کھلا تھا۔ چھوٹی چھوٹی جھڑپیں ہوئیں ۔ وہ مغربی محاذ پر ایک دوسرے کے حوصلے آزماتے رہے۔اب میں ان دنوں کی طرف آئوں گا ‘جو ہمارے لئے بہت ہی منحوس تھے۔ (جاری)