اقتدار دو مہینے کا ہی کیوں نہ ہو‘رہتا حکمران خاندانوں کے اندر ہے۔ پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ کا تعلق بھی پاکستان کے ایک بہت بڑے حکمران خاندان سے ہے۔جگنو محسن اس اعتبار سے ایک خوش نصیب اور کامیاب خاتون ہیں جنہوں نے اپنے بل بوتے پر شعبہ صحافت میں بلند مقام پیدا کیا۔ اپنے عظیم الشان خاندانی پس منظر سے کبھی فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی۔ یہ اور بات ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں داخلے کے لئے خاندانی پس منظر ازخود کام آ جاتا ہے۔ میرے صحافی دوست خوش ہو رہے ہوں گے کہ ان کا ایک ساتھی نگران ہی سہی‘ ملک کے سب سے بڑے صوبے کا وزیراعلیٰ بن گیا ہے۔ لیکن پاکستان میں حکمرانی کی روایات کو روند کر نہیں۔ جیسے ’’ڈان‘‘ کے ایڈیٹر الطاف حسین‘ ارشاد احمد حقانی مرحوم اور اسی طرح کے بعض دیگر کارکن صحافی بن گئے تھے۔ نجم سیٹھی کسی بھی حوالے سے کارکن صحافی نہیں رہے۔ انہیں شادی کے رشتے نے پاکستان کے سب سے بڑے حکمران خاندان سے جوڑ دیا۔ ان کی خوش نصیبی تھی کہ انہیں جگنو بھابی جیسی رفیقۂ حیات نصیب ہو گئی‘ جنہیں ورثے میں مچل فروٹ فارم اور خاندان کے دیگر کئی تجارتی ادارے مل گئے تھے۔ یہ ورثہ ان کی والدہ محترمہ کا تھا‘ جو واجد علی شاہ خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ پاکستان میں اس خاندان کی مثال برصغیر کے لوہارو خاندان سے دی جا سکتی ہے۔ جسے نواب آف لوہارو کا خاندان بھی کہتے ہیں۔ بھارت کے مقامی حکمرانوں اور اعلیٰ درجے کی بیورو کریسی میں شاید ہی کوئی بڑا خاندان ہو‘ جس کی نواب آف لوہارو سے دور یا نزدیک کی رشتہ داری نہیں تھی۔ پاکستان کے حکمران خاندانوں میں جھانک کر دیکھا جائے‘ تو ان میں سے بیشتر کا تعلق کسی نہ کسی حوالے سے واجد علی شاہ خاندان سے ضرور نکل آتا ہے۔ جھنگ کے کرنل عابد حسین کا تعلق بھی اسی خاندان سے تھا اور وہ پسماندہ علاقے کے ایک چھوٹے زمیندار ہونے کے باوجود اعلیٰ ترین ریاستی مناصب پر فائز ہوتے رہے۔ کیونکہ ان کی بیگم واجد علی شاہ خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ بیگم عابدہ حسین براہ راست اس خاندان کی بیٹی ہیں۔ ان کے شوہر ملتان کے ایک بہت بڑے جاگیردار کے صاحبزادے ہیں۔ جنہوں نے ایک زمانے میں جاگیرداروں کی یونین بنا کر اپنے طبقے کے مفادات کا تحفظ کیا تھا۔ سردار آصف احمد علی بھی ایک حوالے سے اسی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگر واجد علی شاہ خاندان کے صنعتی اور تجارتی اداروں کی فہرست دیکھی جائے‘ تو شاید ہی کوئی بڑا ادارہ ہو‘ جس کی ملکیت کلی یا جزوی طور پر اس خاندان کے پاس نہیں ہے۔ ہرچند یہ خاندان دوسری جنگ عظیم کے دوران رئیسوں کی برادری میں شامل ہوا لیکن اس نے دیکھتے ہی دیکھتے جدی پشتی رئیسوں والے طور اطوار اپنا لئے۔اس خاندان کے کم و بیش تمام سینئر اراکین نے اپنے اپنے دائرہ کار کے اندرتہذیبی‘ ثقافتی‘ علمی اور تعلیمی شعبوں میں کارہائے نمایاں انجام دیئے۔ ہلال احمر کا ادارہ اسی خاندان کے زیرسایہ پاکستان میں پھیلا۔ اولمپک کمیٹی میں پاکستان کو اسی خاندان نے باعزت مقام دلایا۔ لاہور کے ریس کلب کی بنیاد اسی خاندان نے رکھی۔ایک بہت بڑا اشاعتی ادارہ اسی خاندان نے قائم کیا اور مال روڈ پر اپنی ذاتی زمین اس کے نام وقف کی۔ جس کا بہت بڑا حصہ‘ اب اس کے پاس نہیں رہ گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے والد سر شاہنواز بھٹو کے سید امجد علی سے قریبی تعلقات تھے‘ جن کا شمار پاکستان کے ابتدائی وزرائے خزانہ میں ہوتا ہے۔بھٹو فیملی خاندانی تعلقات کے معاملے میں بے حد روایت پسند تھی۔ جس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھٹو صاحب کے والد ریاست جوناگڑھ میں وزیراعظم تھے۔ تقسیم کے بعد یہ ریاست بھارت میں چلی گئی اور نواب جونا گڑھ کا خاندان کراچی آ گیا۔ بھٹو صاحب کو جیسے ہی پاکستان کا اقتدار ملا‘ انہوں نے نواب جوناگڑھ کے جانشین کو گورنر بنا دیا۔ اسی طرح بھٹو صاحب کے داداجب ایک مقدمے میں‘ گرفتاری سے بچنے کے لئے بہاولپور میں پناہ گزیں ہوئے‘ تو بھٹو صاحب نے ان کے جانشین کو بھی صوبائی گورنر کا منصب دیا۔ بھٹو صاحب کی سیاسی زندگی میں واجد علی شاہ خاندان ہمیشہ اہمیت کا حامل رہا۔ حالانکہ پاکستانی رئیسوں کے طبقے میں نمایاں ترین حیثیت رکھنے والا واجد علی شاہ خاندان اپنے طبقاتی مفادات کی بنا پر بھٹو صاحب کا مخالف ہونا چاہیے تھا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ عابدہ حسین کی طرح جگنو محسن کا بھی‘ اس خاندان سے ننہال کا رشتہ ہے اور یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ان دونوں خواتین نے اپنی ذاتی صلاحیتوں اور میرٹ پر سماجی اور سیاسی حیثیت حاصل کی۔ بیگم عابدہ حسین وفاقی وزارت سے لے کر امریکہ میں پاکستان کی سفیر بننے تک اپنی اہلیت کی بنیاد پر آگے بڑھیں۔ ان کے والد کا تعلق بہرحال ایک جاگیردار خاندان سے تھا۔ جگنو محسن اپنے خاندان کی تہذیبی اور علمی روایات کے زیراثر طباعت و اشاعت کے شعبے میں دلچسپی رکھتی تھیں۔ جس کے نتیجے میں ان کے شوہر نے وین گارڈ کے نام سے ایک اشاعتی ادارہ قائم کیا۔ مگر جلد ہی اس کی شہرت کسی اور رنگ میں ہو گئی۔ جو میرے خیال کے مطابق یقینی طور پر جگنو محسن کی لاعلمی میں ہوا ہو گا۔ لیکن اس مسئلے کو حل کرنے میں جگنو محسن پیش پیش رہیں۔ اس وقت دونوں میاں بیوی نے صحافت کے شعبے میں مقام بنانے کا فیصلہ کیا اور ’’فرائیڈے ٹائمز‘‘ کے نام سے ایک ہفت روزہ شائع کرنے لگے‘ جس نے جلد ہی بیوروکریسی اور تجارتی طبقے میں اپنی حیثیت بنا لی۔ جگنو محسن اور ان کے شوہر کو حکمران طبقوں کے اندر پہلے سے رسائی حاصل تھی اور نجم سیٹھی پبلک ریلیشننگ میں بہت تیزطرار اور سمجھدار انسان ہیں۔ اپنی صحافتی حیثیت میں انہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے اقتدار کے ایوانوں میں رسائی حاصل کر لی۔ موجودہ پاکستان میں جو بڑے حکمران خاندان آج بھی چھائے ہوئے ہیں‘ نجم سیٹھی ان سب سے قریبی تعلقات رکھتے ہیں۔ شریف خاندان ہو‘ چوہدری برادران ہوں‘ بھٹو خاندان ہو یا حکمران جنرلوں کا گروپ ہو‘ نجم سیٹھی انتہائی تیزرفتاری سے ہر ایک کا اعتماد حاصل کر لیتے ہیں۔ وہ بے نظیربھٹو کے ذریعے فاروق لغاری کے اتنے قریب ہوئے اور ان کا اتنا اعتماد حاصل کیاکہ جب فاروق لغاری نے بے نظیرکو برطرف کر کے نگران حکومت بنائی‘ تو وہ اس میں بھی وزیر بن گئے۔ بی بی شہید اور آصف زرداری‘ فاروق لغاری کے اتنے دشمن بنے کہ ان کی اولاد تک کو معاف نہیں کیا۔ لیکن نجم سیٹھی نے نہ صرف بے نظیربھٹو کا اعتماد دوبارہ حاصل کر لیا بلکہ وہ آصف زرداری کے بھی قریب ہو گئے۔ پرویزمشرف دور میں اگر جاوید جبار وزیراطلاعات نہ بنتے‘ تواس زمانے کی قیاس آرائیوں کے مطابق‘ یہ کرسی نجم سیٹھی کی تھی۔ نجم سیٹھی خود بھی قیام پاکستان کے وقت کی ایک بہت بڑی رئیس فیملی سے نسبت رکھتے ہیں۔ جس نے اقتدار کے کھیل میں شامل ہونے سے ہمیشہ گریز کیا۔ رفیق سہگل کو جب بھٹو صاحب نے شرکت اقتدار کی دعوت دی‘ تو انہوں نے وزارت لینے کی بجائے پی آئی اے کی ڈوبتی ہوئی نائو کو بچانے کی ذمہ داری قبول کی اور معاوضے میں تنخواہ تو کیا‘ ادارے کی طرف سے کوئی سہولت بھی لینے سے انکار کر دیا۔ ان دنوں میں پی ٹی وی کا ایک سٹیج شو لکھا کرتا تھا۔ میں نے اس کے ایک شو میں سرمایہ داروں کی مخالفت میں ایک مباحثہ کرایا اور اس میں رفیق سہگل کو بھی مدعو کر لیا۔ انہوں نے نہ صرف سرمایہ داروں پر ہونے والی شدید تنقید کو خندہ پیشانی اور تحمل کے ساتھ سنا بلکہ اختتامی کلمات میں انتہائی عاجزی کے ساتھ کہا کہ ’’وطن کی خاطر مجھے جھاڑو بھی دینا پڑا‘ تو میں اس کے لئے تیار ہوں۔‘‘ ان کا یہ جملہ میں آج تک نہیں بھولا۔ نجم سیٹھی کی فیملی کاروبار میں سہگل خاندان کے دیگر نمایاں افراد کی طرح کامیاب نہ ہو سکی۔ لیکن جہاں تک ایوان اقتدار میںاثرورسوخ کا تعلق ہے‘ اس میں سہگل خاندان بھی دیگر حکمران خاندانوں سے کم نہیں۔ میں نے یہ پس منظر اس لئے لکھا ہے کہ میرے صحافی بھائی خواہ مخواہ اکڑفوں دکھانے کی کوشش نہ کریں۔ پنجاب کی نگران وزارت اعلیٰ وہیں گئی ہے‘ جہاں اسے جانا چاہیے تھا۔نجم سیٹھی کا وزیراعلیٰ بننا ہم صحافیوں کا اعزاز نہیں‘ حکمرانی کا روایتی تسلسل ہے۔ جس پر میں دونوں کو مبارکباد دیتا ہوں۔ دونوں نے ہی انتھک محنت سے اپنے خاندانوں کے روایتی ورثے میں اپنا حصہ پا لیا ہے۔ یہ ان دونوں کی مہربانی ہے کہ اپنا تعارف بطور صحافی کراتے ہیں۔ ورنہ وزارت اعلیٰ ان کے لئے کوئی بڑی چیز نہیں۔انہیں بہت آگے جانا ہے۔ ابھی سامنے کرسیاں اور بھی ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved