تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     09-06-2018

شائستگی کی گرم بازاری

دنیا کا کام کسی طور نہیں رکتا۔ مگر محض اتنا کافی نہیں کہ دنیا کا کام چلتا رہے۔ اہمیت اِس بات کی ہے کہ کام چل کس طور رہا ہے۔ بالکل رکے اور تھمے ہوئے معاشرے میں بھی زندگی کا نظام تو بہر حال چل ہی رہا ہوتا ہے۔ یہ الگ بات کہ مطلوبہ نتائج آسانی سے نہیں ملتے۔ مطلوبہ نتائج کا حصول آسان بنانے کے لیے لازم ہے کہ وہ سب کچھ اپنایا جائے جو زندگی کو بامقصد، کارگر اور بارآور بنانے کے لیے لازم ہے۔ 
ہم کیسے لوگوں کو پسند کرتے ہیں؟ اچھوں کا یا بُروں کو؟ ظاہر ہے اچھے لوگ ہی پسند کیے جاتے ہیں،اور اچھے لوگ کون ہوتے ہیں؟ جو اپنی سہولت کے ساتھ ساتھ دوسروں کے آرام کا بھی خیال رکھیں۔ تہذیب اور شائستگی بہتر اور معیاری زندگی کے لیے لازم ہے۔ اِن بنیادی اوصاف کے بغیر زندگی ڈھنگ سے گزاری نہیں جاسکتی۔ آج کی دنیا جس بُرے طور سے نفسا نفسی کا شکار ہے اُسے دیکھتے ہوئے ہر تسلیم شدہ قدر انتہائی ناگزیر دکھائی دیتی ہے۔ 
ہم دوسروں کی نظر میں پسندیدہ اور مقبول اُسی وقت ٹھہر سکتے ہیں جب اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کا بھی بھلا سوچیں، اُن کے مفادات کو بھی ملحوظِ خاطر رکھیں۔ ہر اُس انسان کو پسند کیا جاتا ہے جو اپنی ذات تک محدود نہ رہتا ہو بلکہ اوروں کو بھی کچھ نہ کچھ فیض پہنچانے کا ذریعہ بنتا ہو۔ معاشرے کے لیے ایسے لوگ نعمت سے کم نہیں ہوتے جو اجتماعی مفاد کو ہر حال میں ذہن نشین رکھتے ہیں اور سب کچھ اپنی ذات تک سمیٹ کر رکھنے پر یقین نہیں رکھتے۔ 
زمانہ ہمیشہ سے ایسا ہی رہا ہے۔ لوگوں کی اکثریت ذاتی مفاد کو ہر شے پر ترجیح دیتی آئی ہے۔ ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ جس طور بھی ممکن ہو، اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کیا جائے۔ روزمرہ معاملات میں تقریباً ہر انسان صرف یہ دیکھتا ہے کہ اُس کا معاملہ بارآور ثابت ہوگا یا نہیں۔ وہ اِس بات سے بظاہر زیادہ غرض نہیں رکھتا کہ دوسروں کو کیا ملے گا۔ کسی کو اگر اُس کے استحقاق کے مطابق نہ مل رہا ہو تو لوگ زیادہ پروا نہیں کرتے۔ دیکھا صرف یہ جاتا ہے کہ اپنا استحقاق تو مجروح نہیں ہو رہا۔ 
خود غرضی پر مبنی فکر و عمل پورے معاشرے پر محیط ہو تو ترقی اور استحکام کی راہیں مسدود ہو جاتی ہیں۔ کوئی بھی معاشرہ اُسی وقت ترقی کرتا ہے جب آبادی کی غالب اکثریت ذاتی مفاد کو ہر شے پر ترجیح دینے کا رجحان ترک کرے اور اپنی ذات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پورے معاشرے کے مفاد کو ذہن نشین رکھے۔ 
جو کچھ اللہ نے دیا ہے اُس پر شاکر رہنا کم لوگوں کو آتا ہے۔ دنیا کا چلن یہ ہے کہ جس قدر بھی ملے، صرف روتے رہیے۔ اللہ کی طرف سے بے حساب نوازے جانے پر بھی لوگوں کے گِلے شِکوے ختم نہیں ہوتے۔ بہت کچھ پاکر بھی لوگ صبر و شکر نہیں کرتے، اللہ کے آگے شکرانے کے نفل ادا نہیں کرتے۔ بہت سے چھوٹے چھوٹے معاملات میں بھی اللہ کا شکر ادا کرنے سے گریز کی روش عام ہے۔ ہمارے معمولات میں اللہ کا شکر اور بندوں کا شکریہ ادا کرنا شامل نہیں رہا۔ 
کبھی آپ نے اس بات پر غور کیا ہے کہ معمول کے بہت سے معاملات میں کسی کا شکریہ ادا کرنا آپ کو کتنی تیزی سے قابلِ قبول بناتا ہے؟ دفتر میں کینٹین بوائے چائے لاکر دے تو اُس کا شکریہ ادا کرنے میں آپ کی جیب سے کیا جاتا ہے؟ اس طور اگر صفائی کرنے والا آپ کی ڈیسک تیزی سے اور اچھی طرح صاف کردے تو شکریہ ادا کرنے میں کیا ہرج ہے؟ مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم ایسے چھوٹے چھوٹے معاملات میں کسی کا شکریہ ادا کرنا بھول جاتے ہیں۔ جب ہم کسی کا شکریہ ادا کرتے ہیں تو اُسے محسوس ہوتا ہے کہ اُسے اہمیت دی جارہی ہے، اُس کے وجود اور افادیت کو تسلیم کیا جارہا ہے۔ آپ سمیت ہر انسان چاہتا ہے کہ جب وہ کسی کے لیے کوئی کام کرے، کوئی خدمت انجام دے تو اُس کا شکریہ ادا کیا جائے۔ کوئی اظہارِ تشکر کرے ‘تو ہمیں بہت اچھا محسوس ہوتا ہے کیونکہ اظہارِ تشکر اس امر کا عکاس ہے کہ کوئی ہمیں کسی شمار قطار میں رکھ رہا ہے۔ ہمیں یہ بھی محسوس کرنا چاہیے کہ جب ہمیں کسی کی طرف سے اظہارِ تشکر اچھا لگ رہا ہے تو فطری طور پر کسی اور کو بھی ہماری طرف سے اظہارِ تشکر بہت اچھا محسوس ہوتا ہوگا۔ 
کیا خوب سَودا نقد ہے، اس ہاتھ دے اُس ہاتھ لے! 
زندگی کی گاڑی کو خوش دِلی سے چلانے کے لیے لازم ہے کہ ہم خوش اخلاقی کا مظاہرہ کریں تاکہ دوسروں کو بھی ایسا کرنے کی تحریک ملے۔ ہم زندگی بھر مختلف رویّوں کا سہارا لیتے رہتے ہیں۔ کبھی ہم پر جھنجھلاہٹ طاری ہوتی ہے، کبھی گھبراہٹ۔ کبھی ہم ضرورت سے زیادہ بے تابی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور کبھی غیر ضروری عجلت پسندی کا۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم معاملات کو ہنستے گاتے طے کریں۔ اِس سے اچھی کیا بات ہوسکتی ہے کہ ہم خوش دِلی کے ذریعے بیشتر معاملات کو خوشگوار ماحول میں طے کریں۔ 
ترقی یافتہ معاشروں کو دیکھ کر بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔ ہمارے ماحول میں پائی جانے والی بہت سی عمومی خرابیوں پر ترقی یافتہ معاشروں نے بحسن و خوبی قابو پالیا ہے۔ وہاں عمومی شائستگی زندگی کا حصہ ہے۔ ایک دوسرے کا شکریہ ادا کرنا اور کسی بھی کام کے سلسلے میں شائستگی سے تعاون کا تقاضا کرنا مزاج اور معمولات کا حصہ ہے۔ ''براہِ کرم‘‘ اور ''آپ کا شکریہ‘‘ جیسے الفاظ ترقی یافتہ اور مہذب معاشروں میں گفتگو کا لازمی حصہ ہیں۔ 
آپ بھی چاہیں تو آزماکر دیکھ سکتے ہیں کہ کسی سے مدد طلب کرتے وقت تھوڑی سی نرمی اور شائستگی کتنے اچھے نتائج پیدا کرتی ہے۔ ''براہِ کرم‘‘ جیسے الفاظ کے ساتھ کچھ طلب کرنے سے بات بننے کا امکان قوی ہوتا ہے۔ اگر مزاج میں سختی ہو اور بات کرتے وقت بھی سختی ہی کا مظاہرہ کیا جائے تو بنتا کام بھی بگڑ جاتا ہے اور لوگ چاہتے ہوئے بھی مدد نہیں کرتے۔ عام طور پر لوگ معاونت کا فیصلہ کرتے وقت اس بات کو بھی اہمیت دیتے ہیں کہ مدد کی استدعا کرنے والا مزاجاً شکر گزار ہے یا نہیں۔ جس کے مزاج میں شکر گزاری کا مادّہ کم ہو اُس کی مدد کرنے میں زیادہ لوگ دلچسپی نہیں لیتے۔ اگر ہم اپنے معمولات کو درست راہ پر گامزن رکھنا چاہتے ہیں تو یہ نکتہ نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے کہ مدد طلب کرنے کے معاملے میں شائستگی اور مدد ملنے پر شکریہ ادا کرنا ہمارے لیے انتہا سے زیادہ لازم ہے۔ دنیا کا کاروبار کسی نہ کسی طور تو چلتا ہی رہتا ہے لیکن اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ یہ کاروبار ڈھنگ سے چلتا رہے تو لازم ہے کہ نرمی کی راہ پر گامزن ہوں، شائستگی کو اپنی فکری ساخت اور مزاج کا حصہ بنائیں۔ یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ خوشامد یا چاپلوسی اور شائستگی میں واضح فرق ہے۔ انسان نرم خُو ہو تو لوگ مزاج کے اِس پہلو کو تیزی سے محسوس کرلیتے ہیں۔ جو دوسروں کا شکر گزار ہو وہ تیزی سے قبول کیا جاتا ہے، کیونکہ ایسا انسان بیشتر معاملات میں مثبت سوچ کا حامل رہتا ہے اور دوسروں کو بھی مثبت رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ معاشرے پر طائرانہ نظر دوڑائیے تو اندازہ ہوجائے گا کہ شائستگی اور نرم خُوئی ہی بہترین آپشن ہے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved