تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     10-06-2018

یوٹرن اور جھوٹ

لاڈلے کے انتہائی لاڈلے یو ٹرن‘ جتنے انہیں یاد کروائے گئے تھے‘ گنوا دیئے ہیں‘ لیکن ان سے ہم صاف اور شفاف پانی کی کسی کمپنی کی نہیں‘بلکہ ان لاتعداد جھوٹوں کی تفصیلات بھی سننے کی خواہش رکھتے ہیں‘ جنہیں ان کے مربی و محسن کے بقول؛ انہوں نے امریکی صدر بل کلنٹن کی پانچ فون کالز اور اس کے نتیجے میں ٹھکرائے گئے‘ پانچ ارب ڈالرز کو بوریوں میں بند کر رکھا ہے اور جس کی چابی کل تک طارق فاطمی کے پاس رہی، تو کبھی ان کے محسن کے پاس !!۔
کہتے ہیں کہ جتنا مرضی سلانے یا مارنے کی کوشش کی جائے‘ لیکن انسان کے اندر ضمیر اس وقت تک مردہ نہیں ہو سکتاجب تک اس میں زندگی کی ہلکی سی بھی رمق باقی رہتی ہے۔اس لئے میرا یہ کالم صرف ان لوگوں کے لیے ہے‘ جن میں زندگی کی رمق ابھی باقی ہے‘ یعنی ان کا آخری سانسیں لیتا ضمیر ابھی زندہ ہے۔ اور میں ان سے یہ پوچھنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ بجلی اور قومی خزانے کو ایک دن یا ایک ہفتے میں غائب کیسے کیا جا سکتا ہے؟۔
کل تک تویہ کہا جا رہا تھا کہ جانے والے خزانے میں کچھ بھی چھوڑ کر ہی نہیں گئے۔قوی خزانہ خالی ہو گیا ہے‘ بلکہ یہ بھی سننے میں آیا کہ ڈاکو جاتے ہوئے‘ اس کا اس طرح صفایا کر گئے ہیں کہ اس میں ایک پیسہ بھی نہیں چھوڑا۔اور یہ کہ گھر میں موجود لباس تک ساتھ لے گئے ہیں ۔ اسی طرح کی باتیں چند روز پہلے سننے میں آئیںکہ ہم تو کل تک بجلی کے انبار چھوڑ کر گئے تھے‘ پتہ کریں کہ یہ جو نگران آئے ہیں‘ان کی غفلت اور لاپرواہی سے ایک ہی دن میں بجلی کے وہ انبار کہاں چلے گئے؟اب اگر لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے‘ تو اس کے ذمہ دار ہم نہ ہوں گے۔ ہم نے تو کل خود دیکھا تھا کہ قومی کوخزانہ بھرا ہوا تھا۔ آج پتہ نہیں اسے کون خالی کر گیا ہے۔
اکثر ایسا ہوتا دیکھا جاتا ہے کہ اگرکوئی ایس ایچ او یا ڈی ایس پی ‘ ایس پی یا تحصیلدار وغیرہ‘ ایک جگہ سے دوسری جگہ ٹرانسفر ہونے کی صورت میں اپنے دفتر یا کمرے کے لیے کوئی ائیر کنڈیشن یا فرنیچر وغیرہ علاقے کے '' تابعدار قسم‘‘ کے لوگوں سے وصول کرنے کے بعد اپنے استعمال میں لاتا ہے‘ تو کسی دوسری جگہ ٹرانسفر ہونے کی صورت میں یہ سارا سامان اپنے ساتھ ہی لے جانا فرض سمجھتا ہے۔ یہ مثال مجھے اس لئے یاد آ گئی کہ میاں نواز شریف سے جب میڈیا کے کچھ لوگوں نے اسلام آباد کی احتساب عدالت کے باہر یہ سوالات کیے کہ میاںصاحب لوڈشیڈنگ بہت ہو نے لگی ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا '' نگرانوں سے پوچھئے‘‘۔ اسی طرح میاں شہباز شریف نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ''ہماری حکومت آج ختم ہو رہی ہے‘ اس لئے کل اگرلوڈ شیڈنگ شروع ہو گئی‘ تو ہم اس کے قطعی ذمہ دار نہیں ہوں گے‘‘۔ اس بیان کے بعد‘ مجھے اس لڑکی کا فرضی یا حقیقی واقعہ یاد آ گیا‘ جس نے گھر سے بھاگ جانے کا پروگرام بنا رکھا تھا اور اپنے گھر والوں کے ساتھ بیٹھی انہیں بتا رہی تھی کہ اماں مجھے لگتا ہے کہ کل ہمارے گھر کا ایک فرد کم ہو جائے گا۔اگلی صبح جب وہ گھر سے چلی گئی اور شام ڈھلے تک اس کا کوئی سراغ نہ ملا‘ تو سبھی کہنے لگے ''ساڈی کڑی بڑی پہنچی ہوئی سی‘‘ اس نے تو کل رات ہی بتا دیا تھا کہ ہمارے گھر کا ایک فرد کم ہو جائے گا۔میاں شہباز شریف ہم مان گئے کہ آپ بھی بہت ہی پہنچی ہوئی شخصیت ہیں !۔
نواز حکومت ختم ہوتے ہی چین اگر پاکستان کو تین ارب ڈالر نہ دیتا‘ تو نگران وزیر اعظم نا صر الملک ‘جو اس ملک کی عدالتِ عظمیٰ کے چیف جسٹس بھی رہ چکے ہیں‘ قوم کو بتانا پسند کریں گے کہ عالمی سطح پر ہماری کیا حالت ہوتی؟ کیا وہ قوم کو ٹی وی پر آکر بتانا پسند فرمائیں گے کہ ان تین ارب ڈالرز کی پاکستان کو شدید ضرورت کیوں پڑی؟ہمیں اخبارات اور ٹی وی چینلز کے زریعے دن میں نہ جانے کتنی مرتبہ سنایا اور دکھایا جاتا ہے کہ یہ ہے‘ میٹرو بس! جس پر چالیس ارب روپے خرچ ہوئے ہیں۔ یہ ہے‘ اورنج ٹرین! جس پر320 ارب خرچ ہوئے ہیں۔ یہ ہے‘ راولپنڈی- اسلام آباد میٹرو بس! جس پرپچاس ارب روپے خرچ ہوئے ہیں۔ یہ ہے‘ جھنگ کا پاور پلانٹ! یہ ہے‘ نندی پور کا پاور پلانٹ!یہ ہے‘ بھِکی کا پاور پلانٹ اور یہ ہے‘ ساہیوال کا کول پاور پلانٹ ۔یہ دیکھو... قائد اعظم سولر پاور پراجیکٹ۔ اور ان سب پر ہم نے پانچ سو ارب روپے خرچ کئے ہیں‘مگر کیا یہ بجلی صرف پنجاب کے لیے بنائی گئی تھی ؟کیا اس میں بلوچستان ‘ سندھ اور کے پی کے کا حصہ نہیں ؟چلیں ‘اگر یہ سب پنجاب کے لیے تھی ‘تو پھر چند دنوں میں یہ بجلی کہاں غائب ہو گئی؟ کہیں یہ سب بجلی اس سرکلر ڈیبٹ کی نظر تو نہیں ہو گئی‘ جو ایک رپورٹ کے مطا بق800 ارب تک جا پہنچا ہے۔
کیا ملک کے نگران وزیر اعظم بتائیں گے کہ مسلم لیگ نواز کی حکومت پانچ برسوں میں اس ملک کے قومی خزانوں کا کیا حال کر کے گئی ہے؟ نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر کے سامنے ملکی خزانے اور اس میں سے پانچ سال کے دوران خرچ کی گئی‘ ایک ایک پائی کا حساب ہو گا ؟کیا وہ اس قوم کو بتانے کی زحمت گوارہ کریں گے کہ ان پانچ برسوں میں نواز شریف حکومت نے کیا کمایا‘ کتنا قرضہ لیا‘ کتنا کھایا اور کتنا قرض اس ملک پر مزید چڑھایا‘تاکہ بے چارے پاکستانی جان سکیں کہ '' اے طائر لاہوتی‘ اس رزق سے موت اچھی...جس رزق سے آتی ہو‘ پرواز میں کوتاہی‘‘ کا کیا مطلب ہے۔ طائر لاہوتی کے جو گیت ‘ترانے اور نظمیں‘ میاں نواز شریف2013 ء کے انتخابات کی مہم کے دوران اس ملک کی ہر سڑک اور چوک پر کھڑے ہو کر لہک لہک کر خود بھی اور سامنے بیٹھے ہوئے ورکروں سمیت گایا کرتے تھے‘ اس پر کتنا عمل کیا گیا ہے؟ نگران وزیر اعظم کا قوم کو آگاہ کرنا فرض بنتا ہے ‘ وہ بتائیں کہ دو ماہ کی نگران حکومت میرے حوالے کرنے والوں نے اس ملک کا‘ جس کے وہ اور ان کے خاندان کے لوگ بھی ایک شہری ہیں‘ کیا حشر کیا ہے؟
جگہ جگہ ہزاروں افراد کے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے کہا جاتاتھا کہ بجلی‘ گیس اور انصاف ہر گھر کی دہلیز پر مہیا کیا جائے گا۔ ہم تھانہ کلچر کا خاتمہ کریں گے۔ ہر شخص کا مفت علاج کیا جائے گا۔ہم مہنگائی کو اس کی جڑ سے اکھاڑ کر پھینکیں گے۔ ہم بے روزگاری کو جڑ سے اکھاڑ دیں گے ۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کبھی چھ ماہ اور کبھی ڈیڑھ سال‘ تو کبھی دو سال میں ختم کرنے کے وعدے کئے جاتے رہے ‘لیکن امریکی اور برطانوی ڈنڈے اور خواہشات پر RO's کے ذریعے مسلط کئے گئے ہمارے ان انتہائی محترم چھوٹے اور بڑے بھائی کی جوڑی نے پنجاب میں دس سال اور اسلام آباد میںپانچ سال گزارنے کے بعد کشکول توڑنے کی بجائے پاکستان پر مزید85 ارب ڈالر سے زائد کے بیرونی قرضوں کا پہاڑ لاد دیا ہے۔
کیا آپ یہ سب دیکھ نہیں رہے‘ہمیں یہ کہنے پر مجبور نہ کریں کہ یہ ہے '' آپ کے صاف پانی کی حقیقت ‘‘۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved