تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     11-06-2018

بحر ہند کا چین

سری لنکا نے اپنی اہم بندر گاہ ہامبانتوتا( HAMBANTOTA) کا قریباً70فیصد حصہ چین کو 99 سال کی لیز پر دیئے دیا ہے۔اس خبر کے سکتے سے بھارت ابھی نکلا ہی تھا کہ دوسری خبرکانٹا بن کر اُس کو چبھی کہ مالدیپ کی یامین حکومت‘ اسے نظر انداز کرتے ہوئے چین کے قریب جا پہنچی ہے۔ظاہر ہے اس قربت سے خطے کی سیا ست میں غیرمعمولی تبدیلیاں رونما ہوں گی۔یہی وجہ ہے کہ مالدیپ کے اس فیصلے نے بھارت کی نیندیں اڑا کر رکھ دی ہیں‘ کیونکہ اس نے کبھی سوچ بھی نہیں ہو گا کہ اسکی سرحدوں کے ساتھ جڑے ہوئے یہ ننھے منے ممالک بھی کبھی اپنی مرضی سے سانس لینے کی ہمت کریں گے ۔ انہونی شاید اس کو کہتے ہیں کہ مالدیپ میں بھارت کی شہ پر اٹھائے جانے والے آئینی بحران نے بھی یامین حکومت کے پائے استقلال میں لرزش تک نہیں آنے دی۔ بھارت کی پریشانی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اب 1988ء کی طرح اسے '' واک تھرو‘‘ کی سہولت بھی نہیں کہ سینہ چوڑا کر کے مالدیپ میں اپنی فوجیں داخل کر دے بلکہ اب تو وہ ایساسوچ بھی نہیںسکتا‘ کیونکہ اسے معلوم ہے کہ ایسی حرکت پر اس کا چین سے براہ راست ''پنگا ‘‘ہو گا۔
چین ؛چونکہ بھارت کی چالاکیوں اور چالبازیوں کو اچھی طرح سمجھتا ہے۔ اس لئے اس نے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مالدیپ کے سابق صدر محمد ناشید کی جانب سے بھارت کو مداخلت کی دعوت دینے سے پہلے ہی یامین حکومت کو اپنے ہر ممکن تعاون کا یقین دلا کر بھارت کو اپنی حدود میں رہنے کا پیغام دیا‘ جس سے بھارت سٹپٹا کر رہ گیا‘ کیونکہ اس سے قبل بھارت کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ مالدیپ اس کا محتاج رہے۔اورمالدیپ کے اندرونی ا ور بیرونی معاملات بھارتی سرکار کی مرضی کے مطا بق چلائے جائیں ۔ ماضی میںمالدیپ کی داخلہ اور خارجہ پالیسیوں پر بھارت کا مضبوط کنٹرول رہا ہے۔ بھارت ہمیشہ سے اس خبط میں مبتلا ہے کہ کسی نہ کسی طرح وہ جنوبی ایشیائی ممالک کی پالیسیوں کا کنٹرول ‘ اپنے پاس رکھے اور دنیا کو یہ تاثر دیئے رکھے کہ وہ اس خطے کا سپر پاور ہے۔ 
نئی دہلی کے پالیسی سازوں کے تو تصور میں بھی نہیں ہو گا کہ مالدیپ جیسی جنوبی ایشیا کی ننھی منی حکومت بھی‘ اس کے سامنے سر اٹھا نے کی جرأت کر سکے گی ۔چین اور مالدیپ کی مذکورہ بالا قربت سے بھارت کو انتہائی تشویش لاحق ہے اور اس خبر نے تو اس کے ہوش اڑا دیئے ہیں :
Planning to construct a port in Northern ATOLL, which straddles West Asia, South East Asia and is located close to India's Lakshadweep Island i.e 700km. 
اگست 2017ء میں بھارت کے سخت احتجاج کی پروا نہ کرتے ہوئے مالدیپ نے چین کے تین جنگی جہازوں کو اپنی حدود میں آنے کی اجا زت بھی دی تھی‘جو بھارت کیلئے نا قابل قبول تھا ۔ دراصل بھارت کو سمجھنے میں دیر لگ رہی ہے کہ اس کی دوستی اور چاپلوسی کے پردے‘ ایک ایک کرکے چاک ہو رہے ہیں‘ کیونکہ سائوتھ ایشائی اب سمجھنے لگ گئے ہیں کہ بھارت ان کی آزادی کا سودا کرتا چلا آ رہا ہے۔ بھوٹان‘ بنگلہ دیش‘ نیپال اور میانمار کی مثالیں اس کے سامنے ہیںکہ ایک زمانہ تھا جب یہ ممالک اپنی مرضی سے سانس بھی نہیں لے سکتے تھے اور بھارت کا اُن پر سکہ چلتا تھا۔ بنگلہ دیش کی بات کریں توTeesta River پر بھارتی دبائو کسی سے بھی پوشیدہ نہیں‘ تاہم اب بنگلہ دیشوں کو یہ سوچنا ہو گا کہ وہ حسینہ واجد کی غلامی سے نجات پاتے ہیں یا اپنی گردن بھارت کے شکنجے میں پھنسائے رکھنا چاہتے ہیں ؟ سارک کی یہ تمام ریاستیں جلد ہی فیصلہ کریں گی کہ کل تک ہم جس دوستی‘ آپس کے بھائی چارے کے جھانسے میں آتے ہوئے بھارت کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے ہیں اور اس کے دبائو پر چین اور پاکستان جیسے ممالک سے دُور رہے ہیں‘ وہ ہماری غلطیاں تھیں‘ کیونکہ بھارت کا رویہ بالکل ایسا ہو چکا‘ جیسے امریکہ دوسرے مغربی ممالک اورچھوٹے ملکوں کے ساتھ رکھتا ہے۔ بھارت ‘ابھی مالدیپ کی اس بے رخی کی وجہ سے ہوش میں نہیں آیا کہ امریکی ذرائع سے ملنے والی ایک او رخبر نے بھی اس کو دھچکا لگایا ہے اور یہ کوئی عام خبر نہیں بلکہ انتہائی معتبر ذرائع سے یہ بتایا جا رہا ہے کہ
China is trying to establish in the Indian Ocean Island Country. 
واضح رہے کہ مذکورہ بالا اس خبر کی ابھی تصدیق نہیں ہوئی ‘لیکن اس نے امریکہ اور بھارت کیلئے بے حد پریشان کن صورت حال پیدا کر دی ہے۔ امریکی حکام اس خبر کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ اس خبر یا اطلاع کو ایک مفروضہ سمجھ کر نظر انداز نہیں کر سکتے کہ نا جانے چین اپنی بحریہ کا یہ جزیرہ کس جگہ بنائے گا؟ اس کے خدو خال کیا ہوں گے اور اگر یہ کہا جائے کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا یا یہ نا ممکن ہے‘ تو ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ چین نے اپنے سمندروں کے جنوبی حصوں میں اس قسم کے چھوٹے چھوٹے کئی مصنوعی جزیرے بنا رکھے ہیں ‘جہاں وہ ہر قسم کے اسلحے سے لیس بیٹھا ہوا ہے ۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کی اطلاع کے مطا بق‘ چین نے اپنے سمندروں کے متنازعہ جنوبی حصوں میں بنائے گئے ‘ان جزیروں میں دُور مارکرنے والے اور تباہ کن میزائل بھی نصب کر رکھے ہیں۔CNBC کی رپورٹ کے مطا بق ‘چین نے جہاز شکن اور فضا سے فضا تک مار کرنے والے میزائل نصب کرتے ہوئے‘ ویت نام اور فلپائن کیلئے خطرے کے الارم بجا دیئے ہیں۔اس اطلاع پر چین کے وزیر خارجہ سے جب اس خبر کی صحت کے بارے پوچھا گیا ‘تو انہوں نے اس کی تردید یا تائید کرنے سے انکار کر دیا۔ امریکہ کی شہ پر برونائی‘ فلپائن‘ ویت نام اور ملائیشیا کے جنوبی چین کی سمندری حدود میں اپنے شپنگ حقوق کیلئے ایک عرصہ سے چینی حکومت سے اختلافات چلے آ رہے ہیں‘لیکن جس دن ان میں سے کسی ایک بھی حکومت اور اس کی عوام نے امریکی تسلط سے آزاد ہو کر چین سے خلوص نیت سے ہاتھ ملایا‘ ان کے تمام خدشات دور ہو سکتے ہیں۔اور اگر امریکی اتحادی بن کر اس کی شہ پر چین کے مفا دات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی‘ تو اس پر چین کا رد عمل قدرتی امر ہے ۔
بھار ت جو کل تک سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ چین‘ جس کا2011 ء تک مالدیپ میں سفارت خانہ بھی نہیں تھا ‘ وہاںیہ نوبت آ جائے گی کہ مالدیپ حکومت کی ایک آئینی ترمیم کے ذریعے چینی شہری مالدیپ میں کسی بھی قسم کی جائیداد خرید سکیں گے۔اس وقت مالدیپ کے متعدد ترقیاتی اور تعمیری پراجیکٹ چین کو دیئے جا چکے ہیں‘ جن پر تیزی سے کام ہو رہا ہے اور چین مالدیپ کی جغرافیائی حدود کے ذریعے بحر ہند میں بھارت کی خواہشوں کا گلا گھونٹنے میں لگا ہو ہے۔ کلکتہ نیتا جی انسٹیٹیوٹ برائے ایشن سٹڈیز کے اسسٹنٹ پروفیسر برائے انٹرنیشنل ریلشنز ویوک مشرا کا کہنا ہے کہ بحر ہند میں مالدیپ کے سٹریٹیجک محل وقوع اور پھر اس کا بھارت کی دھمکیوں اور ناراضگیوں کی پرواہ کئے بغیر چین سے قریب ہونے کا صاف مطلب ہے :
CHINA IS MOVING INTO THE INDIAN OCEAN.

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved