تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     28-03-2013

ایک عجیب وغریب واقعہ

گزشتہ ہفتے ملتان میں سیاسی تاریخ کا ایک عجیب وغریب واقعہ پیش آیا۔ ہمارے ہاں اکثر وبیشتر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی امیدوار یا کوئی سیاسی رہنما اپنی ’’مشہوری‘‘ اپنے سیاسی اغراض و مقاصد یا امیدواری کے سلسلے میں بینر، پوسٹر یا اشتہار لگواتا ہے اور اس کے ان پوسٹروں، بینروں اور اشتہاروں کو اس کے سیاسی مخالفین اتاردیتے ہیں یا اگر وہ حکومت مخالف سیاسی جماعت کا لیڈر ہے تو سرکار کے ملازم ٹی ایم اے وغیرہ کے اہلکار ایسے اشتہاروں کی صفائی کردیتے ہیں۔ یہی حال بعض اوقات خیر مقدمی بینروں ، مبارکباد کے پینافلیکسوں اور تہنیتی پیغامات پر مشتمل بل بورڈوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ غرض اگر اپنے لگائے گئے اشتہاروں‘ پوسٹروں‘ بینروں اور پینافلیکسوں کی حفاظت نہ کی جائے تو مخالفین ان کے ساتھ وہی سلوک کرتے ہیں جو ہفتہ شجرکاری میں لگائے جانے والے لاکھوں پودوں کے ساتھ عوام کرتے ہیں۔ لیکن ملتان میں اس کے بالکل الٹ واقعہ پیش آیا۔ جیسا کہ میں اوپر عرض کرچکا ہوں کہ ہمارے ہاں ہوتا یہ ہے کہ ایک فریق اپنے اشتہار لگواتا ہے اور مخالف فریق آدھی رات کو ، علی الصبح یا جس وقت بھی موقع ملے اتار دیتا ہے۔ ملتان میں اس سے بالکل مختلف واقعہ پیش آیا ہے۔ میں ایک ہفتہ سعودی عرب میں گزارنے کے بعد جب بیس مارچ کو ملتان پہنچا تو قبلہ شاہ صاحب مجھے ڈائیووکے اڈے پر لینے آئے ہوئے تھے۔ واپسی پر شاہ صاحب سے ملتان کا سیاسی حال پوچھا کہ میں گزشتہ ایک ہفتے سے پاکستانی سیاست کے اتارچڑھائو سے مکمل لاعلم تھا۔ سعودی عرب میں قیام کے دوران ڈیڑھ دن دہران میں گزرگیا‘ ایک دن سفر میں اور چارساڑھے چاردن حرم شریف اور مسجد نبوی میں گزرگئے۔ فون، اخبار اور ٹی وی سے رابطہ مکمل طورپر منقطع رکھا اور ملتان آمدتک ملکی سیاسی صورتحال میں ہونے والی تبدیلیوں یا پیش رفت سے یکسر لاعلم تھا۔ چونگی نمبر نو سے جونہی مڑ کر بوسن روڈ پر پہنچا تو دیکھا کہ دورویہ سڑک کے درمیان لگے ہوئے بجلی کے کھمبوں کے ساتھ تقریباً دوفٹ ضرب تین فٹ کے پینا فلیکس لگے ہوئے ہیں۔ یہ پینا فلیکس عمران خان کے مینار پاکستان پر تئیس مارچ کو ہونے والے جلسے میں شرکت کی دعوت اور اپیل پر مشتمل تھا۔ یہ پینافلیکس تقریباً ہر کھمبے پر لگاہوا تھا اور اشتہار پر دعوت دینے والے کے طورپر سابق وزیر خوراک وزراعت ملک سکندر حیات بوسن کا نام بھی تھا اور تصویر بھی لگی ہوئی تھی۔ ملک سکندر بوسن کا شمار انہی جتھوں میں ہوتا ہے جو گزشتہ سال تیس اکتوبر کے کامیاب جلسے کے بعد جوق درجوق تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے۔ تحریک انصاف میں ملک سکندر حیات بوسن کے علاوہ جنوبی پنجاب سے لغاری برادران یعنی جمال لغاری اور اویس لغاری بھی شامل ہوئے تھے مگر شمولیت کے تھوڑا عرصہ بعد ہی دونوں گروپ یعنی سکندر بوسن گروپ اور لغاری گروپ کسی مزید بہتر موقع اور مقام کی امید میں تقریبا ً غیرجانبدار سے بن کر بالکل علیحدہ ہوکر بیٹھ گئے۔ نہ وہ تحریک انصاف کے جلسوں جلوسوں میں نظرآئے اور نہ ہی اس کے کسی تنظیمی اجلاس میں شرکت کی۔ لغاری برادران کا معاملہ شروع سے ہی مشکوک ہوگیا جب تحریک انصاف میں شمولیت کرنے والے تمام سٹنگ (Sitting)ممبران اسمبلی وغیرہ نے شمولیت کا اعلان کرتے ہی اپنی سیٹ سے استعفیٰ دے دیا جیسے جاوید ہاشمی، شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین اور دیگر کئی لوگ شامل تھے مگر نہ تو اویس لغاری نے اپنی قومی اسمبلی کی نشست سے استعفیٰ دیا اور نہ ہی جمال لغاری سینٹ سے مستعفی ہوا۔ سکندر بوسن کا حال بھی تقریباً اسی قسم کا تھا مگر کیونکہ وہ شمولیت کے وقت اسمبلی کارکن نہیں تھا لہٰذا اسے استعفے کے امتحان کا سامنا ہی نہ کرنا پڑا تاہم اس کا رویہ مکمل طورپر مشکوک اور لاتعلقی سے بھرپور تھا۔ اوپر سے ہوا یہ کہ سکندر بوسن کو حلقہ نمبر این اے 151سے شکست دینے والے سید یوسف رضا گیلانی کو سپریم کورٹ نے نااہل قراردے دیا تو این اے 151کی قومی اسمبلی کی نشست فارغ ہوگئی اور ضمنی الیکشن کا مرحلہ درپیش ہوا۔ ملک میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے حصہ نہ لیا اور یہی پالیسی انہوں نے حلقہ این اے 151 میں بھی قائم رکھی مگر سکندر بوسن نے اس موقع کو غنیمت جانا اور یوسف رضا گیلانی کے فرزند عبدالقادر گیلانی کے مقابلے پر اپنے چھوٹے بھائی اور سابقہ ٹائون ناظم ملک شوکت بوسن کو آزاد امیدوار کے طورپر آگے کردیا۔ اسی دوران مسلم لیگ ن جو اس حلقے میں کسی مناسب امیدوار سے یکسر محروم ہے نے ملک سکندر بوسن سے اندر خانے بات چیت کا آغاز کردیا اور ضمنی الیکشن کے موقع پر مسلم لیگ ن کا تین چاررکنی وفد سردار ذوالفقار خان کھوسہ کی سربراہی میں ملک سکندر بوسن کو ملا۔ اندر خانے کیا طے ہوا ؟ اس کا تو پتہ نہ چل سکا مگر بظاہر مسلم لیگ ن نے سکندر بوسن کے امیدوار بھائی کی حمایت کا اعلان کردیا۔ تاہم یہ حمایت صرف اعلان تک محدود رہی اور عملی طورپر مسلم لیگ ن کی مدد ومعاونت کہیں نظر نہ آئی۔ میں نے ایک مسلم لیگی لیڈر سے وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگا ہم نے اعلان کردیا تھا اب مسلم لیگ کی مقامی قیادت کو متحرک کرنا سکندر بوسن کا کام تھا۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کا ورکر بھی گومگو کا شکار رہا اور وہ آخری وقت تک فیصلہ نہ کرسکا کہ اسے کیا کرنا ہے۔ کیونکہ تحریک انصاف کی مقامی قیادت بالکل غیرجانبدار تھی، کوئی شخص سکندر بوسن کی انتخابی مہم میں شریک نہ ہوا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں پارٹیوں کے ووٹ بٹورنے کی امید میں آزاد الیکشن لڑنے والا سکندر بوسن (امیدوار شوکت بوسن تھا مگر اصل میں یہ الیکشن سکندر بوسن ہی لڑرہا تھا) گیلانی خاندان کے حلقے میں تمام تر سیاسی خرابیوں، بدنامیوں اور ناکامیوں کے باوجود الیکشن ہار گیا۔ اسے زیادہ مار شہری حلقوں سے پڑی جہاں اسے مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے ووٹ ملنے کی امید تھی۔ ان حلقوں میں ٹرن آئوٹ نہ ہونے کے برابر تھا جو اس بات کا ثبوت تھا کہ مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے ووٹروں کو سکندر بوسن پر اعتماد نہیں ہے۔ بات بوسن روڈ پر لگنے والے سکندر بوسن کے پینا فلیکسوں کی ہورہی تھی اور کہیں اور چلی گئی۔ بیس مارچ کو پورا بوسن روڈ ان دعوتی پینافلیکسوں سے بھرا ہُوا تھا جس میں لوگوں کو تحریک انصاف کے تئیس مارچ کے جلسے میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ میں خوش ہوا کہ چلیں ملک سکندر اپنی منافقت والی کینچلی اتار کر سامنے آگیا ہے مگر شاہ جی ہنسے اور کہنے لگے‘ یہ بڑا عجیب وغریب واقعہ ہے اور پاکستانی سیاست میں شاید ہی کبھی پہلے ہوا ہو۔ یہ سارے پینا فلیکس لگنے پر سکندر بوسن پریشان ہے۔ لیکن شام کو سکندر بوسن کی پریشانی ختم ہوگئی۔ اس کے آدمیوں نے سارے پینا فلیکس اتار لیے۔ یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں شاید ہی پہلے کبھی ہوا ہو کہ آپ کے اشتہارات (جوکہ آپ کے خلاف بھی نہ ہوں ) آپ کی جانب سے آپ کے مخالفین لگوائیں اور انہیں آپ خود اتروائیں۔ ملتان میں یہی کچھ ہوا ہے۔ ملک سکندر بوسن کب کا مسلم لیگ ن میں جاچکا ہوتا مگر اصل جھگڑا یہ ہے کہ سکندر بوسن قومی اسمبلی کی نشست این اے 151اپنے لیے اور صوبائی اسمبلی حلقہ پی پی 200کی نشست حسنین بوسن کے لیے مانگتا ہے جبکہ مسلم لیگ ن کا مسئلہ یہ ہے کہ اس حلقے سے موجودہ ایم پی اے پیپلزپارٹی سے مستعفی ہوکر مسلم لیگ ن میں شامل ہوا ہے اس کا کیا کیا جائے ؟ عبدالرحمان کا نجو ، لغاری برادران ، خواجہ شیراز ، دریشکوں اور مزاریوں کی قلابازیوں پر پھر سہی۔ فی الحال صرف سکندر بوسن پر اسی کالم پر اکتفا کیا جائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved