غریب گھرانے کا لڑکا مشکلات کی وجہ سے داخلہ فیس جمع نہ کرا سکے‘ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے مجبور بچے کی مدد ہو جاتی ہے۔ عموماً یوں ہوتا ہے کہ فیس جمع کرانے والی کھڑکی کے سامنے بعض بچوں کے چہروںپر پریشانی چھائی ہوتی ہے اور اس پریشانی کو دیکھ کر آس پاس کھڑے نیک دل لوگ‘ طالب علم سے اس کا سبب دریافت کر لیتے ہیں۔یہ بچے ابھی دنیا داری کی چکر بازیاں نہیں سمجھتے ۔ وہ بلاتکلف سچ بتا دیتے ہیں کہ اُن کے پاس صرف آدھی فیس ہے ‘باقی پور ی نہیں ہو رہی۔ بعض نیک دل لوگ پوری فیس بھی دے دیتے ہیں اور یوںبچے کی زندگی میں امیدوں کے پھول کھل جاتے ہیں۔بعض بچوں کے ساتھ فیس میں تھوڑے بہت پیسوں کی جو کمی نکلتی ہے‘ وہ نیک دل آدمی کی اپنی جیب سے بھی پوری نہیں ہوتی‘ تو پاس کھڑے دوسرے انسان مدد کردیتے ہیں۔ سب سے دردناک منظر وہ ہوتا ہے‘جب کوئی لڑکا بار بار اپنی جیبیں ٹٹول کر فیس کی گنتی کرتا ہے اور پھر مایوس نظروں سے ادھر ادھر دیکھ کر اپنی جیب ٹٹولنے کے بعد بھی مایوس نظر آتا ہے۔ ایسے مجبور لڑکے اپنی بے بسی پر آہیں بھر تے اور مایوسی کو آنسوئوں کے ساتھ لے کر خاموشی سے سر جھکائے نکل جاتے ہیں۔ایسے اتفاقات بہت کم ہوتے ہیں ‘مگر ان میں دکھ زیادہ ہوتا ہے۔
ایسے لوگوں کے بارے میں کیا کہیں؟جو اسمبلی کی رکنیت لینے کی خاطر پارٹی فنڈ میں چندے کے نام پر لاکھوں کروڑوں روپے جمع کرا دیتے ہیں۔ کچھ ممبر ایسے بھی ہوتے ہیں جواپنی ممبری کی فیس اپنے سابق ممبر سے‘ مذاق ہی مذاق میں جمع کروا لیتے ہیں اور بعض تو ایسے ہنر مند ہوتے ہیں کہ اپنے مزید دو تین ساتھیوں سے بھی فیس کی کمی پوری کر لیتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہوتے ہیں ‘جو پہلے بھی دو یا تین مرتبہ ممبری سے لطف اندوز ہوچکے ہوتے ہیں ۔ پنجاب کا ایک سچا واقعہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے دفتر میں چندہ جمع کر کے‘ اپنے ایک ساتھی کو یہ واضح طور سے بتا دیا کہ فارم کے ساتھ فیس بھی داخل کرانا ہو گی‘ لیکن اس کے پاس مطلوبہ رقم نہ تھی۔لوگ اس کی سائیکل دیکھ دیکھ کر ہنس رہے تھے کہ'' یہ کیسا بند ہ ہے؟ جو سائیکل پر بیٹھ کر اسمبلی میں داخل ہونے کی راہیں ڈھونڈ رہا ہے‘‘۔ بیچارے اللہ دتہ کو کچھ پتہ نہیں تھا کہ ممبری کیسے حاصل کی جاتی ہے؟
اس کے آس پاس کھڑے امیدواروں نے ہنستے ہوئے پوچھا کہ'' سائیکل خرید کر لائے ہو یا مانگ کر؟‘‘
اللہ دتہ قسمت کا دھنی تھا۔اس کے حالات دیکھ کر پاس کھڑے لوگوں نے فوری طوراس کی فیس جمع کر دی۔ حتیٰ کہ ایک نرم دل امیدوار نے اس کی مزید مدد کر دی اور پہلے ہی دن اس کا کام ہو گیا۔ قطار میں اس کے ساتھ کھڑا امیدوارجو کہ پرانا''پاپی‘‘ تھا‘ اس نے ازخود نہ صرف سارے بندوبست کر دئیے‘ بلکہ ہوسٹل میں جانے کے بعد اس نے ڈرائیو رکو بلا کر کہا '' جائو صاحب کو کمرے تک پہنچا دو‘‘۔
اللہ دتہ کے ہوسٹل میں جانے کا یہ پہلا تجربہ تھا۔کیا آپ یقین کریں گے کہ یہی مسمی اللہ دتہ نہ صرف پرانے ممبران کو دینی اور اخلاقی فرائض سمجھانے لگا‘بلکہ رہن سہن کے طور طریقے بھی بتلا کر بڑی خوشی محسوس کرتا۔
اللہ دتہ اپنے کام کا استاد نکلا۔ ہوسٹل میں داخل ہو کر وہ وقت گزاری کے طور طریقے تیزی سے سیکھنے لگا۔ایک دن اسے اکثر کمروں کے سامنے خوب صورت خالی بوتلیں پڑی دکھائی دیں‘ تو اس نے خالی بوتلیں اٹھائیں اورباہر نکلنے کے راستے پر قدم رکھا ہی تھا کہ ایک ''حضرت‘‘ نے اس کی طرف دیکھ کر '' لاحول ولاقوۃ‘‘ کہا اوراسے سمجھایا کہ یہ ناپاک چیز ہے۔ تم نے کہاں سے اٹھائیں؟یہ انسان کو ہوش و حواس سے محروم کر دیتی ہیں۔ بوتل کے اندر کوئی دوا نظر آئے تو دور سے ہو کے نکل جانا۔ یہ بڑی ام الخبائث ہے‘‘۔
اس خدا کے بندے‘ اللہ دتہ نے ادھر ادھر ہو کے چھپنے کے بجائے‘ دیدہ دلیری سے بوتل لہراتے ہوئے برآمدوںمیں گھومنا شروع کر دیا۔ برآمدے کے آخری سرے پر اسے ایک معزز خاتون‘ چہرے پرمیک اپ اوڑھے‘ غصے سے گھورتے ہوئی دکھائی دی تو وہ وہیں کا وہیں کھڑا رہ گیا۔ اب اسے اندازہ ہوا کہ بوتل میں کوئی شرم ناک چیز ہو گی‘ جسے یہ خاتون میرے ہاتھ میں دیکھ کر غصے میںآ گئی ہے۔
ہوسٹل میں مزید چند روزگزار کے وہ خالی بوتلوں کا یہ راز سمجھنے لگا۔وہ برآمدے میں سے گزر رہا تھا کہ اچانک ایک کمرے کا دروازہ کھلا۔کمرے کے اندر سے ایک نیک دل اور پاکباز آدمی نکلا اور اس کے کان میں کہنے لگا''یہ تم کہاں سے لائے ہو؟‘‘
''بس جی خدا کی نعمت ہے‘ جومل گئی ہے‘‘۔
تھوڑی سی گفتگو میں دونوں آپس میں گھل مل گئے اور نیک دل اور پاکبار آدمی نے کہا ''کل شام کو آٹھ بجے آئو اورمیرے لئے بھی دو لیتے آنا‘‘۔