تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     15-06-2018

اشتعال کے قیدی

عربوں کا محاورہ یہ ہے: دانا وہ ہے ، جو دوسروں سے سبق سیکھے ۔ دانش و دانائی کیا ، وہ آدمی عقلِ عام(Common Sense) سے بھی محروم ہے ، اپنی توانائی جو ضائع کرتا رہے ۔ 
بات اتنی سی نہیں کہ اخبار نویس عمران خان سے بگڑ گئے۔ اتنی سی نہیں کہ تحریکِ انصاف کے کارکنوں نے ان کے خلاف مہم برپا کر دی ۔ اس کے مضمرات ہیں اور ایسے کہ اندمال نہ ہوا، تومدتوں باقی رہیں گے ۔ تلوار کا زخم بھر جاتاہے ، زبان کا نہیں ۔ 
سب سے بڑا مسئلہ کیا یہ ہے کہ عمران خان چارٹرڈ طیارے پر عمرہ کرنے گئے ۔معاملے کا دوسرا پہلو بھی مگر اسی انہماک کا مستحق ہے ۔ یہ اخبار نویس نواز شریف اور آصف علی زرداری کے خلاف برسوں خم ٹھونک کر کھڑے رہے ،تو عمران خان پر وہ کیوں تنقید نہیں کر سکتے ۔ اس الزام کا جواز کیا ہے کہ انہوں نے فلاں اور فلاں سے پیسے لیے ۔فلاں سے گٹھ جوڑ کر لیا ہے۔ ایک دلیل بھی اب تک کسی نے دی نہیں ۔ برائے نام شواہد بھی کسی نے مہیا نہیں کیے ۔ فرض کیجیے ، معاملہ کسی عدالت یا قابلِ قبول ثالث کے پاس پہنچے تو پی ٹی آئی کے کارکن کیا ثبوت پیش کریں گے ۔ 
اشتعال ایک خوفناک چیز ہے ۔ جیسے ہی غالب آتاہے ، عقل رخصت ہوتی ہے ،سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب ۔ صرف انتقام کا جذبہ باقی رہ جاتاہے ۔۔۔اور یہ وہ چیز ہے ، جو بالآخر خود انتقام کے آرزومند کی تباہی کا باعث بنتی ہے ۔ ایٹمی پروگرام نہیں ، امریکی سازش نہیں بلکہ بھٹو اپنے مخالفین کی پیہم تذلیل کے سبب تختہ ٔ دار تک پہنچے۔سعودی عرب کے پرنس محمد بن سلیمان کا کیا ہوا؟ 
نون لیگ اور تحریکِ انصاف کی طرف سے کردار کشی کی مدتوں سے جاری جنگ سے دونوںکو کیا حاصل ہوا ؟ ان کا تاثر خراب ہوا یا بہتر ؟ چند روز قبل ایک چھوٹا سا پیغام سوشل میڈیا پہ جاری کیاتھا۔ کردار کشی کی جنگوں کے لیے رزم گاہ میں اترنے والے دونوں لشکر ہار جایا کرتے ہیں ۔ کبھی کسی کو فتح حاصل نہیں ہوتی۔
لاہور سے شائع ہونے والا ترقی پسندوں کا ایک جریدہ دس پندرہ برس سے ناچیز کو چارج شیٹ کر رہا ہے۔ بنیادی اعتراض یہ ہے کہ دوسروں کی طرح زمینی حقائق پہ مکمل انحصار کی بجائے ، یہ ناچیز احادیث اور آیات کا حوالہ کیوں دیتاہے۔ رسولِ اکرمؐ کے ارشادات، حقائق اور الجھنوں کو سمجھنے میں مددگار ہیں یا نہیں ؟ کیا ان کی روشنی میں پیچیدہ مسائل کا ادراک کرنے کی کوشش کرنی چاہیے یا نہیں ؟ عجیب لوگ ہیں، شیکسپیئر کا جملہ اس طرح نقل کرتے ہیں ، گویا قرآنِ کریم کی آیت ہو ، ایک مطلق سچائی ۔ قرآنِ کریم اور احادیث ِ رسولؐ کسی اہمیت کی حامل نہیں ؟ یہی وہ سطحی دانش ہے ، عمر بھر اقبالؔ جس کا ماتم کرتے رہے ۔ 
صبحِ ازل مجھ سے کہا جبرئیل نے 
جو عقل کا غلام ہو ، وہ دل نہ کر قبول
نسیم بیگ مرحوم کی قبر کو اللہ نور سے بھر دے ،ایک عجیب عالم میں وہ کہا کرتے : تجزیہ کرنے والے لیڈر اور دانشور باقی تو ہر چیز کو ملحوظ رکھتے ہیں ، بس یہی بھول جاتے ہیں کہ اس دنیا کا کوئی خالق بھی ہے ۔ اس کے کچھ قوانین بھی ہیں ، جو اس کائنات میں کارفرما ہیں ۔ کارفررما ہی نہیں ، دراصل یہی وہ قوانین ہیں ، کائناتِ ارضی پہ جن کی حکمرانی ہے ۔ حکمرانی بھی ایسی کہ جس میں کوئی استثنیٰ نہیں ۔ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی ۔ساری دانش کی تمام تر بنیاد یہ ہے کہ ان قوانین اور اصولوں کو سمجھنے کی کوشش کی جائے، جزئیات تک سمجھنے کی کوشش کی جائے ۔یہی علم ہے ، بس یہی علم۔ 
عرب بہت جذباتی لوگ تھے۔ سرکشی میں الف ہو جانے والے گھوڑوں کی طرح تند و تیز اور انا پرست ۔ صدیوں سے ان کے اجداد خود پسندی کے خوگر تھے ۔ عہد ِ جاہلیت کی عرب شاعری ۔۔۔بعض اعتبار سے جو تاریخ کی بہترین شاعری ہے ۔۔۔دو تین چیزوں کے گرد گھومتی ہے ؛ خود ستائی ، خوئے انتقام ، حسن کے مقابل شاعر کی شکست ۔ ۔۔اور ہاں ، حسن ِ بیاں، حسن ِ بیاں۔ 
رحمۃ اللعالمینؐ کی موجودگی میں دو آدمی باہم الجھ پڑے۔ کچھ فاصلے سے عالی مرتبتؐ ملاحظہ فرما رہے تھے۔اس مفہوم کا جملہ ارشاد کیا : ایک ایسا کلمہ مجھے معلوم ہے کہ اگر وہ پڑھ لیں، تو پرُسکون ہو جائیں ۔ سننے والے نے سنا تو بھاگتا ہوا گیا اور فریقین میں سے ایک سے یہ بات کہہ دی ۔ برہمی سے وہ بولا : کیا میں پاگل ہوں ؟
فریقین اشتعال میں ہیں ۔ پی ٹی آئی والوں کے سینکڑوں پیغامات ملے ہیں ،زیادہ تر تین نکات پر مشتمل؛ اوّل یہ کہ خاکسار کو ان کی مذمت کرنی چاہیے ۔ ثانیاً وہ خرید لیے گئے ۔ ثالثا ً ہم لوگ انہیں تباہ کر کے رکھ دیں گے ۔ ان کی مذمت کیوں کروں ؟ کم یا زیادہ دونوں ہی کا طرزِ عمل جب غلط ہے تو کسی ایک فریق کی حمایت کیوں کی جائے۔ میرا فہم سطحی ہو سکتا ہے ۔ خطا کار ہو ں، مگر الحمد للہ مگر مسلمان۔ یہ تہیہ کرنے والوں میں سے نہیں کہ ہر حال میں اپنے پسندیدہ گروہ کی حمایت کروں ۔ غلطیاں بے شمار کیں ۔۔۔اور ان پہ میں شرمندہ ہوں ۔ خدا کی مگر پناہ مانگتا ہوں کہ اصول کا علم ہونے کے باوجود، ڈھٹائی سے اس کی خلاف ورزی کروں ۔ 
حکم یہ ہے : وتعاونوا علی البر و التقوی ولا تعاونو اعلی الاثم و العدوان ۔ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں تعاون کیا کرو ، گناہ اور زیادتی میں نہیں ۔پی ٹی آئی کے کارکن جب یہ کہتے ہیں کہ وہ اخبار نویسوں کو دفن کر دیں گے، تو کیا یہ جہاد ہے کہ ان کی مدد کی جائے ۔ نذر گوندل ، ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اورراجہ ریاض کی پارٹی کیا سلطان محمد فاتح کی جماعت ہے ؟ دعویٰ باطل ہوتاہے اور اس کا مرتکب جہالت اور تکبر کا شکار ۔ اخبار نویس پی ٹی آئی کو تباہ کر سکتے ہیں اور نہ پی ٹی آئی کے کارکن اخبار نویسوں کو ۔ ہر آدم زاد کی تقدیر آدم کو پیدا کرنے ، اسے خلافت عطا کرنے اور پھر آزمائش کے لیے اس کرّہ ٔ خاک پہ بھیجنے والے پروردگار کے ہاتھ میں ہے ۔ کہکشائیں اور شگوفے کھلانے والے مالک کے ہاتھ میں ۔ تنگدستی و کشادگی ، اقتدار اورمحرومی ،عزت اور ذلت ، زندگی اور موت بندوں کے نہیں ، عرشِ بریں اور کرسی والے کی قدرت میں ہے ۔ کوئی کسی کو بنا سکتاہے ، نہ بگاڑ سکتاہے ۔ کوئی کسی کو کچھ دے سکتاہے ، نہ چھین سکتاہے ۔ 1995ء سے 2012ء کے موسمِ خزاں تک ، 17برس تک یہ میڈیا عمران خان کی سیاست سے بیزار رہا تو کیا بگاڑا ؟ شریف خاندان نے ہر طرح کی سازش کی ، تمام حربے آزمائے تو کیا ہوا؟اب بھی میڈیا کپتان کا کچھ نہیں کر سکتا ،بھلا نہ برا ۔ رہے اخبار نویس تو ان پر عائد کیے جانے والے الزامات یکسر غلط ہیں ۔ اخبارنویس خود پسندی کا شکار ہیں، جذبات کے غلبے کا ۔ بکائو مال وہ ہرگز نہیں ۔ پھر ان کے لیے یہ بہت سہل ہے کہ اگلے چند دنوں میں دو تین پروگراموں سے خود کو غیر جانبدار ثابت کر دیں ۔ اخبار نویس کے لیے اپنی پوزیشن تبدیل کرنا بہت آسان ہوتاہے ۔ ایک بار پھر یاددہانی کہ تحریکِ انصاف میں تنظیم کے فقدان اور جذباتیت کے فروغ نے ہمیشہ اسے نقصان پہنچایا ۔ آئندہ بھی پہنچتا رہے گا ۔بدترین سالار اور بدترین لشکر وہ ہوتے ہیں، جو مستقل طور پر نئے محاذ کھولتے رہیں ۔ دونوںشرمند ہ ہوں گے ۔ بالآخر دونوں مصالحت کریں گے ۔ عربوں کا محاورہ یہ ہے : دانا وہ ہے ، جو دوسروں سے سبق سیکھے ۔ دانش و دانائی کیا ، وہ آدمی عقلِ عام(Common Sense) سے بھی محروم ہے ، اپنی توانائی جو ضائع کرتا رہے ۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved