تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     15-06-2018

فضول محنت نہیں چلے گی

ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے اپنے ماحول میں بہت سے لوگ دن رات کام کرتے ہیں‘ مگر اُن کی زندگی میں کوئی قابلِ ذکر اور قابلِ قدر تبدیلی رونما نہیں ہوتی۔ ہر انسان کی بنیادی خواہش ہوتی ہے کہ اُسے زیادہ سے زیادہ خوش حالی نصیب ہو۔ بھرپور کامیابی کا حصول یقینی بنانے کے لیے وہ دن رات ایک کردیتا ہے‘ جسے اپنی صلاحیتوں کا اندازہ ہوچکا ہو‘ وہ انہیں بروئے کار لانے کے لیے کوشاں رہنا بھی فرض گردانتا ہے۔ ایسے میں ایک بنیادی سوال یہ ہے کہ غیر معمولی محنت کرنے پر بھی کچھ لوگ ناکامی کے دائرے ہی میں کیوں گھومتے رہتے ہیں۔ 
کیا کامیابی اور ناکامی کا تعلق‘ صلاحیت اور محنت سے قطعِ نظر‘ محض نصیب سے ہے؟ ہم اپنے ماحول کا بغور جائزہ لیں‘ تو اندازہ ہوتا ہے کہ بہت سے لوگ شبانہ روز محنت کرنے پر بھی مطلوبہ اور قابلِ قبول نتائج کا حصول یقینی بنانے میں ناکام رہتے ہیں۔ یہ کیفیت انہیں محنت کرنے سے بد دِل کردیتی ہے۔ ایسے میں یہ سوال بھی ذہن میں پنپتا ہے کہ کچھ لوگ بظاہر زیادہ محنت نہ کرنے پر بھی مطلوبہ نتائج کے حصول میں قابل ِقدر حد تک کامیاب کیوں رہتے ہیں۔
بات کچھ یوں ہے کہ محض محنت کرنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ ہم کوئی چیز یا خدمات خریدنے کے لیے کون سی کرنسی پیش کرتے ہیں؟ وہی جو بازار میں چل رہی ہو‘ جو کرنسی بازار میں قابلِ قبول نہ ہو وہ کسی بھی طور اہم ہوتی ہے نہ قابلِ اعتنائ‘ جو سِکّہ بازار میں چل رہا ہو ‘اُسی میں سودا کیا جاتا ہے۔ ہماری محنت بھی اُسی وقت قبول کی جاتی ہے‘ جب وہ کسی کام کی ہو۔ 
آپ سوچیں گے کیا محنت بھی ٹھکرائی جاسکتی ہے۔ جی ہاں! جو محنت کام کی نہ ہو اُسے ٹھکرایا ہی تو جائے گا۔ آپ کسی معاملے میں بہت محنت کریں ‘مگر کسی کو اُس محنت کی ضرورت نہ ہو تو؟ ایسے میں لوگ آپ کی بھرپور محنت پر صرف افسوس کا اظہار کرسکتے ہیں۔ اگر آپ پوری دیانت اور غیر جانب داری سے جائزہ لیں گے‘ تو اسی نتیجے پر پہنچیں گے کہ آپ کی غیر متعلقہ اور بے سمت محنت کو صِلے سے محروم رہنا ہی چاہیے..! 
کامیابی کے لیے باصلاحیت ہونے کے ساتھ ساتھ سکت کا حامل ہونا بھی شرط ہے۔ ساتھ ہی ساتھ محنت کا جذبہ بھی غیر معمولی حد تک پایا جانا چاہیے‘ مگر آپ ہی سوچیے، کیا اتنا کافی ہے؟ یقینا نہیں۔ صلاحیت، سکت اور لگن کا ہونا بظاہر بہت خوش کُن ہے‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ بھرپور کامیابی کے لیے اتنا کافی نہیں۔ اس کے لیے جامع منصوبہ بندی لازم ہے۔ جامع منصوبہ تیار کیے بغیر کام شروع کردینے سے محض خرابیاں جنم لیتی ہیں۔ بھرپور محنت کے لیے منصوبہ بھی جامع اور بے داغ ہونا چاہیے۔ 
محنت کے معاملے میں یہ اصول ذہن نشین رہنا چاہیے کہ یہ ہدف سے مطابقت رکھتی ہو تو سود مند ثابت ہوتی ہے ‘ورنہ وقت اور محنت دونوں ہی رائیگاں جاتے ہیں۔ دنیا بھر میں کروڑوں افراد آگے بڑھنے کے لیے زندگی بھر ان تھک محنت کرتے ہیں‘ مگر سوچے سمجھے بغیر۔ تمام معاملات کو سمجھے بغیر، اندھا دھند محنت کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ آپ کی محنت ہدف کے مطابق ہے یا نہیں۔ محنت اگر ہدف سے مطابقت نہ رکھتی ہو تو کچھ نہیں دیتی۔ مثلاً ؛اگر کوئی شخص بین الاقوامی تعلقات میں ایم اے کر رہا ہے‘ تو اُسے متعلقہ مضامین ہی کی تیاری کرنا ہوگی۔ بین الاقوامی تعلقات سے مطابقت رکھنے والے مضامین میں سیاسیات نمایاں ہے۔ اب اگر کوئی شخص سیاسیات کے مضامین کا خوب مطالعہ کرے تو پرچوں میں کیا لکھے گا؟ ظاہر ہے‘ وہی کچھ جو اُس نے پڑھا ہوگا۔ سیاسیات کے مضامین خاصے ملتے جلتے ہوتے ہیں‘ مگر وہ بین الاقوامی تعلقات میں ایم اے کرنے والے کے کام نہیں آسکتے۔ اُسے تو اپنے پرچوں میں وہی کچھ لکھنا ہوگا‘ جو بین الاقوامی تعلقات میں ایم اے کا نصاب تیار کرنے والوں نے تجویز اور متعین کیا ہوگا۔ اُس سے ہٹ کر بہت اچھا لکھنے کی بھی کچھ اہمیت نہیں۔ 
کسی بھی ادارے کو ایسے باصلاحیت اور محنت پسند افراد کی ضرورت ہوتی ہے‘ جو دیا گیا کام کریں۔ کوئی اپنی مرضی سے زیادہ محنت کرے‘ مگر محنت غیر متعلق ہو تو سمجھ لیجیے سب کچھ اکارت گیا۔ سوال یہ نہیں کہ آپ کیا جانتے ہیں اور کیا کرسکتے ہیں ‘بلکہ یہ ہے کہ آپ کو جو کام سونپا جاتا ہے‘ اُسے آپ بھرپور دل جمعی کے ساتھ‘ محنت سے کرتے ہیں یا نہیں۔ کوئی بھی شخص یا ادارہ جب آپ کی خدمات حاصل کرتا ہے ‘تو دراصل وہ اپنا کام کرانا چاہتا ہے۔ اگر آپ اُس کا کام اچھی طرح کرسکتے ہیں ‘تو ٹھیک ورنہ کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔ 
یہ بات ذہن نشین رہے کہ بہت سے لوگ انتہائی باصلاحیت ہوتے ہیں‘ اُن میں سکت بھی بہت ہوتی ہے اور کام کرنے کی لگن بھی‘ مگر منصوبہ بندی کے مرحلے میں وہ مار کھا جاتے ہیں۔ جب وہ محنت کرنے پر آتے ہیں‘ تو اندھا دھند شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ بہت بڑی خرابی ہے۔ کسی بھی حوالے سے غیر معمولی محنت کا آغاز کرنے سے قبل پورا منصوبہ ذہن میں ہونا چاہیے۔ متعلقہ فرد کو معلوم کرلینا چاہیے کہ محنت کس حوالے سے کی جانی ہے‘ کیونکہ سوچے سمجھے بغیر کی جانے والی محنت وقت اور وسائل کے ضیاع کا بھی سبب بنتی ہے۔ سب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ جب کسی کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُس کی محنت کسی کام کی نہ تھی‘ تو وہ بد دِل اور بدگمان ہوکر آئندہ زیادہ محنت کرنے سے گریز کرتا ہے۔ اس نہج تک پہنچنے سے بچنے کے لیے لازم ہے کہ انسان پوری ذہنی تیاری کے ساتھ‘ منصوبے کے تحت محنت کرے۔ آنکھیں بند کرکے دوڑنے سے کچھ نہیں ہوتا‘ آپ کو دوڑ میں جیتنے کے لیے دوڑ میں حصہ لینا پڑے گا۔ ہوسکتا ہے ‘جنگل میں کوئی گھوڑا ریس کے گھوڑوں سے دگنی رفتار سے دوڑتا ہو‘ مگر اس غیر معمولی رفتار سے دوڑنے پر بھی اُسے فاتح قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اہمیت اس بات کی ہے کہ جنگل کے گھوڑے کو شہر لاکر ریس میں شریک کیا جائے۔ حریفوں کے مقابل دوڑنے سے اُسے اندازہ ہوگا کہ مقابلہ کس چیز کو کہتے ہیں۔ محنت متعلقہ مقام پر اور طے شدہ اصولوں کے تحت ہو تب ہی قبول کی جاتی ہے اور بار آور ثابت ہوتی ہے۔ 
اگر آپ نے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا ہے‘ تو بھرپور کامیابی کے لیے محنت ناگزیر ہے ‘مگر اس سے پہلے ایک مرحلہ اور ہے۔ وہ ہے منصوبہ بندی کا۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے محنت کتنی کرنی ہے اور اُس کا ہدف کیا ہونا چاہیے۔ سوچے سمجھے بغیر محنت کیجیے گا‘ تو خود کو ایک دائرے ہی میں گھومتا ہوا پائیے گا۔ کامیابی اُسی وقت ملتی ہے جب تمام معاملات میں مطابقت پائی جاتی ہو۔ مطابقت کے بغیر کی جانے والی محنت وقت‘ صلاحیت اور وسائل کا ضیاع ہے اور کچھ نہیں۔

٭٭٭

 

 

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved