یہ دو محبت کرنے والوں کی کہانی ہے ۔دو مسلمانوں کی کہانی ہے ۔ ہمارے اپنے معاشرے کی کہانی ہے ۔ دو بچّے ، ایک لڑکا اور ایک لڑکی‘جن کی عمروں میں صرف ڈیڑھ مہینے کا فرق تھا۔ آمنے سامنے رہنے والے دو ہمسایے ۔ دونوں حسین ‘شرارتی ‘ دو best friends۔ ایک ساتھ بڑے ہوئے ‘ دونوں طرف کے والدین یہی سمجھتے کہ ایک نہیں ‘ دونوں بچّے انہی کے گھر پیدا ہوئے ہیں ۔یوں انہیں دو دو ماں باپ‘ دو نانیاں اور دو نانے‘ دو دادیاں اور دودادے میسر آئے ۔
وہ صرف لڑکا لڑکی نہیں تھے ۔ بچپن کے دو best friendsجن کی جنس مختلف ہونے کی وجہ سے انہیں لنگوٹیا نہیں کہا جا سکتا۔ دو ہم جماعت بھی ۔ جن کی ہر خوشی اور ہر دکھ سانجھا تھا ‘ پھر وہ بڑے ہونے لگتے ہیں ۔ ان میں فاصلہ آنے لگتاہے ۔ کچھ سالوں تک یہ فاصلہ برقرار رہتاہے ‘ پھر دونوں طرف کے والدین انہیں ایک دوسرے سے منسوب کر دیتے ہیں ۔ زندگی پھر روشن ہو جاتی ہے ۔ بظاہر کوئی ظالم سماج نہیں ‘ کوئی کیدو نہیں ‘ پھر اس کے بعد وہ اپنا کیدو ‘ اپنا ظالم سماج خود تخلیق کرتے ہیں ۔وہ دو متحارب سیاسی جماعتوں میں چلے جاتے ہیں ‘ جن کے لیڈروں میں اقتدار کی جنگ لڑی جا رہی تھی ۔
تعصبات پیدا ہو جاتے ہیں ۔ دونوں ایک دوسرے کو قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس کا لیڈر سچا اور کھرا ہے اور مخالف مالی اور اخلاقی طور پر کرپٹ ۔ دونوں کو یقین ہوتاہے کہ وہ دوسرے کو راضی کر لیں گے ۔ دونوں وطن سے محبت کرتے تھے ۔ دونوں اپنی سرزمین کو سرسبز و شاداب دیکھنا چاہتے تھے۔ دونوں کو یقین تھا کہ اپنی محبت کے بل پر اپنے ہونے والے شریکِ حیات کا ذہن وہ بدل دیں گے ۔ دونوں ناکام رہے ۔
دونوں اپنے اپنے لیڈروں سے ٹوٹ کر محبت کرتے تھے ۔دونوں طرف کے والدین ان کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہیں کہ لیڈر لوگوں کی اس جنگ میں جل کے بھسم نہ ہوجانا ۔بڑے لوگوں کا کیا ہے ‘ کل کو ہاتھ ملا لیں گے ۔دونوں اپنی اپنی جگہ بلا کے ضدی تھے ۔دونوں اطراف انا کے بت پیدا ہو چکے تھے اور یہ بت ٹوٹ سکتے تھے ‘ جھک نہیں سکتے تھے ۔ دونوں ہمیشہ گفتگو کا آغاز اچھے انداز میں کرتے ۔یہ سوچ کر جاتے کہ آج کوئی سیاسی بحث نہیں کرنی‘ پھرجب اخبار یا ٹی وی میں ملک میں جاری سیاسی لڑائی کے بارے میں کوئی خبر نظر سے گزرتی‘ تو ان میں سے ایک دوسرے کو طنزیہ جملہ کہہ دیتا ‘ پھر دوسری طرف سے اُس کے لیڈر پر طنزیہ جواب ملتا ۔ یہ اُس کے اخلاقی سکینڈلز پر ایک جملہ کہہ دیتا ۔ وہ بپھر کر اس کی بیرونِ ملک جائیداد کی تصویر دکھاتی ۔
انا کی یہ جنگ اس قدر بڑھی کہ ان کا رشتہ ٹوٹ گیا ۔ ایک نے دوسری کو نیچا دکھانے کے لیے اُس سے زیادہ حسین لڑکی سے جلد بازی میں شادی کی ‘ جو کسی حد تک نفسیاتی مریضہ تھی ۔ وہ کہاں پیچھے رہتی ۔ اس نے اپنے لیڈر کے ہمنوا ایک مالی طور پر زیادہ مستحکم لڑکے سے بیاہ رچا لیا ‘ بعد میں پتہ چلا کہ وہ نشے کا عادی تھا اور مزاجاً ایک گھٹیا شخص تھا ۔
شاید آپ کو یہ واقعات آج کے لگ رہے ہوں ۔ اس لیے کہ آج بھی کم و بیش یہی سیاسی صورتِ حال ہے ۔سیاسی پولرائزیشن ہو چکی ہے ۔ مخالف قطبین وجود میں آچکے ‘ جو ا یک دوسرے کو فنا کر دینے کے درپے ہیں ۔یہ کہانی تو کئی دہائیاں پہلے کی ہے ۔ لڑکا اور لڑکی دونوں کی ازدواجی زندگیاں شدید مسائل کا شکار تھیں ۔ دونوں ایک دوسرے سے اس بات کو چھپا رہے تھے ‘ پھر بھی کہیں نہ کہیں سے اڑتی اڑتی خبر سننے کو مل ہی جاتی ۔کئی دفعہ پرانی محبت جوش مارتی ۔ مثلاً: جب لڑکے کو معلوم ہوتا ہے کہ لڑکی کے شوہر نے اسے بری طرح پیٹا ہے ۔ مثلاً :اس وقت جب لڑکی کو معلوم ہوتاہے کہ لڑکے کی بیوی نے زہر پی کے خود کشی کی کوشش کی ۔ بہرحال وہ دونوں اپنی ضد کے پکے تھے۔
اس دوران اور بالخصوص 80ء کی دہائی کے اختتام اور 90ء کے عشرے میں سیاست نے کئی کروٹیں بدلیں ۔ کبھی ایک کی حکومت آئی کبھی دوسرے کی ۔سیاسی اتحاد بنتے اور ٹوٹتے رہے ۔ دونوں لیڈر ایک دوسرے کی گردن دبانے کی کوشش کرتے رہے ۔ ایک دوسرے کے خلاف بھرپور مقدمے بازی کرتے رہے ۔
اس کہانی کا ڈراپ سین تب ہوتاہے ‘ جب 7برس بعد ایک سیاسی لیڈر خود کش حملے میں جاں بحق ہوتی ہے‘ تو لڑکا (جو کہ اس وقت 75برس کا ہو چکا تھا ) اس غم کی تاب نہ لاتے ہوئے مر جاتا ہے ۔ چند ماہ بعداس کا وارث اور گدی نشین جب مخالف لیڈر سے گلے ملتاہے اور جب دونوں ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر پریس کانفرنس کرتے ہیں ۔ جب پورا ملک ان کی سیاسی مفاہمت کی خوشی میں ناچ رہا ہوتاہے ‘تو وہ لڑکی (76سالہ بڑھیا ) اس غم کی تاب نہ لاتے ہوئے مر جاتی ہے ۔ مرنے سے پہلے وہ سوچتی ہے کہ اپنی جس سیاسی دشمنی کی خاطر اس نے اپنی محبت قربان کی تھی ‘ کاش اسے معلوم ہوتا کہ اس کا انجام یہ نکلنا ہے تو وہ کبھی اس حد تک آگے نہ جاتی ۔ وہ سوچتی ہے کہ اگرہم دونوں کی شادی ہو گئی ہوتی‘ تو آج شاید ایک محبت کرنے والی اولاد اور پوتے پوتیاں ‘ نواسے نواسیاں موت کے اس وقت میرے اردگرد ہوتے ۔ (اس کا شوہر نشہ کرتے کرتے جوانی میں ہی مر گیا تھا )۔
ملک بھر میں دوستیاں ختم ہو رہی ہیں ۔ ایک دوسرے پر سیاسی طنز کیے جا رہے ہیں ۔ ایک دوسرے کی بھد اڑائی جارہی ہے ۔ دشمنیاں حد سے بڑھ چکی ہیں ؛ حتیٰ کہ ایسے کیسز میں دیکھنے میں آئے ہیں ‘ جہاں میاں بیوی علیحدگی اختیار کر لیتے ہیں ۔ سالے بہنوئی کی لڑائی ہو جاتی ہے اور حتیٰ کہ باپ اور بیٹا ایک دوسرے کا منہ دیکھنے کے روادار نہیں ۔ وہ بیٹا جو اچھی طرح جانتاہے کہ میرا باپ رزقِ حلال کماتا ہے ۔ اسے اس کی سیاسی پارٹی کی طرف سے اپنی حمایت کے بدلے میں کچھ بھی نہیں ملتا ۔ وہ صرف اور صرف نظریاتی طور پر اس کی حمایت کرتاہے ۔باپ بھی اچھی طرح جانتاہے کہ میرا بیٹا تو صرف اپنے دلی جذبات کا اظہار کرتاہے ۔ وہ کسی لالچ یا منصوبے کے تحت میرے لیڈر کی مخالفت نہیں کر رہا‘ پھر بھی سیاسی بحث شروع ہوتی ہے اور مخلوق ایک دوسرے کو گریبان سے پکڑ لیتی ہے ؛حتیٰ کہ وہ لوگ بھی ‘ جن کے پاس اگلے وقت کے لیے آٹا تک موجود نہیں ۔
دونوں اطراف کی ضد اور دبائو ہے کہ دوسرے کو وہ جھکا دیں گے ۔ رزقِ حلال کمانے والے ‘ نیک طینت لوگ بھی ایک دوسرے کی تذلیل کر رہے ہیں ۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔'' قومِ یوتھ ‘‘اور ''آلِ پٹوار‘‘جیسی اصطلاحات منظر عام پر آئی ہیں ۔ ایرڈ ایگریکلچر یونیورسٹی میں شعبۂ معیشت کے سربراہ میرے برادرِ بزرگ عبد الصبور صاحب کے الفاظ میں ؛ ہمیں ایک دوسرے کی تضحیک کے اس جنون سے باہر نکلنا ہوگا ۔ ایک دوسرے کی بے عزتی کرنے والے رشتے گنوا رہے ہیں ۔ یقینا دونوں یہ چاہتے ہیں کہ ملک خوشحالی اور استحکام کی طرف بڑھے‘ لیکن بندوق کی نوک پر کسی کے سیاسی نظریات بدلے نہیں جا سکتے ۔ اس سے کہیں بہتر ہے کہ خاموشی اختیار کی جائے اور پولنگ ڈے پراپنی سیاسی جماعت کو ووٹ دے دیا جائے ۔ یہ خاموشی قیمتی ہے ۔ یہ رشتوں کو ٹوٹنے سے بچا سکتی ہے !