امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے سپریم لیڈر 'کِم جونگ اُن‘ کی سنگاپور میں ہونے والی ملاقات کا سسپنس اور واویلا زیادہ تھا لیکن یہ 'اینٹی کلائمیکس‘ ہی ثابت ہوئی۔ ایک عام سا معاہدہ ہوا جو بے معنی ہے اور اس میں کوئی غیر معمولی موڑ یا فیصلہ بھی سامنے نہیں آیا۔ اس ساری ملاقات میں 'شو بازی‘ زیادہ تھی اور آج کے عہد کے میڈیا اور مروجہ دانش کا جو گرا ہوا معیار ہے اسی حوالے سے ملاقات کے پروٹوکول اور کارروائیوں کو سنسنی خیز انداز سے ترتیب دیا گیا تھا۔ 'باڈی لینگویج‘، چال ڈھال، چہروں کے تاثرات اور نجی حرکات و سکنات کو ہی زیادہ کوریج دی گئی۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ ساری ملاقات اور معاہدے کے تمام پہلو پہلے ہی پس پردہ سفارتی مذاکرات کے ذریعے دونوں حکومتوں میں طے پا گئے تھے۔
مغربی کارپوریٹ میڈیا اس پیش رفت کی وجہ سے ٹرمپ پر خاصا برہم ہے۔ یاد رہے کہ اِس سے قبل جی سیون (دنیا کی سات بڑی معاشی طاقتوں کی تنظیم) کے سمٹ میں ٹرمپ اور دوسرے سربراہانِ مملکت کے درمیان تجارتی پالیسیوں کے اختلافات پر شدید تنائو دیکھنے میں آیا تھا، تلخ بیانات کا تبادلہ ہوا تھا اور ٹرمپ قبل از وقت اجلاس چھوڑ کے چلا گیا تھا۔ اس حوالے سے اُس پر یہ تنقید بھی ہو رہی ہے کہ اپنے 'اتحادیوں‘ کی بے عزتی کرنے کے بعد وہ شمالی کوریا جیسے روایتی دشمنوں سے یارانے بڑھاتا پھر رہا ہے۔ مغربی میڈیا پر خوب شور مچایا جا رہا ہے کہ امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان ایک سفارتی دنگل کی حیثیت اختیار کر جانے والی اِس ملاقات میں کِم نے ٹرمپ کو چاروں شانے چِت کر دیا ہے۔ یوں ٹرمپ سے نالاں مغربی حکومتیں اور ان کا میڈیا‘ دونوں اپنی بھڑاس نکال رہے ہیں۔
27 اپریل 2018ء کو شمالی اور جنوبی کوریا کے لیڈروں کی ملاقات میں جزیرہ نما کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے اور قیام امن کی بات کی گئی تھی۔ کِم جونگ اُن اور جنوبی کوریا کے نو منتخب صدر مون جائے اِن کے درمیان اس ملاقات میں جو 'خیر سگالی‘ کا جذبہ چھ دہائیوں بعد ابھرا تھا یا ابھارا گیا تھا اس کے بعد یہ طے ہوا تھا کہ اب ٹرمپ اور کِم کے درمیان مفصل اور حتمی معاہدے کے ذریعے اس خطے سے کشیدگی کا خاتمہ کیا جائے گا۔ لیکن ٹرمپ تو پھر ٹرمپ ہے۔ قلابازیاں لگائے بغیر وہ کوئی کام کرتا ہی نہیں۔ اِس ملاقات کے لئے 12 جون کی تاریخ طے ہوئی تھی۔ اس سے امن کی بہت امیدیں پیدا ہوئیں۔ حالانکہ اس اعلان سے چند ہفتے پیشتر ہی ٹرمپ نے کِم کو 'راکٹ مین‘ اور 'تاریک جوکر‘ کے خطابات سے نوازا تھا جبکہ کِم نے ٹرمپ کو ذہنی مریض اور 'ہلڑ باز‘ قرار دیا تھا۔ ٹرمپ اور کِم دونوں ہی بڑھک بازی سے باز نہیں رہ سکتے۔ پھر ٹرمپ کے نائب مائیک پینس (جو ایک رجعتی صیہونی ہے) نے جب کِم پر تنقید کی تو اُس نے مائیک کو 'بونا‘ اور 'روبوٹ‘ قرار دے دیا۔ اس سے ٹرمپ آگ بگولا ہو گیا اور متوقع سربراہی ملاقات منسوخ یا معطل کرنے کے مختلف اعلانات وائٹ ہائوس سے جاری ہونے لگے۔ پھر ٹرمپ کو خیال آیا کہ اس پر لگائے جانے والے 'جارحیت پسندی‘ کے الزمات اس ملاقات سے زائل ہو سکتے ہیں تو اُس نے ارادہ بدل دیا اور 12 جون کو ہی ملاقات پر راضی ہو گیا، جس میں شمالی کوریا نے آخر کار اپنے جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کا کچھ اشارہ دیا ہے ۔ لیکن اس کے بارے میں نہ کوئی حتمی تاریخ دی گئی ہے اور نہ ہی اس نے مغربی انسپکٹروں کو اس عمل کی جانچ پڑتال کی اجازت دی ہے۔ نہ ہی یہ تسلیم کیا کہ اس پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں وہ کہیں بھی جواب دہ ہو گا۔ دوسری جانب ٹرمپ نے کِم، جس کو چند ہفتے پہلے تک وہ اس کرہ ارض کا سب سے بڑا شیطان اور بدترین ڈکٹیٹر قرار دیتا تھا، کو شمالی کوریا کا 'دلیر لیڈر‘ قرار دے دیا ہے جس سے وہاں کے عوام بہت محبت کرتے ہیں۔ جب ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ کِم سے ملاقات میں 'انسانی حقوق ‘ کے معاملے پر کوئی بات ہوئی تو اُس کا جواب یہی تھا کہ ''ہاںاس کا تھوڑا سا ذکر ہوا تھا!‘‘
اِن سامراجیوں کا طریقۂ واردات یہی رہا ہے کہ قابو نہ آنے والے ڈکٹیٹروں کو اتنا بڑا شیطان بنا کر مبالغہ آرائی سے پیش کرتے ہیں کہ مغربی عوام شکر کرنے لگیں کہ چلو ہمارا استحصال ہو رہا ہے لیکن کچھ جمہوری حقوق تو حاصل ہیں۔ پھر کبھی انہی آمروں سے معاملات بھی طے پا جاتے ہیں۔ لیکن فرط جذبات میں ٹرمپ کچھ زیادہ ہی آگے نکل گیا ہے۔ اسی معاہدے میں جہاں شمالی کوریا کو تسلیم کیا گیا اور اس کی تقریباً تمام شرائط مان لی گئی ہیں‘ وہاں پریس کانفرنس میں ٹرمپ نے یہ تک کہہ دیا کہ امریکی اور جنوبی کوریا کی باہمی فوجی مشقیں بھی بند کر دی جائیں گی کیونکہ ایک طرف تو ان پر اخراجات بہت ہوتے ہیں اور دوسری جانب یہ شمالی کوریا کے لئے اشتعال انگیزی کا باعث بھی بنتی ہیں۔ یہ ایسی رعایت تھی جس سے مغرب کے عسکری اور سفارتی ماہرین زیادہ نالاں ہوئے ہیں۔ لیکن ٹرمپ نے تو یہ تک بھی کہہ دیا کہ ہو سکتا ہے جزیرہ نما کوریا میں موجود 28000 امریکی فوجیوں کو بھی خطے سے واپس بلا لیا جائے۔ ایک طرف داخلی معاشی بحران کے پیش نظر ٹرمپ امریکی ریاست کے جنگی اور فلاحی اخراجات میں کٹوتیوں کی پالیسی پر گامزن ہے تو دوسری جانب انسانی بربادی کے آلات بنانے والے امریکا کے ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کی منافع خوری برقرار رکھنے کے لئے دنیا کے مختلف خطوں میں جنگی حالات اور تنائو پیدا کرنے کی پالیسیاں بھی جاری ہیں۔ اس کی دو اہم مثالیں ہمارا جنوبی ایشیا اور مشرقِ وسطیٰ ہیں۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ شمالی کوریا کے صدر کِم جونگ اُن کی دھمکیوں سے بھی ٹرمپ مرعوب دکھائی دیتا ہے۔ کیونکہ سوویت یونین کے سپریم لیڈر نکیٹا خروشچیف کے بعد شاید ہی کسی نے یہ دھمکی لگائی ہو کہ ہم امریکہ پر گرانے کے لئے ایٹمی میزائل تیار کر رہے ہیں اور گرائیں گے بھی! لیکن اگر ٹرمپ کو اس معاہدے میں ذلت اٹـھانی پڑی ہے تو کِم جونگ اُن کی آمریت کے لئے بھی خطرہ بڑھ رہا ہے‘ کیونکہ شمالی کوریا کی افسر شاہانہ آمریت ہمیشہ سے داخلی جبر کے لئے بیرونی دشمنی کا سہارا لیتی رہی ہے۔ اس لئے تنائو کا خاتمہ اور دور رس امن اُن کے بھی مفاد میں نہیں ہے۔ لیکن تمام تر داخلی جبر کے باوجود شمالی کوریا کی معیشت آج بھی ریاستی ملکیت اور کنٹرول میں ہے۔ دھمکیوں اور مذاکرات کے فریب کے ذریعے مغربی سامراجی اِسی معیشت کو سرمایہ دارانہ منافع خوری اور لوٹ مار کے لئے کھولنا چاہتے ہیں۔ لیکن اب اُن کے لئے ایک نیا مسئلہ بھی پیدا ہو گیا ہے کہ اگر کِم شمالی کوریا کی معیشت کو بیرونی سرمایہ کاری کے لئے کھولتا بھی ہے تو مغربی اجارہ داریوں سے پہلے چینی کمپنیاں ہلا بول دیں گی ۔ اس لئے اگر کوئی خاموشی سے مسکرا رہا ہے تو وہ چینی حکمران اشرافیہ ہے جن کو شمالی کوریا کی منڈی کا لالچ بھی ہے اور ٹرمپ کی تضحیک کی خوشی بھی ۔ لیکن مسئلہ یہ بھی ہے کہ کِم اس معاہدے سے کبھی بھی مکر سکتا ہے۔ یا پھر اس طرح سے عمل درآمد کرے گا کہ یہ سارا معاملہ سست روی سے چلتا ہی رہے گا۔
ٹرمپ کی یہ مسلسل قلابازیاں اس کی شخصیت سے زیادہ امریکی سامراج اور اس کے نظام کے زوال کی غمازی کرتی ہیں کہ اس جیسا شخص دنیا کی سب سے بڑی معاشی اور عسکری طاقت کا حکمران بن بیٹھا ہے۔ جب کوئی نظام تاریخی بحران کا شکار ہو جائے تو اس پر قائم ریاستوں کی عسکری قوت اور سفارتی مہارت بھی جواب دے جایا کرتی ہے۔