محترمہ کلثوم نواز‘ان دنوں لندن کے ایک ہسپتال میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ ہر نیک دل اور انسانیت دوست پاکستانی‘ کے دل میں گہرے غم کے جذبات ہیں اور ہر وہ شخص ‘جس کا تعلق پاکستانی عوام سے ہے‘ وہ شریف خاندان کے اس غم میں برابر شریک ہے ۔ جو کوئی بھی سیاست دان‘ کلثوم نواز کوزندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا دیکھ رہا ہو‘ وہ سیاست بازی کاسوچ بھی نہیں سکتا اور نہ حامیوں اور مخالفین کی صفوں میں تقسیم ہو سکتا ہے۔ ایسے حالات میں صرف ایک ہی مشترکہ غم ہوتا ہے‘ جس میں بلاامتیاز‘ پوری قوم جذبۂ انسانیت کے تحت شریک ہے۔ ان دنوں‘ صاف دل اور انسانی جذبات رکھنے والا ہر پاکستانی اسی کیفیت میں مبتلا دکھائی دیتا ہے‘ مگر ہمارے معاشرے میںایسے بھی سنگ دل لوگ موجود ہیں‘ جواس احساس سے عاری دکھائی دیتے ہیں۔میں18جون کی شام کو غم کی صورت ِحال میں دعاگو ہوں کہ اللہ تعالیٰ غمزدہ شریف خاندان کو صبر‘ ہمت اور حوصلہ دے۔ا پنے دل میں یہی دعا مانگ رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا‘انسانی دکھ درد میں شریک رہنے والی معزز بیگم کلثوم نواز کو سانسوں کا طویل تسلسل عطا فرمائے۔میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ ہر وہ انسان جو دوسروں کے لئے ہمدردی رکھتا ہو‘اس کے لئے یہی جذبات ہونے چاہئیں۔
ایسے ہی درد ناک دن تھے‘ جب میاں نوازشریف اپنی آزمائش کے دنوں میں بھی ساتھیوں کے لئے زندگی اور بخشش کی دعائیں نہ مانگ رہے ہوں۔ ان کا ایک سیاسی رفیق‘ جوہر موقع پر اپنے فائدوں اوردولت مندی میں اضافے کا خواہاں رہا‘ اس کا بھی تذکرہ کر لیتے ہیں۔یہ الفاظ میں اپنی طرف سے نہیں لکھ رہا‘ حضرت مولانا فضل الرحمان نے خود ارشاد فرمایا ہے کہ ''خود پر ہونے والی تنقید میں اپنی کمزوری تلاش کرتا ہوں‘‘۔غرض خود انہیں بھی احساس ہے کہ وہ حرص کو اپنی کمزوری سمجھتے ہیں۔مولانا نے فوج کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے ارشاد فرمایا ''فوج ایک ادارہ ہے‘ جو نہ صرف ناگزیر‘ بلکہ ریاست اور سرحدوں کا تحفظ کرتا ہے‘ لیکن جھگڑا اس وقت جنم لیتا ہے‘ جب فوج سیاست میں حصہ لے‘‘۔ مولانا ان دنوں نیب کی کارکردگی سے خوش دکھائی نہیں دے ر ہے۔ اسی لئے انہوں نے موقع پا کر یہ بیان داغا '' ہم نے قومی اسمبلی میں مطالبہ کیا کہ قومی احتساب بیورو(نیب) کوبتائے کہ کن لوگوں نے کتنی وصولیاں کی ہیں؟‘‘ جب تفصیلات فراہم کی گئیں ‘تو ہم دنگ رہ گئے کہ ''اسمبلی میں پیش کردہ نیب کے جواب میں سب سے زیادہ وصولیاں فوج کے شعبے سے ہوئیں۔ دوسرے نمبر پر بیوروکریٹس اور تیسرے نمبر پر سیاست دانوں کے نام آتے ہیں۔ سیاست دانوں کو ایسے بدنام کیا جاتا ہے‘جیسے پورے ملک کا پیسہ صرف سیاست دانوں نے کھایا ہے‘‘۔
مولانا صاحب نے جمہوریت کے بارے میں اپنی رائے ان الفاظ میں ظاہر کی ''میں کردار کی صداقت اور صفائی کا قائل ہوں۔ کچھ کمزوریاں ہمارے اندر بھی ہوتی ہیں‘ لیکن ایسی کمزوریاں دوسروں میں زیادہ ہیں۔ ملک کو صحیح سمت میں چلانا ہے ‘توا پنی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنا ہوں گی‘‘۔ مولانا ان دنوں کچھ زیادہ ہی خفا دکھائی دے رہے ہیں ۔ فرماتے ہیں '' دنیا میں جہاں جمہوریت ہے‘ وہاں آزادی صحافت ہے‘ تاہم میڈیا کی آزادی کا یہ مقصد نہیں کہ ہم مادر پدر آزادی چاہتے ہیں‘‘۔
مولانا سیاست میں بہت عرصہ پہلے سے‘ میاں نوازشریف کے قریبی ساتھی ہیں۔ سیاست میں یہ دونوں رہنما ایک ہی جیسے مقاصد اورپالیسیاں چاہتے تھے۔میں جب میاں نوازشریف کے خیالات‘ ان کی تقریروں میں شامل کیا کرتا تھا‘ تو اس کے بعد مکمل شدہ تقریر بیگم کلثوم کے پاس جایا کرتی۔ ان کی طرف سے جو تبدیلی یا اضافہ کیا جاتا‘ وہ خلق خدا کے مفاد میں ہوتا۔میرا ذہن قبول نہیں کر رہا کہ میں بیگم کلثوم نواز کے بارے میںیہ تصور کروں کہ وہ آخری سانس لے رہی ہیں۔میںکیوں نہ یہ دعا کروں کہ اللہ تعالیٰ ان کی ٹوٹتی ہوئی سانسوں کو مزید طویل عرصے کے لئے جوڑ دے۔بیگم کلثوم کی زندگی میں مزید اضافہ ہماری قوم کے لئے باعث برکت ہو۔