تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     19-06-2018

افغانستان میں قیام ِ امن کا مستقبل

علاقائی سلامتی کو جتنا خطرہ افغانستان کی طویل اور شدید جنگ سے ہے‘ اس کے بارے دو رائے نہیں ہو سکتیں۔ گزشتہ سترہ سال سے جاری اس تنازعہ نے افغانستان میں وسیع پیمانے پر تباہی اور بربادی کے علاوہ دہشت گردی‘ منشیات اور ہتھیاروں کی سمگلنگ کی صورت میں ایسے مسائل کو جنم دیا ہے‘ جو افغانستان کے اردگرد کے ممالک کی سلامتی کے لئے بھی سخت خطرہ بن چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ تقریباً نصف دہائی سے مختلف سطح پر اس جنگ کو ختم کرنے اور افغانستان میں امن کے قیام کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں‘ لیکن ان کوششوں کے نتیجے میں کوئی قابلِ ذکر پیش رفت حاصل نہیں ہو سکی۔
عید الفطر سے پہلے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان جنگ بندی پر اتفاق اور اس پر عمل درآمد سے افغانستان میں امن کے قیام کے امکانات کافی روشن ہو گئے تھے‘ مگر بد قسمتی سے افغان طالبان نے جنگ بندی میں توسیع نہیں کی اور ملک میں سرکاری فوجوں اور طالبان کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ دوبارہ شروع ہو چکا ہے۔ خدشہ ہے کہ افغانستان میں جہاں پہلے ہی وسیع پیمانے پر شہریوں کا جانی و مالی نقصان ہو چکا ہے‘ جنگ مزید شدت اختیار کر جائے گی۔ 
اس کا مطلب یہ ہے کہ افغانستان میں تباہی اور بربادی کا ایک نیا دور شروع ہو گا۔ تاہم باوجود اس کے صورتحال کو مزید خراب ہونے سے بچایا جا سکتا ہے؛بشرطیکہ اس جنگ میں شریک فریقین افغانستان کے اندر سے جنگ کے خلاف اور امن کے حق میں اٹھنے والی آوازوں پر کان دھریں اور بین الاقوامی برادری کی اس رائے کو اہمیت دیں کہ افغانستان کا مسئلہ طاقت کے استعمال کی بجائے مذاکرات کے ذریعے حل ہو سکتا ہے۔
یہاں اس کا ذکر دلچسپی سے خالی نہیں ہو گا کہ طالبان کی طرف سے اس سے قبل بھی عیدوں کے مواقع پر جنگ بندی پر عمل ہوتا رہا ہے‘ لیکن طالبان نے ماضی میں جنگ بندی یا سیز فائر کو کبھی کھلے عام تسلیم نہیں کیا۔ یہ پہلا موقعہ تھا کہ طالبان نے باقاعدہ عوامی سطح پر اس سیز فائر کا اعلان کیا اور یہ بھی کہا کہ وہ یہ اقدام افغان حکومت کے اعلان کے جواب میں کر رہے ہیں۔ دیگر الفاظ میں افغانستان کے عوام اس عید پر پہلی مرتبہ ایک سرکاری طور پر اعلان کردہ سیز فائر کے تجربے سے گزر ے ہیں۔ 
افغان حکومت نے 27 رمضان سے 5 شوال تک جنگی بندی کا اعلان کیا تھا‘ جبکہ افغان طالبان نے کہا کہ وہ صرف تین روز تک فائر بندی پر عمل کریں گے۔ اس عارضی فائر بندی سے افغانستان میں جنگ کے مستقل خاتمے کی امیدیں کیوں وابستہ کی گئیں؟ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ افغانستان کے اندر اور باہر دونوں طرف سے اس فائر بندی کو ایک اہم موقع قرار دے کر اس کی زبردست حمایت کی گئی اور تمام فریقین پر زور دیا گیا کہ نہ صرف اس میں توسیع کی جائے‘ بلکہ اس کا فائدہ اٹھا کر امن مذاکرات کا آغاز کیا جائے۔ طالبان کو اس پر راضی کرنے کیلئے افغان حکومت نے اعلان کیا کہ یہ فائر بندی غیر مشروط ہے اور اس کے دوران میں افغان افواج صرف القاعدہ اور داعش کے خلاف کارروائیاں کریں گی۔
''افغان امن کونسل‘‘ نے اپنے ایک بیان میں اس جنگ بندی کی حمایت کرتے ہوئے اپیل کی کہ افغان جنگ کو ختم کرنے اور ملک میں امن کے قیام کے لئے تمام فریقین مذاکرات کا آغاز کریں۔ پاکستان میں طالبان کے ایک سابق سفیر ملا ظریف نے تجویز پیش کی کہ اس عارضی جنگ بندی میں تین ماہ تک کی توسیع کی جائے‘ تا کہ فریقین کو مذاکرات میں شریک ہونے کے لیے تیاری کا موقع مل سکے۔ افغان حکومت کے علاوہ افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کی افواج کے کمانڈر جنرل جوزف نکلسن نے بھی جنگ بندی کی حمایت کی اور کہا کہ امریکی اور نیٹو افواج بھی اس پر عمل کریں گی۔ دوسری طرف امریکی محکمہ خارجہ نے بھی اس جنگ بندی کی حمایت کی۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے پاک آرمی کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ٹیلیفون پر رابطہ کر کے افغانستان میں قیام امن اور مصالحت کے عمل کو آگے بڑھانے کیلئے پاکستان کی طرف سے مدد اور تعاون کی خواہش کا اظہار کیا ۔
امریکی وزیر خارجہ کی ٹیلیفون کال کے بعد امریکی نائب صدر مائیک پنس نے بھی نگران وزیراعظم جسٹس (ر) ناصر الملک سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا ۔ انہیں نگران وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دی اور باہمی دلچسپی کے اہم مسائل پر بھی بات چیت ہوئی ‘جن میں یقینا افغانستان بھی شامل تھا۔ 
12 جون کو چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کا ایک روزہ دورہ افغانستان اور اس دورہ کے موقع پر افغان صدر کے ساتھ وفود کی سطح پر بات چیت اور افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ اور امریکی افواج کے کمانڈر جنرل نکلسن سے ملاقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان، افغانستان اور امریکہ اس عارضی جنگ بندی کو سنجیدگی سے لے رہے تھے اور اسے ایک مستقل امن کی شکل دینا چاہتے تھے اور اس سے فائدہ اٹھا کر افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانا چاہتے تھے۔ پاکستان پہلے ہی افغان مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے حق میں ہے۔ 
اس سال فروری میں جب افغان صدر اشرف غنی نے افغان طالبان کو غیر مشروط بات چیت کی دعوت دی‘ تو پاکستان نے اس کی مکمل حمایت کرتے ہوئے افغان طالبان پر زور دیا تھا کہ وہ طاقت کی بجائے مذاکرات کے ذریعے افغان مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کریں اور اس مقصدکو حاصل کرنے کے لیے مذاکرات میں شرکت پر آمادہ ہو جائیں۔
افغانستان سے باہر بھی افغان مسئلے کو مذاکرات اور پر امن طریقے سے حل کرنے کے حق میں آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ حال ہی میں چین میں شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) کے سربراہی اجلاس کے موقعہ پر روس‘ چین‘ پاکستان اور بھارت نے متفقہ طور پر افغان امن پراسیس کی حمایت کی ۔ اس اجلاس میں پاکستان اور بھارت نے پہلی دفعہ SCO کے مستقل ارکان کی حیثیت سے شرکت کی تھی ۔ SCO کے ایجنڈے میں افغانستان کے مسئلے کو پر امن طریقے سے حل کرنے کی تجویز ایک اہم آئٹم کی حیثیت میں موجود ہے۔
مبصرین کے مطابق افغان طالبان کی صفوں میں بھی مذاکرات اور افغان مسئلے کو پرُ امن طریقے سے حل کرنے کی حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے اور ان کا ایک دھڑا مذاکرات کے حق میں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افغانستان کی موجودہ صورتحال میں نہ تو اس کے آثار ہیں کہ امریکہ طالبان کو شکست دے سکے گا اور نہ ہی اس کا امکان ہے کہ طالبان طاقت کے زور پر پورے افغانستان پر قبضہ کر سکیں گے۔ افغانستان کی جنگ ایک ڈیڈ لاک کے مرحلے پر پہنچ چکی ہے ‘جہاں فریقین میں سے کوئی بھی بزورِ طاقت ایک دوسرے کو زیر نہیں کر سکتا۔ 
اس صورتحال سے باہر نکلنے کا واحد راستہ مذاکرات ہیں ؛ چونکہ بین الاقوامی سطح پر بھی مذاکرات کی حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے‘ اس لیے اس کا قوی امکان تھا کہ اگر یہ جنگ بندی قائم رہتی اور اس میں توسیع کر دی جاتی‘ تو افغانستان میں امن مذاکرات کا آغاز ہو سکتا تھا۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved