کڑی تھی دھوپ مگر سائبان چھوڑ دیا
قدم زمیں پہ رکھے‘ پائیدان چھوڑ دیا
زمین چھوڑ دی پھولوں بھری‘ جہاں تک ہے
مہ و نجوم بھرا آسمان چھوڑ دیا
یہ صحن بیچ کے کھلیان کر دیئے نیلام
درخت گروی رکھے اور مکان چھوڑ دیا
میں تاجور تھی مگر تخت سے اتر آئی
وہ محل میں نے معِ آن بان چھوڑ دیا
تھے گفتگو میں مگن‘ انتظار‘ ہجر‘ وفا
سلام میں نے کیا‘ خاندان چھوڑ دیا
تھا زعم تم کو بہت اپنی خوبروئی کا
تمہیں بھی چھوڑ دیا‘ میری جان چھوڑ دیا
............
جو تھا کبھی‘ نہیں بھی تھا تو اب ذرا نہیں رہا
تمہارے میرے درمیان رابطہ نہیں رہا
جو موڑ تم نے مڑ لیے‘ یہ کیا سلجھ سکیں گے اب
ہزار پیچ پڑ گئے ہیں‘ راستہ نہیں رہا
میں تمہاری بات کی ادھڑبن میں رہ گئی
تمہی بتائو‘ کیا رہا ہے اور کیا نہیں رہا
تمہارے ہاتھ کیا لگی یہ سات رنگ داستان
کہیں سے سرخ اڑ گیا‘ کہیں ہرا نہیں رہا
یہ کیا ہوا‘ تمہارے سارے خال و خد کدھر گئے
وہ نین نقش اور رنگ سانولا نہیں رہا
ہزار کوس دُور سے بلا رہے ہو فون پر
بلا رہے ہو جیسے کوئی فاصلہ نہیں رہا
ہمارے دل کی روشنی پہ چل سکو تو آئو تم
ہوا چلی ہے‘ بام پر کوئی دیا نہیں رہا
کوئی آر نہ پار
اندر جائوں
بلب جلائوں
کھیس اور تکیہ لائوں
ٹیبل فین سرہانے رکھوں
بیٹھ کے سوچے جائوں
آج سکھی میں تجھ کو
اپنے دل کی بات بتائوں
جب سے گیا پردیس کو مورکھ
مجھ برہن کے پاس
دُکھ یوں دھرنا دے کے بیٹھا
جیسے جلمی ساس
پہلے کون سامان تھا گھر میں
اور فقیر ہوئی
اس کے جانے پر اڑیئے
میں لیرو لیر ہوئی
کوئی آس نہ پاس
خط آیا ہے‘ آئے گا‘ وہ
اب کے عید تیہار
میں دیواریں چڑھ چڑھ دیکھوں
رستے اور کہار
کوئی آر نہ پار
میری ایک سہیلی
پچھلے گھر میں سات برس سے تالا ہے
آسیب بھی ہے
اس سے اگلے گھر میں میری ایک سہیلی رہتی تھی
اس کے گھر آسیب نہیں ہے‘ اندھیرا ہے
رات گئے وہ اک اندھے آسیب سے ملنے
پچھلی گلی میں جاتی ہے‘ پھر
پچھلے پائوں واپس مڑتی ہے
تب تک اس کے پائوں الٹے ہو جاتے ہیں
چل نہیں سکتی اور یکایک اس کی زلف
ستاروں سے آویزاں ہونے لگتی ہے
زرد اور ٹھنڈی‘ غیر انسانی دلآویز مہک
اس کے ملبوس سے اٹھتی ہے
گہرے سرخ لبوں پر ایک پرانا سرخ اورکالا گیت
کانپ کانپ کر ان ہونی سی بات بتاتا ہے
وہ سن نہیں سکتی پر دہرائے جاتی ہے
تاریک گلی کی سرد ہوا میں
غیر انسانی گیت سرایت کر جاتا ہے
(ناتمام)
آج کا مقطع
کیا کہیں‘ عمر ہی اتنی تھی محبت کی‘ ظفر
گزرے اس میں بھی کئی ایک زمانے خالی