تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     20-06-2018

نئی مقدس گائے کا جنم

اسلام آباد میں آج کل بکنے کا موسم آیا ہوا ہے۔سنا ہے عامر متین‘ ارشد شریف اور میں الیکشن سے پہلے ہی بک چکے ہیں ۔ جرم عمران خان کے دو چار سال پہلے بننے والے 'دوست ‘زلفی بخاری کا سکینڈل ہے۔ باقی چھوڑیں یار لوگوں نے تو میری عمران خان اور ریحام خان پر لکھی گئی ایک سیریز مکمل کیے بغیر چھوڑنے کے پیچھے بھی سازش تلاش کر لی ہے۔ ارشاد ہو اہے:چونکہ اس سیریز سے عمران خان کو فائدہ ہورہا تھا لہٰذا طاقتور حلقوں نے مجبور کر کے رکوا دیا ۔ ویسے سب لکھ دیتا تو' بھانبڑ‘ مچتے کہ ریحام اور عمران کے درمیان کس خوفناک نوعیت کے ایشوز تھے ۔ جہالت بڑی نعمت ہوتی ہے۔ اس سیریز کو دل پر پتھر رکھ کر روکا کیونکہ جو تھوڑا بہت عمران اور ریحام کا امیج آپ لوگوں کی ذہنوں میں بچ گیا ہے شاید وہ بھی نہ رہتا ۔ سوچا ریحام اور عمران کی زندگی کے باقی ماندہ پہلو میں بے نقاب نہ کروں کہ کن حالات میں طلاق ہوئی اور اچانک کیا بات ہوئی کہ ریحام خان صبح سویرے ہی بنی گالہ چھوڑ کر بیٹی کے ساتھ لندن چلی گئی اور عمران نے فوراً طلاق کا فیصلہ کیوں کیا ؟ یا عمران خان اپنے نومی بادشاہ سے ریحام کی ان سے شادی سے پہلے ذاتی زندگی بارے کیا کیا معلومات جاننا چاہتے تھے اور کن لوگوں پر انہیں شک تھا کہ ان کے ریحام خان سے تعلقات تھے۔ اس راز کو میں نے راز ہی رہنے دیا۔ ریحام خان کو وسیم اکرم کی بیوی والی بات کس نے بتائی تھی ، شاید ریحام خان جو کچھ لکھ رہی ہیں اس سے ہی ہمارے دوست اب دل بہلائیں گے۔ 
فہرست بہت طویل ہے جو لوگوں کے خیال میں بک جاتے ہیں۔ ہمارے دوست کاشف عباسی نے عمران خان کا انٹرویو کیا تھا جس کے بعد وہ ناراض ہوگئے تھے۔ یہی الزام دھر دیا کہ وہ بھی بک گئے تھے۔ ہمارے دوست ہارون الرشید لکھ لکھ کرتھک گئے کاشف عباسی بکنے والا نہیں۔ عمران خان کو انہوں نے کئی دفعہ سمجھایا لیکن وہ بھی ڈٹے رہے کہ نہیں آپ کو کیا پتہ ۔
ویسے جب پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو اندازہ ہوتا ہے کہ چند لوگوں میں کتنا بڑا ظرف تھا۔ گیلانی صاحب سے پرانا تعلق تھا ۔ جس شام وزیراعظم بننے کا اعلان ہوا وہ بغیر کسی کو بتائے رات کو میرے گھر آئے، کیک لائے کہ میں وزیراعظم بن گیا ہوں۔ میں دفتر میں تھا۔ گھر سے فون آیا: گیلانی صاحب آئے ہیں۔ میں نے کہا: انہیں چائے پلائو میں نہیں آسکتا کیونکہ شاہین صہبائی نے میرے ذمے لگایا ہے کہ گیلانی پر ایک آرٹیکل لکھوں۔ وہ لکھ رہا ہوں۔ گیلانی صاحب چائے پی کر چلے گئے۔ میں دفتر بیٹھا شاہین صہبائی کے حکم پر اخبار کی ڈیوٹی دیتا رہا۔ 
گیلانی کو وزیراعظم بنے ہوئے ابھی دس دن بھی نہیں گزرے تھے کہ ان کے خلاف سکینڈل بریک کیا۔ صبح سویرے سٹاف افسر کا فون آیا ۔ بولے: یہ آپ نے کیا کیا؟ گیلانی صاحب تو سب کو بتاتے ہیں کہ رئوف میرا دوست ہے۔ آپ نے سکینڈل دے مارا ہے۔ میں نیند میں تھا۔ سنتا رہا ۔ بولے: آج صبح ناشتے پر انہیں آپ کی انگریزی اخبار میں چھپی سٹوری پڑھائی۔ ہنس پڑے ۔ کسی نے گرہ لگائی رئوف تو آپ کا دوست ہے پھر یہ سکینڈل کیوں؟ گیلانی بولے: آج کے بعد ایسی خبر لے کر نہ آنا جو رئوف نے میرے خلاف فائل کی ہو۔ وہ میرا دوست ہے، وزیراعظم پاکستان کا نہیں ہے۔ چار سال ان کی حکومت کے خلاف درجنوں سکینڈلز فائل کیے۔ ان کے بچے تک ان سے ناراض رہے کہ کیسا دوست ہے‘ روز ہماری درگت بناتا ہے۔ ایک ہی جواب دیتے تھے کہ جب میں جیل میں تھا تو اس نے انصاف پر مبنی میرے حق میں سٹوریز فائل کی تھیں‘ آج میں اقتدار میں ہوں ‘ وہ صحافی ہے‘ یہ اس کا کام ہے۔ 
میں ان کے خلاف سٹوریز فائل کرتا رہا لیکن مجال ہے کہ گیلانی صاحب کے ماتھے پر کبھی شکن آئی ہو۔ کتاب ''ایک سیاست کئی کہانیاں‘‘ لکھی جس میں ایک باب گیلانی صاحب پر لکھا۔ اس میں ایسی متنازعہ باتیں تھیں جنہیں پڑھ کر کوئی بھی بھڑک جاتا ۔ گیلانی کی خاتون پرنسپل سیکرٹری نے سوچا ‘بڑاچھا موقع ہے کان بھرتی ہوں۔ کتاب لے گئیں اور بولیں: لیں صاحب پڑھیں آپ کے دوست نے کیا لکھا ہے۔ گیلانی صاحب نے کتاب لی۔ وہ باب پڑھا اور بولے ہاں درست تو لکھا ہے۔ 
میں سمجھتا ہوں گیلانی صاحب اگر کرپشن سے بچ کر رہتے تو ان سے بہتر وزیراعظم کوئی نہ ہوتا۔
صحافت بڑا مشکل کام ہے۔ عامر متین اکثر مجھ سے گلہ کرتے ہیں کہ کہاں پھنسا دیا ۔ جب سے ٹی وی پر شو کرنا شروع کیا ہے ان کی دوستیاں ایک ایک کر کے ختم ہوگئی ہیں۔ ہم سب کی توقعات پر پورا نہیں اتر سکتے۔ جنرل مشرف دور میں خبر بریک کی تو اس وقت کے وزیرداخلہ سخت اشتعال میں آئے اور حکم صادر ہوا کہ خبر کا سورس بتائو یا پھر اٹھا لیے جائو گے۔ میرے ایڈیٹر ضیاء الدین نے مجھے کہا: تم اسلام آباد چھوڑ جائو ورنہ یہ تمہیں نقصان پہنچائیں گے۔ میں نے کہا: سر جی! آج بھاگ گیا تو عمر بھر ہی بھاگتا رہوں گا۔ میرے انکار کے بعد، ضیاء الدین صاحب اور ناصر ملک کا شکریہ کہ وہ میرے لیے ڈٹ گئے۔
کتنی ہی کہانیاں ہیں۔ دل چاہتا ہے آج کل میں کتاب لکھ ماروں۔ 
اسلام آباد میں بیس برس میں یہی دیکھا ہے کہ ہر اپوزیشن اور حکمران اپنے ساتھ کچھ مقدس گائے لے کر آتے ہیں، جن کے بارے سوال کرنے کا مطلب ہے آپ بکے ہوئے ہیں۔ جنرل مشرف دور میں مقدس گائیں کچھ اور تھیں۔ وہ بڑے بڑے بزنس مین جن کے گھر جنرل مشرف رات کو محفلیں جماتے تھے۔ مشرف کے ان دوستوں کے پاور انرجی اور ایل پی جی کے سکینڈلز پر لکھنا ایسا ہی جرم تھا جیسا آج کل زلفی بخاری کے بارے میں سوالات اٹھانا۔ زرداری آئے تو ان کی اپنی مقدس گائوں کی فہرست تھی۔ گیلانی نے خیر کبھی پروا نہیں کی کون ان کے بارے میں کیا لکھتا ہے۔ نواز شریف آئے تو وہ اپنے ساتھ ایک ہجوم لائے جو مال پانی کا بندوبست کرتے تھے۔ 
ہوتا کچھ یوں ہے کہ بڑے بڑے کاروباری اور سرمایہ دار ان سیاسی پارٹیوں اور لیڈروں پر پیسہ لگاتے ہیں۔ فنڈنگ کرتے ہیں۔ جب وہ پارٹیاں اقتدار میں آتی ہیں تو پھر خدمت کے صلے میں بھاری کنٹریکٹس لیتے ہیں اور لمبا مال بناتے ہیں۔ اگر پکڑے جائیں تو پھر نیب ایف آئی اے آپ پر ہاتھ نہیں ڈال سکتی۔ پراپرٹی ڈیلر سے ایم این اے بننے والے نواز لیگ کے انجم عقیل خان نے چار ارب کا ڈاکہ نیشنل پولیس فاؤنڈیشن پر مارا۔ کسی کو جرأت نہ ہوئی کیونکہ وہ پارٹی کو فنڈنگ کررہا تھا۔ علیم خان اس وقت ایک درجن مقدمات میں نیب اور ایف آئی اے کا سامنا کررہا ہے ۔سپریم کورٹ میں ایف آئی اے کی جمع کرائی گئی رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ علیم خان ای او بی آئی سکینڈل میں بھی ملوث ہے۔ کچھ مقدمات میں تو عبوری ضمانت ملے ایک برس سے زائد ہوگیا ۔ علیم خان کو یہ رعایت کیسے ملی کہ سال چھ ماہ تک بھی اس کی عبوری ضمانت چلتی رہتی ہے؟ 
ویسے آپ میں سے کتنے لوگ ہوں گے جو ایئرپورٹ سے سیکرٹری داخلہ ارشد مرزا کو فون کریں اور کہیں: سر میرا میرا نام ای سی ایل میں ہے‘ مجھے یہ جانے نہیں دے رہے اور سیکرٹری داخلہ سیٹ پر کھڑا ہوجائے اور آپ کو ہولڈ کرا کے فوراً این او سی جاری کرائے، آپ چاہے نیب کو مطلوب ہیں، نیب سے بھی نہ پوچھا جائے کہ آپ کی کیا رائے ہے؟ نیا شوشہ چھوڑا گیا کہ جناب وہ بلیک لسٹ تھا ‘ای سی ایل پر نہیں۔ نیب کہتا ہے: ہم نے ای سی ایل پر ڈلوانے کا کہا تھا وہ بلیک لسٹ کیسے ہوگیا؟ بندہ بلیک لسٹ پاسپورٹ کے غلط استعمال پر ہوتا ہے۔ زلفی پر پاسپورٹ کے غلط استعمال کا الزام ہی نہیں تھا۔ نیب کو مطلوب تھا ۔ جن لوگوں کو خود وز ارتِ داخلہ میں کبھی داخلے کی اجازت نہ ملے وہ فرماتے ہیں: زلفی خود اتنا طاقتور تھا کہ سیکرٹری داخلہ نے اس کی فون کال پر ہی اجازت دے دی ۔ ویسے کسی وقت پتہ کرالیں زلفی بخاری کن کن لوگوں کی عمران خان سے ملاقاتیں کرارہا ہے اور ان کا بیک گراؤنڈ کیا ہے۔ ابھی خبریں آرہی ہیں کہ پارٹی کے چند بڑوں نے بھی ٹکٹوں کے عوض لینڈ کروزر گاڑیاں امیدواروں سے لی ہیں ۔ رہے نام اللہ کا۔ 
اس قوم نے جیسے ریحام خان کو بھی مادرِ ملت کا درجہ دیا تھا ویسے اب زلفی بخاری قائداعظم ثانی بن کر ابھرا ہے۔ قوم کو زلفی بخاری کی شکل میں نئی مقدس گائے مبارک ہو۔ پنڈ پورا بسا نہیں زلفی پہلے ہی پاکستان پہنچ چکے ہیں !

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved