تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     28-03-2013

نگران سیٹ اَپ اور الیکشن کمیشن کی ذمہ داری

امید کی فصل ایک بار پھر لہلہانے لگی ہے۔ خواب پھر سے ویران آنکھوں میں بسیرا کر رہے ہیں۔ یہ سب خواب اور امیدیں اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں کی اپنے وطن، اپنی دھرتی کے حوالے سے ہیں۔ دھرتی خوشحال اور سرسبز ہوگی تو یقینا گھروں اور آنگنوں میں خوشحالی اترے گی‘ سوکھے ہونٹوں کی پیاس بجھے گی۔ ہرالیکشن کے موقع پر لوگ اسی طرح خوش امیدہو جاتے ہیں۔ الیکشن مہم کے دوران، سیاسی رہنمائوں کے وعدوں اور دعووں پر یقین کر لیتے ہیں اور آس لگا لیتے ہیں کہ اب حالات ضرور بدلیں گے۔ لیکن جوکچھ اس دھرتی اور دھرتی کے باسیوں کے ساتھ ہوتا رہا وہ سب تاریخ کا حصہ ہے ۔ حال ہی میں اپنی جمہوری مدت پوری کرنے پر خوشیاں منانے والی پیپلزپارٹی کی حکومت نے جاتے جاتے بھی کچھ ایسے ’’کارنامے‘‘ سرانجام دیئے جن سے قومی خزانے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ حادثاتی طورپر وزیراعظم بن جانے والے راجہ پرویز اشرف نے چند مہینوں میں وزیراعظم کے صوابدیدی فنڈ سے اربوں روپیہ استعمال کیا۔ حیرت اور افسوس اس بات پر ہوا کہ فہمیدہ مرزا جو بظاہر انتہائی شائستہ اور مہذب خاتون دکھائی دیتی ہیں انہوں نے بھی اس بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھوئے! بہرحال اب الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہوچکا ہے۔ وفاق اور صوبوں میں نگران سیٹ اپ وجود میں آچکا ہے۔ 85سالہ میر ہزار خان کھوسو نگران وزیراعظم کی کرسی سنبھال چکے ہیں۔ پنجاب میں ممتاز صحافی نجم سیٹھی نگران وزیراعلیٰ بنادیئے گئے ہیں۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ بطور نگران وزیراعلیٰ ان کا کام صرف منصفانہ الیکشن کروانا ہوگا۔ خصوصاً یہ بات انہوں نے بہت اچھی کہی کہ وہ خود کو الیکشن کمیشن کے ماتحت سمجھتے ہیں اور الیکشن کمیشن انہیں جو حکم دے گا وہ اس کی تعمیل کریں گے۔ یہی جذبہ باقی صوبوں کی نگران حکومتوں کابھی ہونا چاہیے۔ جن ممالک میں منصفانہ انتخابات ہوتے ہیں وہاں الیکشن کمیشن صحیح معنوں میں آزاد اور بااختیار ادارہ ہوتا ہے۔ گو ہمارے ہاں بھی زبانی کلامی طور پر الیکشن کمیشن تو آزاد اور بااختیار ہے مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ اس پر کئی طرح کے دبائو موجود رہتے ہیں۔ یوں بھی ہم ابھی ایک ارتقائی عمل سے گزررہے ہیں۔ ابھی ہمارے ہاں اداروں سے زیادہ شخصیات مضبوط ہیں۔ مگر اچھی بات یہ ہے کہ اب اداروں کے مضبوط ہونے کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ آزاد عدلیہ اور آزاد میڈیا اس کی ایک مثال ہیں۔ اگرچہ یہ دونوں ادارے بھی ابھی ارتقائی عمل سے گزر رہے ہیں۔ صوبوں اور وفاق میں موجود نگران حکومتوں کے لیے یقینا سب سے بڑا ٹارگٹ منصفانہ اور شفاف الیکشن کا انعقاد ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ماحول کا پرامن ہونا بہت ضروری ہے کیونکہ صاف اور غیرجانبدار الیکشن پرامن ماحول ہی میں منعقد ہوسکتے ہیں جبکہ وطن عزیز میں امن وامان کی صورت حال کسی طرح بھی تسلی بخش نہیں ہے۔ سونگران حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج امن و امان قائم کرنا ہے۔ حالات یہ ہیں کہ پنجاب جیسے قدرے پرامن صوبے میں اکتالیس ہزار چھ سو پینسٹھ پولنگ سٹیشنزکو انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے ۔ کراچی، خیبرپختونخوا، بلوچستان اور فاٹا کا معاملہ تو یہ ہے کہ وہاں قائم ہونے والے بیشتر پولنگ سٹیشنز پر پرامن ماحول کے قیام کے لیے اور کسی بھی بدمزگی سے بچنے کے لیے فوج کی خدمات مانگی گئی ہیں۔ سیکرٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد خان کا کہنا ہے کہ پنجاب میں بھی حساس پولنگ سٹیشنز پر فوج خدمات سرانجام دے گی۔ کالعدم تنظیموں اور طالبان کی طرف سے متوقع حملوں کا خطرہ اپنی جگہ ہے ہی مگر اس کے ساتھ ساتھ ہمارے ہاں انتخابات میں ماحول کچھ زیادہ گرم ہوجاتا ہے۔ ایک دوسرے کے مدمقابل امیدواروں کے حمایتی ذرا ذرا سی بات پر لڑنے مرنے پر تیار ہوجاتے ہیں۔ آپس کی بدمزگی پر گولیاں چلنا اور اسلحے کی نمائشیں کرنا بدقسمتی سے ہمارے انتخابی کلچر کا ایک لازمی حصہ رہا ہے۔ اگرچہ الیکشن کمیشن نے اس پر ایک سخت قسم کا ضابطہ اخلاق ترتیب دیا ہے جس کی رو سے پولنگ سٹیشن کی حدود میں بھی اسلحے کی نمائش کرنا یا اسلحہ لانا قانون کی گرفت میں آتا ہے۔ ایسے میں ہمارے کچھ سیاستدان بار بار یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ خونی الیکشن ہوں گے۔ حالات کی یہ تصویر ووٹروں کے حوصلے پست کردینے کے لیے کافی ہے۔ الیکشن کے روز ووٹروں کو گھروں سے نکالنا اور پولنگ سٹیشن تک لانے کا ماحول پیدا کرنا بہت ضروری ہے۔ گائوں‘ بستیوں اور گوٹھوں سے تو امیدوار غریب دیہاتیوں کو ٹریکٹر ٹرالی، بسوں اور ویگنوں پر پولنگ سٹیشن تک لاتے ہیں اور اپنی مرضی کے ووٹ ڈلواتے ہیں۔ مگر شہری ووٹر گھر سے نکلنے میں تامل سے کام لیتا ہے۔ ٹرن آئوٹ کم ہوتو الیکشن کے نتائج پر یقینا اثر پڑتا ہے۔ سو الیکشن کے روز فول پروف انتظامات کرنا ایک بھاری اور اہم ذمہ داری ہے جو صاف شفاف اور غیرجانبدار الیکشن کے انعقاد کے لیے ضروری ہے۔ اب تو فنکار برادری نے بھی الیکشن کمشنر سے اپیل کی ہے کہ اس بار فنکاروں کے لیے علیحدہ پولنگ بوتھ بناتے جائیں تاکہ وہ سہولت سے ووٹ ڈال سکیں وگرنہ فنکار برادری زیادہ ترالیکشن کا دن سوکر ہی گزار دیتی ہے۔ اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ لوگ اس بار انتخابات میں اپنا حق رائے دہی استعمال کرنا چاہتے ہیں اور نوجوان ووٹروں کی اکثریت اس حوالے سے بہت پرجوش ہے کہ ان کا ووٹ پاکستان میں تبدیلی کی بنیاد بنے گا۔ بہرحال امید کی فصل اب پھر سے لہلہا رہی ہے اور خواب ویران آنکھوں میں پھر سے بسیرا کررہے ہیں۔ اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں کا یہ خواب پورا کرنے کی ذمہ داری نگران حکومتوں اور الیکشن کمیشن پرعائد ہوتی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved