تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     20-06-2018

انتخابات میں شفافیت ضروری ہے

سوچئے... اگرایک شخص‘ لاہور سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے120 کے ضمنی انتخاب میں اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کیلئے اپنے متعلقہ پولنگ اسٹیشن پہنچتا ہے اور اپنا ووٹ ڈھونڈتے ہوئے‘ اسے پتہ چلتا ہے کہ اس کے اہل خانہ کے علاوہ اسکے گھرانے میں 6 ایسے افراد کے ووٹوں کا اندراج بھی ہو چکا ہے‘ جنہیں وہ جانتا تک نہیں ‘تو اس وقت وہ ایسے انتخابات کی شفافیت کے بارے میں کیا سوچے گا؟اور جب اسے معلوم ہو کہ یہ چھے کے چھے ووٹ‘ جو اس کے گھر انے میں زبردستی اندراج کروائے گئے ہیں‘ اس وقت کے ایک حکومتی امیدوار کے حق میں کاسٹ بھی کئے جا چکے ہیں ۔۔۔اور یہی نہیں‘ بلکہ وہ موصوف جب اس بات کا اپنے بڑے بھائی سے تذکرہ کرتا ہے‘ تو وہ بھی یہی کہانی سناتا ہے کہ بھائی جان! اس کے گھر میں بھی8 ووٹوں کا اضافہ ہو چکا ہے ۔
مذکورہ بالا وہ سچی کہانی ہے‘ جو ڈاکٹر یاسمین راشد اور اور بیگم کلثوم نواز کے درمیان‘ میاں نواز شریف کی نا اہلی کے بعد ہونے والے ضمنی انتخابات میں وقوع پذیر ہو چکی ہے۔ اور یہ کہانی ہر وارڈ کے نا جانے کتنے گھرانوں میں دیکھنے اور سننے کو مل چکی اور یہ سب کارنامے کسی خلائی مخلوق نے نہیں‘ بلکہ تحریک انصاف کی امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد کو شکست دینے کیلئے رچائے گئے۔ حلقہ این اے 120 کے اس مشہور زمانہ اور شرمناک ضمنی الیکشن کو ہوئے کئی مہینے گزر چکے ہیں‘ لیکن یاسمین راشد کی وہ اپیل ابھی تک دھکے کھاتی پھررہی ہے‘ جس میں انہوں نے لارنس روڈ‘ لاہور کے مذکورہ بالادونوں بھائیوں کے گھرانوں کی طرز کے کوئی بیس ہزار سے زائد بوگس اور جعلی ووٹوں کے اخراج کی عدالت میں پٹیشن دائر کی ہوئی ہے۔ 
ایک سال سے بھی زائد کا عرصہ گزرنے کے بعد اب نئے عام انتخابات سر پر آ گئے ہیں‘ لیکن وہ بوگس ووٹ ابھی تک اسی طرح قائم ہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس طرح کے شفاف انتخابات کے دعوے کرتے ہوئے ‘نواز لیگ کے رہنما اچھے لگیں گے؟جو حسن سلوک شفاف انتخابات کے ساتھ این اے 120 کے ضمنی انتخاب میں بیگم کلثوم نواز کو کامیاب کروانے کیلئے کیا گیا ۔اسی قسم کا مشہور زمانہ طریقہ کار سردار ایاز صادق کو علیم خان کے مقابلے میں کامیاب کروانے کیلئے کیا گیا تھا اور اس انتخاب کے خلاف بھی علیم خان کی پٹیشن ابھی تک دھکے کھارہی ہے اور کوئی اس کا پرسان حال نہیں‘ کیونکہ خیر سے پنجاب کے 'لاٹ صاحب ‘ان سب پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں۔ مجال ہے کہ ان کی مرضی کے بغیر یہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس بھی ہو جائے۔سردار ایاز صادق کو جعل سازی سے کامیا ب کروانے کیلئے ایک بہت ہی نرالا اور گھٹیا طریقہ اختیار کیا گیاکہ اسے جس نے بھی سنا‘ لعن طعن کیے بغیر نہ رہ سکا۔
نواز لیگ کو علم ہو چکا تھا کہ سردار ایاز صادق نا اہل ہونے جا رہے ہیں‘ کیونکہ کہتے ہیں ناں کہ ''گھر دے جمیاں دے دند نئیں گنی دے ‘‘ ان کے نا اہل ہونے سے کئی دن پہلے کیا یہ گیا کہ قومی اسمبلی کے این اے122 میں سردار ایاز صادق کو علیم خان کے مقابلے میں کامیاب کروانے کیلئے سپیشل برانچ پنجاب اور نواز لیگ کے وارڈ عہدیداروں کی مرتب کردہ ایسے لوگوں کی فہرستیں بنائی گئیں ‘جن کے بارے میں سو فیصد یقین تھا کہ یہ تحریک انصاف کے عہدیدار اور پکے حامی ہیں۔ ان گھرانوں کے ووٹوں کو اس حلقے سے اٹھا کر لاہور کے مختلف الیکٹوریل حلقوں میںٹرانسفر کر دیا گیا اور میرے ایک بہت ہی عزیز دوست ‘جن کا لاہور کی مال روڈ پر ایک ریسٹورنٹ ہے‘ وہ جب ووٹ ڈالنے گئے‘ تو انہیں پتہ چلا کہ ان کا تو یہاں ووٹ ہی نہیں ۔ وہ حیران ہو ئے کہ ان کا گھر نیا مزنگ میں ہے‘ لیکن ان کے ووٹ شیرا کوٹ کیسے منتقل کر دیئے گئے ہیں ؟او ریہ کسی ایک کے ساتھ نہیں‘ ناجانے کتنے ہزار ووٹروں کے ساتھ ایسا کیا گیا۔اور وہ جب ووٹ کاسٹ کرنے پولنگ سٹیشنوں پر پہنچے‘ تو انہیںپتہ چلا کہ ان کے ووٹ ہی نہیں ۔کہا جاتا ہے کہ جب یہ تکنیک میاں نواز شریف کو بتائی گئی‘ تو وہ اش اش کر اٹھے کہ '' ذہنیت‘‘ ہو تو ایسی ہو...!!
چیرمین نادراکو چاہئے تھا کہ اس الزام کے بعد وہ خود ہی استعفیٰ دے دیتے‘ لیکن وہ بھی ان انتخابات میں اپنا حق نمک پورا پورا ادا کرنے کیلئے اپنی کرسی سے چمٹے ہوئے ہیں۔ حسن عسکری صاحب! یہ کیسا شفاف الیکشن ہے کہ پنجاب بھر میں نواز کے نمک خوار ہی ڈی پی او‘ آر پی او اور سی سی پی او ہیں۔ انہیں کے چیف ٹریفک آفیسر ہیں ‘انہیں کے صوبائی سیکرٹری ہیں۔ انہیں کے ڈی ایس پی اور ایس پیزہیں‘ یعنی پوری کی پوری بیوروکریسی نواز شریف اور شہباز شریف کے گھروں کی باندی سمجھی جاتی ہے۔
تحریک انصاف ماشااﷲ‘ الیکشن میں کودنے کا مصمم ارادہ کر چکی ہے۔ بڑے بڑے جلسے بھی کروانے میں اسے کمال حاصل ہے ۔وہ نواز لیگ کے قلعہ لاہور کو فتح بھی کرنا چاہتی ہے‘ لیکن وہ یہ نہیں جانتی کہ اس قلعہ کو فتح کیسے کرنا ہے؟اگر عمران خان لاہور سے کم از کم سات نشستیں حاصل کرنا چاہتے ہیں‘ تو انہیں ا ور ان کی جماعت کو این اے134-136-131-129امیں ایک لاکھ سے زائد خانہ بدوشوں کے وہ ووٹ کینسل کروانے ہوں گے‘ جن کے ووٹ بڑے بڑے صندوقوں میں بڑی ترتیب سے سنبھال کر رکھے ہوئے ہیں۔ ممکن ہے کہ تحریک انصاف کے نادان دوست اسے ایک شوشہ سمجھیں‘ لیکن میرے سمیت ایک نہیں‘ کئی لوگ گواہ ہیں کہ مئی2013ء کے انتخابات میںلاہور مصطفیٰ ٹائون میں فیڈرل پبلک سروس کمیشن کے آفس میں قائم پولنگ اسٹیشن پر لوگ اپنی فیملیوں کے ساتھ قطاروں میں کھڑے ہوئے تھے کہ اچانک ایک وین باہر آ کر رکی اور ایک فربہ سی عورت کی نگرانی میں کوئی پچیس کے قریب خانہ بدوش عورتوں کو اتارکر ان سب کو پولیس والے کی نگرانی میں ووٹ ڈلوانے کیلئے اند رلے گئی ۔جب پہلے سے قطار میں لگی ہوئی خواتین نے اعتراض کیا‘ تو پولیس کے اے ایس آئی نے بات ہی نہ سنی اور دیکھتے دیکھتے وہ خانہ بدوش عورتیں اپنے ووٹ کاسٹ کر کے واپس ویگن میں بیٹھ کر چلی گئیں۔پتہ چلا کہ نادرا کی وین‘ حکومتی اراکین اسمبلی کے گھروں میں آتی ہیں اور ان خانہ بدوشوں کے ووٹ اور شنا ختی کارڈ زبنا کرچلی جاتی ہیں۔۔۔اور ان کی تعداد لاہور میں ایک لاکھ سے زائد بتائی جاتی ہے۔
تحقیق کرنے پر پتہ چلا کہ مصطفیٰ ٹائون لاہور میں عباس ڈوگر نام کے ایک شخص کا ڈیرہ ہے‘ جہاں علاقے کی پولیس رات کو آکر قیام بھی کرتی ہے اور جو بھی خانہ بدوش بن کر وہاں جھونپڑی بنانا چاہتا ہے ‘اسے سب سے پہلے عباس سے اجا زت لینی ہوتی ہے ‘جو اس کی اطلاع اپنے رکن اسمبلی کو دینے کے بعد اس کا شناختی کارڈ اور ووٹر لسٹ میں نام درج کرواتا ہے ۔کیا اس ملک کے حساس ادارے کسی وقت اس طرف توجہ دیں گے؟ ممکن ہے کہ ان خانہ بدوشوں کے بھیس میں اب تک ناجانے کتنے سماج دشمن عنا صر‘ دشمن ملک کے جاسوس اور دہشت گرد‘ حکومتی اراکین اسمبلی کے سائے میں اپنے محفوظ ٹھکانے بنا چکے ہوں ۔
تحریک انصاف ڈی جی نادرا کے استعفے کا مطالبہ شفاف الیکشن کیلئے مانگ رہی ہے‘ جبکہ ایک پاکستانی کی حیثیت سے ہمارا مطا لبہ یہ ہے کہ ڈی جی نادرا کے خلاف اس جرم میں کاروائی کی جائے کہ اس نے لاہور شہر میں خانہ بدوشوں کے ووٹ اور شنا ختی کارڈ محض حکومتی اراکین کی کامیابی کیلئے کیسے بنائے؟ابھی عید سے قبل جب پولیس گداگروں کو پکڑ رہی تھی‘ تو ان خانہ بدوشوں کو کسی نے ہاتھ بھی نہیں لگایا ‘ کیونکہ ان کے پاس'' پرچیاں‘‘ تھیں۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved