تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     20-06-2018

کیا آپ صوفی بن سکتے ہیں ؟

بہت سے لوگ صوفی بننا چاہتے ہیں ۔لوگ اس سے ملاقات کے لیے ترستے ہیں اور دور دراز کا سفر طے کرتے ہیں ۔ ایسا کیوں ہے ؟ مختصر ترین الفاظ میں سکون کے لیے ۔ سب جانتے ہیں کہ صوفی بدترین حالات میں پرسکون رہتاہے ۔ وہ ایک ایسے جذباتی توازن کا حامل ہوتاہے اور علم و عقل کا نور اسے اس طریقے سے راہ دکھاتا رہتاہے کہ ہر قسم کے حالات سے وہ سلامت گزر جاتاہے ۔اسے بخوبی معلوم ہوتاہے کہ یہ دن گزر جائیں گے اور اس کے بعد صورتِ حال بدل جائے گی‘ جبکہ ایک عام شخص اپنے حواس کھو دیتاہے ۔ دنیا کے بڑے امیر اور طاقتور ترین حکمران بھی اس سکو ن کے لیے ترستے رہتے ہیں ۔ انہیں بھی اندر ہی اندر پریشانیاں اور غم کھائے جا رہے ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ہارون الرشید جیسے بادشاہ کو فضیل بن عیاضؒ کے در پہ حاضری دیتے ہوئے اور حسرت و غم کے عالم میں روتا ہوا دیکھتے ہیں ۔
صوفی ایک بے خوف انسان ہوتاہے ۔وہ اللہ کا ولی ہوتاہے ۔ اس کا دل غم اور خوف سے آزاد کر دیا جاتاہے ۔اسی لیے کہا جاتاہے کہ اسے نہ ماضی کی تکلیفوں کا غم باقی رہتاہے اور نہ آنے والی زندگی میں تنگدستی سمیت دوسرے خوف اسے اپنا قیدی بنا سکتے ہیں ۔ایسا کیوں ہوتاہے؟ میرے خیال میں اس لیے کہ صوفی کا focusٹھیک ہوتاہے ۔ یہ دنیا چار دن کی ہے‘ لاشعوری طور پر اس بات کا علم تو سب کو ہے‘ لیکن صوفی کا اس بات پہ focusہوتاہے ۔ ایک دن انسانوں نے دوبارہ اٹھائے جانا ہے ۔ اس بات کو مانتے تو سب ہیں‘ لیکن صوفی علمی طور پر جانتاہے ۔ وہ علمی طور پر بھی دوسروں سے بلند ہوتاہے اور نیک بھی ۔ اس کا focusبھی ٹھیک ہوتاہے ؛لہٰذاخدا کے حکم سے اس کی عقل میں نور پیدا ہوجاتاہے ۔ 
ایک بہت بڑی حقیقت یہ ہے کہ جہاں ہر زمانے میںعلم و عقل اور ہدایت کا نور رکھنے والے یہ اللہ کے بندے مخلوق کو خدا کی طرف رہنمائی کرتے رہے ‘ وہیں بڑے بڑے دھوکے باز بھی اپنا الّو سیدھا کرتے رہے ۔ پچاس ہزار سالہ جدید انسانی تاریخ میں کس طرح کچھ انسان خود کو روحانی طاقتوں کے حامل ٹھہرا کر مادی فوائد حاصل کرتے رہے ۔ اس پہ ایک کالم نہیں‘ بلکہ سپر کمپیوٹر ہی کافی ہو سکتاہے ۔ قصہ مختصر یہ کہ وہ دوسروں کو ڈرا دیتے ہیں ۔ خوف ایک بنیادی جبلت ہے ‘ جس کے تحت زندگی قائم رہتی ہے ۔ چالاک لوگ اس خوف سے فائدہ اٹھانا سیکھ لیتے ہیں‘ لیکن آخر ذلت و رسوائی ہی ان کا مقدر ہوتی ہے ۔ آخر دنیاوی لالچ پر مبنی ان کاکروفر دھڑام سے آگرتاہے ۔ وہ خوف و غم سے آزاد نہیں کیے جاتے ۔ اپنی جبلتوں پر قابو پانے کے لیے انہیں خدائی مدد حاصل نہیں ہوتی‘ بلکہ وہ غم و غصے‘ لالچ اور دوسرے جذبات تلے دبے رہتے ہیں ۔ان پہ سیکنت طاری نہیں ہوتی ‘بلکہ وہ کوفت کا شکار رہتے ہیں ۔آخر ان کی موت کے بعد تاریخ ان پہ مٹی ڈال دیتی ہے ۔ وہ بھلا دیے جاتے ہیں ‘جبکہ حضرت علی بن عثمان ہجویریؒ جیسا استاد تو دس صدیوں بعد بھی اسی طرح یاد کیا جاتاہے ۔ 
بہرحال ‘ آج کاموضوع یہ ہے کہ کیا آپ ‘معاشرے کا عام فرد صوفی بن سکتاہے ؟ اوپر بیان کی گئی نعمتوں کے بعد سبھی بننا چاہتے ہوں گے‘ لیکن پہلے صوفی کی تکالیف بھی سن لیں ؛ میں جس شخص کو استاد کہتا اور جس کو صوفی مانتا ہوں (جس نے خود کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا) میں نے بغور اس کی تکلیفوں کا جائزہ لیا ہے ۔ مخلوق اس پہ اس طرح سے ٹوٹ پڑی ہے کہ اسے تنہائی اور فراغت کا ایک لمحہ نصیب نہیں ہوتا ۔ وہ بمشکل چند گھنٹے کی نیند لے پاتا ہے ۔ گھر سے نکلتے ہی لوگ اپنی پریشانیاں بتانی شروع کرتے ہیں ۔ اس کا اصول ہے کہ جب کوئی شخص سامنے آجائے‘ تو اس کی بات لازماً سنو ۔ اعلیٰ اخلاق سنت ہے اور خدا کو دو سب سے محبوب کاموں میں سے ایک ۔ دوسرا کھانا کھلانا ہے ۔ بھانت بھانت کے لوگ طرح طرح کی فضول باتیں کرتے ہیں ۔ عام الفاظ میں دماغ کھا جاتے ہیں ‘ جن باتوں کے جواب درجنوں دفعہ دیے جا چکے ہوتے ہیں ‘ انہی کو دہراتے رہتے ہیں ۔ وہ سنتا رہتاہے ‘ مسکرا تا رہتاہے اور جواب دہراتا رہتاہے ۔ لوگ اس کے سامنے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں ۔وہ اپنی پارسائی کے قصے سناتے ہیں‘ جبکہ اسے بخوبی ان کی اخلاقی حالت کا اندازہ ہوتاہے ۔ کبھی اس کا لہجہ تلخ نہیں ہوتا ؛حتیٰ کہ ملازموں کے ساتھ بھی نہیں ۔ یہ وہ اخلاق ہے ‘ جو کہ مصنوعی طور پر نہیں اپنایا جا سکتا اور بالخصوص اس وقت جبکہ مخلوق آپ پر ٹوٹ پڑی ہو۔ انسان زیادہ دیر تک مصنوعی اخلاق نہیں اپنا سکتا ۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ کسی بھی انسان کی موت سے پہلے اس کا ظاہر و باطن لازماً مخلوق پہ آشکار ہو جائے گا۔آپ صوفی کہلا سکتے ہیں ‘ جب آپ اشرافیہ اور عوام کے ساتھ ایک جیسا روّیہ اپنا لیں ۔ نہیں اپنا یا جا سکتا ‘جو صوفی نہ ہو ، وہ کبھی بھی نہیں اپنا سکتا ۔مصنوعی اخلاق دکھاتے دکھاتے وہ زچ ہو جاتا ہے ۔ بالآخر وہ پھٹ پڑتا ہے۔ 
ہر بندہ اس کے کمرے میں جوتوں سمیت داخل ہوتاہے۔ کھانا کھاتا ہے اور اس کا واش روم استعمال کرتاہے ۔ الٹی سیدھی ‘ اچھی بری باتیں کرتاہے ۔ اپنے حریفوں /رشتے داروں کو برا بھلا کہتاہے ۔ صوفی اسے یہ نہیں کہتا کہ زیادہ خرابیاں اس کے داخل میں ہیں ‘ خارج میں نہیں ۔ذاتی طور پر میں چند منٹ سے زیادہ فضول باتوں کی تاب نہیں لا سکتا۔ صرف اور صرف کام کی بات ۔میںکسی کو اپنی ذاتی چیزیں ‘ اپنا کمرہ اور اپنا واش روم استعمال کرنے کے لیے نہیں دے سکتا۔ سب سے بڑی بات یہ کہ اپنا وقت ‘ دوسروں کے سپرد نہیں کر سکتا‘کسی قیمت پر بھی نہیں ۔یہ ہے صوفی کی زندگی ۔ اپنی سب قیمتی چیزیں وہ مخلوق کی نذر کر دیتاہے‘ تو پھر خالق اس کے دل و دماغ کو سکون سے بھر دیتاہے ۔ وہ خواہشات کی غلامی سے نکل جاتاہے ۔اور سب سے قیمتی ingredientتوکل ہے ۔مخلوق اپنی جو تکلیفیں اسے بتا رہی ہوتی ہے ‘ اس سے بڑی تکلیفوں سے وہ خود خاموشی سے گزر رہا ہوتاہے ۔
سر سے پیر تک صوفی آزاد ہوجاتاہے ۔ تصوف تو ہے ہی آزادی۔ میرے ایک بھائی نے اس آزادی کی یہ تعریف کی ہے کہ انسان ہر قسم کی ذمہ داریوں سے آزاد ہو جاتاہے ؛حتیٰ کہ فکرِ روزگار سے بھی ۔ وہ اللہ کو یاد کرتا رہتاہے اورخدا کا نوکر بن جاتاہے ۔ اس کے بعد اسے کوئی اور کام کرنے کی ضرورت نہیں رہتی ۔ تصوف کی یہ تعریف اور تشریح غلط ہے ‘ جس طرح عورت بچہ جننے کی ذمہ داری سے اپنا ہاتھ نہیں اٹھا سکتی ‘ اسی طرح مرد کمانے کی فکر سے دستبردار نہیں ہو سکتا۔ ہاں ! البتہ ایسا ایک وقت ہر استاد کی زندگی میں آتاہے کہ جب مخلوق اس بری طرح اس پہ ٹوٹ پڑتی ہے کہ اس کے بعد اس کے لیے دکانداری ممکن نہیں رہتی ۔ استاد کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔ پہلے گورنمنٹ کالج لاہور میں پروفیسری ‘ پھر 10سال تک برتنوں کی دکان ‘ جس کے بعد ضرورت مندوں کی فوج اس پہ ٹوٹ پڑتی ہے ۔
تصوف آزادی ضرور ہے‘ لیکن اس طرح کی آزادی نہیں ‘ جیسی آپ سمجھ رہے ہیں۔ تصویر کے دونوں رخ میں نے آپ کو دکھا دیے۔ اب خود فیصلہ کر لیجیے کہ آپ صوفی بننا چاہتے ہیں یا نہیں ۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved