میں نے ایک دفعہ لکھا تھا کہ نئے شاعر کو غزل گوئی ‘وہاں سے شروع کرنی چاہئے ‘جہاں میں نے اسے (بزعم خویش) پہنچا دیا ہے۔ یہ بھی کہا تھا کہ ہر کسی پر ظفر ؔاقبال بننے کی دھن سوار ہے۔ یہ کیا بات ہوئی؟ ظفرؔ اقبال تو موجود ہے۔ آپ اس سے آگے نکلنے کی بات کیوں نہیں کرتے؟ جن نوجوانوں کی سمجھ میں یہ بات آ گئی تھی اور انہوں نے اس جانب سفر بھی شروع کر دیا تھا۔ ان میں اکبر معصوم کے علاوہ کبیر اطہر‘ ذوالفقار عادل‘ کاشف حسین غائر اور کئی دوسرے شامل ہیں۔ ان سب نے جو شعری فضا بنا دی ہے‘ اسے دیکھ کر میں مطمئن بھی ہوتا ہوں اور مسرور بھی۔ یہ سب میرے بچے ہیںاور اپنے ساتھ ساتھ میرا بھی نام روشن کر رہے ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ نیا ٹیلنٹ مجھے فیس بک سے بھی دستیاب ہوا ‘جس میں عمیر نجمی‘ طارق اسد‘ سعید شارق اور کئی اور شامل ہیں ‘جن کے اشعار میں اپنے کالم میں پیش کرتا رہتا ہوں۔ اس موقع پر اپنا یہ شعر بھی یاد آ رہا ہے ؎
وہ شہسوار سخن جس کے انتظار میں ہوں
کب آئے اور مجھے روند کر گزر جائے
میرا اپنا کارخانہ بھی چل رہا ہے‘ لیکن میرے اپنے طریقے سے‘ یعنی غزل کی اس بنیادی تعریف کے مطابق کہ یہ پیار محبت اور چھیڑ چھاڑ کی شاعری ہے‘ جو دوست مجھ سے اور قسم کی شاعری کی توقع رکھتے ہیں‘ وہ جانتے ہیں کہ میں اس قسم کی شاعری بہت اور بے شمار کر چکا ہوں۔ طبیعت میں وہ جو لانی بھی نہیں رہی اور ایک طرح کی تساہل پسندی بھی آ گئی ہے‘ سو میں محبت بھی کر رہا ہوں اور شاعری بھی۔ یاد رہے کہ محبت اور حماقت میں عمر کی کوئی شرط نہیں ہوتی...!
اب آتے ہیں اکبر معصومؔ کے تازہ مجموعۂ غزل ''بے ساختہ‘‘ کی طرف‘ جس کا مختصر تعارف میں پہلے کر واچکا ہوں۔ آپ دیکھیں کہ عنوان میں بھی معنی آفرینی موجود ہے کہ بے ساختہ کا مطلب ہے ‘برجستہ یا فی البدیہہ‘ لیکن اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ نہ بنا ہوا‘ یعنی شاعر بنا ہوا نہیں تھا‘ بلکہ اپنی تعمیر خود کر رہا ہے...! کتاب کا آغاز اس شعر سے کیا گیا ہے؎
دمکتی ہے باہر سے دُنیا بہت
مگر اس نگینے کے اندر ہوں میں
کتاب والدہ محترمہ رقیہ بانو کی یاد میں ہے اور شفیق سہروردی کا خاکہ نما دیباچہ بھی پڑھنے کی چیز ہے۔ ''دیرآید‘‘ کے عنوان سے پیش لفظ شاعر کا قلمی ہے۔ نمونہ کلام پیش خدمت ہے:
دن نکلتے ہی میرے خواب بکھر جاتے ہیں
روز گرتا ہے اسی فرش پہ گلدان مرا
خود سے نکلوں بھی تو رستا نہیں آسان مرا
میری سوچیں ہیں گھنی‘ خوف ہے گنجان مرا
ہے میری خانہ خرابی سے یہ رونق معصومؔ
اب جہاں شہر ہے ہوتا تھا بیابان مرا
نیند میں گنگنا رہا ہوں میں
خواب کی دھن بنا رہا ہوں میں
یہ اپنے پھول کھلاتی ہے اپنی مرضی سے
کوئی کرے گا محبت کی باغبانی کیا
اس خرابے میں کوئی اور بھی ہے
آہ! کس نے یہاں بھری تھی ابھی
جن کو خوابوں میں بناتے ہیں بنانے والے
ان گھروں کے در و دیوار کہاں ہوتے ہیں
میرے وجود میں رہ‘ میری خواہشیں مت گن
کہ اس کھنڈر میں کبوتر ہے بے شمار مرا
آپ ہی بن رہی ہے اک صورت
خود بخود چل رہی ہے ایک لکیر
سارے عالم پر چھلک گیا
میں بھرا ہوا ویرانی سے
اب یہ عالم ہے کہ بس یاد اس کی
دل کے اندر ہی دھڑک جاتی ہے
اپنی صورت نظر نہیں آئی
گرد بھی آئنوں کی جھاڑ کے سب
آتی ہے بہت بعد میں زنجیر کی آواز
اب راہ الجھتی ہے میرے پائوں سے پہلے
گر جاتا ہوں روز ہی میں اونچائی سے
آج ذرا یہ خواب سنبھل کر دیکھوں گا
درد نے دل کو ڈھونڈ لیا
پہنچا سانپ خزانے تک
وہ ایک بار نہیں ہے‘ ہزار بار ہے وہ
سو ہم اسی سے بچھڑ کر اسی سے ملتے ہیں
معصومؔ بیقراری ہے میرے خمیر میں
اڑتی ہے میری خاک اڑاتا نہیں ہوں میں
آج کل تو کسی صدا کی طرح
اپنے اندر سے آ رہا ہوں میں
ذرا یہ شاعری بھی پڑھ کے دیکھو
یہ اک مردے کی زندہ داستاں ہے
جو بھی ہوں میں وہ رفتہ رفتہ ہوں
میری جاں ایک دم نہیں ہوں میں
آج کا مقطع
اتنا کیچڑ تھا محبت کا‘ ظفرؔ
پاؤں آلودہ ہیں اور ہاتھ خراب