تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     28-03-2013

ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خُدا رکھتے تھے!

ایک اور عہدِ سِتم ختم ہوا۔ ایک عجیب سی کیفیت ہے جو پورے مُلک میں پائی جاتی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اہل وطن اِس کیفیت سے دوچار ہیں یا سرشار! اُنہیں ایک بار پھر حکومت کی تشکیل میں مرکزی کردار ادا کرنے کا بھرپور ’’چانس‘‘ ملا ہے۔ گویا ایک بار پھر چانس کا سودا ہے! جمہوریت کے شُبھ نام پر تشکیل پانے والی حکومت کی میعاد ختم ہوئی تو فراقؔ گورکھ پوری یاد آئے۔ ایسے ہی موقع کے لیے اُنہوں نے کیا برمحل کہا ہے ع رُکی رُکی سی شب ہجر ختم پر آئی! جمہوریت کے نام پر قومی وسائل کی بندر بانٹ کا پنجسالہ منصوبہ ختم ہوا۔ اِس دوران ’’مثالی‘‘ پالیسیوں کے ہاتھوں دِل و دماغ پر جو کچھ گزری عوام اُسے بیان کرنے کے قابل بھی نہیں رہے! کِسی ایسے ہی موقع کے لیے میرزا نوشہ نے کہا تھا ع ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے! آمریت کے زیر سایہ متعارف کرائے جانے والے جمہوری دور میں عوام کرپشن کے ہاتھوں تنگ تھے۔ نام نہاد حقیقی جمہوریت وارد ہوئی تو عوام نے چاہا کہ کرپشن پر قابو پانے کے اقدامات کیے جائیں۔ مگر اقدامات کے نام پر جو کچھ کیا گیا اُس سے معاملہ مزید اُلجھ گیا۔ یعنی ع مَرض بڑھتا گیا جُوں جُوں دوا کی! جن سے اُمید تھی کہ اختیارات کے بے محابا استعمال سے باز رہیں گے اور اِس بار عوام کو کچھ نہ کچھ ضرور دیں گے اُنہوں نے ایسا اندھیر مچایا کہ راتوں رات سب کچھ اُن کے اختیارات کی حدود میں سِمٹ کر رہ گیا۔ لوگ انقلاب چاہتے تھے مگر یہ کیسا انقلاب تھا کہ راتوں رات، چُپکے چُپکے تمام وسائل اقتدار کے ایوانوں کا صدقہ اُتارنے پر صرف ہوگئے! شاید یہی وہ ’’انقلاب‘‘ تھا جس کی رفتار کے بارے میں فراقؔ گورکھ پوری نے کہا تھا: ع کِتنی آہستہ… اور کِتنی تیز! نواز شریف کے مینڈیٹ کی بساط لپیٹی گئی تو معاملات بگڑے ضرور مگر ایسے اندوہ ناک تو نہ تھے۔ نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر جو کچھ ہوا اُس نے البتہ زیادہ خرابیاں پیدا کریں۔ اِس جنگ کو ہمارے حکمرانوں نے مدعو کیا اور اپنے آنگن میں ٹھہرا لیا۔ اہل وطن کہتے ہی رہ گئے۔ ع تُجھ کو پرائی کیا پڑی، اپنی نبیڑ تو! مگر صاحب! سُننا جن کا مزاج ہو نہ مینڈیٹ وہ کِسی کی ایک نہیں سُنتے۔ پرویز مشرف کے دور میں خرابیاں اِس قدر بڑھیں کہ غُنچوں نے اپنی فریادوں میں بجلی کو پکارنا شروع کردیا! پھر یہ ہوا کہ آمریت کو، دیر ہی سے سہی، پاؤں چادر دیکھ کر پھیلانے کا خیال آیا! مگر یہ کیا؟ ع دِن گِنے جاتے تھے جس دِن کے لیے وہ دِن آیا تو لوگ اماوس کی رات کو یاد کرکے ٹھنڈی آہیں بھرنے لگے! لوگ حیران تھے کہ کِس جنجال پورے میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یا تو دُعا قبول نہیں ہوتی اور اگر ہوتی ہے تو اِس طرح کہ سانس لینا، ڈھنگ سے جینا دُوبھر ہو جاتا ہے! اُستاد قمرؔ جلالوی برمحل کہہ گئے ہیں۔ ؎ دُعا بہار کی مانگی تو اِتنے پُھول کِھلے کہیں جگہ نہ رہی میرے آشیانے کو! منتخب حکومت پر الزام عائد کیا جارہا ہے کہ اُس نے جاتے جاتے بھی بہتی گنگا میں اشنان کیا اور قومی خزانے کو لُوٹنے میں جو تھوڑی بہت کسر رہ گئی تھی وہ پوری کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ بھاگتے چور کی لنگوٹی تو کیا ہاتھ آتی، وہ تو صاحب خانہ کے کپڑے بھی لے بھاگا! مگر اِس پر حیرت کیسی؟ پانچ برسوں میں کوئی معاملہ سیدھا رہا ہے؟ تو پھر آخری دن کچھ بھی سیدھا کیوں ہوتا؟ ہوسکتا ہے قصور عوام کا ہو۔ اور ہوسکتا ہے کو چھوڑیے، عوام ہی کا قصور ہے کہ وہ جمہوریت کو ہضم کرنے کی صلاحیت رکھتے نہیں اور بار بار جمہوری ڈِش مانگ بیٹھتے ہیں! بُھوک لگے تو کچھ نہ کچھ پیٹ میں ضرور ڈالنا چاہیے مگر یہ بھی تو دیکھ لینا چاہیے کہ کیا اور کِتنا کھایا جاسکتا ہے! اب تو ہماری جمہوریت ایسی شکل اختیار کرگئی ہے کہ اُس کے لیے دُعا مانگتے وقت دِل لرزتا بھی رہتا ہے کہ اگر دُعا قبول ہوگئی تو کیا ہوگا! بقول جاذبؔ قریشی ؎ کیوں مانگ رہے ہو کِسی بارش کی دُعائیں تم اپنے شکستہ در و دیوار تو دیکھو! جمہوری حکومت کی میعاد ختم ہوئی۔ اب نئی میعاد کے لیے حکومت تشکیل دینے کی تیاریاں ہیں۔ سیاسی جماعتیں انتخابی معرکہ آرائی کے لیے پر تول رہی ہیں۔ خدا خدا کر کے نگراں سیٹ اپ کا مرحلہ طے ہوا ہے۔ اب ذرا سوچیے کہ دو ماہ کے سیٹ اپ کے لیے اِتنی سودے بازیاں ہوئی ہیں تو آئندہ پانچ برسوں تک ملک پر راج کرنے کے لیے کِتنے جوڑ توڑ ہو رہے ہوں گے، کِتنی سودے بازیاں کی جارہی ہوں گی! انتخابات کے شیڈول کا اعلان بھی ہو چکا ۔ ٹکٹوں کی تقسیم کا میلہ بھی لگ گیا فی الحال پارٹی بدلنے کا مقابلہ ہو رہا ہے۔ سب اپنے طور پر ہوا کا رُخ دیکھ کر زیادہ مضبوط پارٹی کی بس میں سوار ہو رہے ہیں۔ لگتا ہے ٹی وی چینلز کو بہت جلد چارٹ یا اسکور بورڈ متعارف کرانا پڑے گا تاکہ عوام کو یومیہ بنیاد پر معلوم ہوسکے کہ کون کِسی پارٹی میں ہے! جلسوں کی بہار ہے۔ وہی چہرے ہیں جو ہر جلسے میں دِکھائی دیتے ہیں۔ اِس پر حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ سیاسی جماعتیں بھی چند چہروں ہی کی بدولت چل رہی ہیں۔ جب سیاست دان صرف جیب بھرنے پر یقین رکھتے ہیں تو عوام کیوں نہ بھریں؟ وہ بھی دیہاڑی کے لیے جلسوں میں شریک ہوتے ہیں۔ مقررین جو سیاسی کھچڑی پیش کر رہے ہوتے ہیں اُسے بھول کر لوگ جلسہ گاہ کے کونے میں رکھی ہوئی بریانی کی دیگوں پر نظر رکھتے ہیں! جو طمع انسان کو سیاست میں لاتی ہے وہی طمع جلسہ گاہ میں بھی لاتی ہے! فرق صرف شِدّت کا ہے۔ جو کچھ طے کرنا ہے وہ اہل سیاست کرتے ہیں اور عوام صرف تماشائی کے کردار میں خوش رہتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ عوام بھی کچھ طے کریں۔ اور کچھ نہ سہی، اِتنا تو ہو تو کہ اِس بار عوام انتخاب کو احتساب میں تبدیل کردیں! جو لوگ ذرّہ بھر حیا کے بغیر قومی خزانہ ڈکارتے رہے ہیں کم از کم اُنہیں تو مسترد کردیا جائے، دُھتکار دیا جائے۔ ایک دوسرے کے کردار اور کرتوت بے لباس کرکے سیاست دانوں نے انتخاب کے معاملے میں ووٹرز کے لیے تھوڑی بہت آسانی کا اہتمام تو کر ہی دیا ہے۔ جمہوریت محض چانس نہیں، امتحان بھی ہے۔ بیلٹ پیپر ضمیر کی آزمائش ہے۔ تعصب کی پست سطح سے بلند ہوکر، نظریات اور اُصولوں کو اپنانا ہی ووٹرز کے لیے بہترین آپشن ہے۔ ووٹ صرف اُسے دیا جائے جو ہر اعتبار سے متعلقہ معیار پر پورا اترتا ہو، قوم کی حقیقی خدمت کا جذبہ اور صلاحیت رکھتے ہوں۔ جمہوریت کے بہت سے تقاضے بھی ہیں۔ محض ووٹ ڈال دینے سے حق ادا نہیں ہو جاتا۔ جمہوریت احتساب بھی چاہتی ہے۔ محض ووٹ ڈالنے سے جمہوریت کے درشن نہیں ہو جایا کرتے۔ اگر جمہور کا معدہ بہتر حالت میں نہ ہو تو جمہوریت بدہضمی کا سبب بھی بن جایا کرتی ہے۔ ؎ اِن بارشوں سے دوستی اچھی نہیں فرازؔ کچّا تِرا مکان ہے، کچھ تو خیال کر! حکمرانوں کے انتخاب میں مرکزی کردار ادا کرنا عوام کے لیے اُسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب وہ جمہوریت کے محض دیوانے نہ ہوں بلکہ شعور سے بھی کام لیں۔ ع ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میرؔ ہوئے کے مِصداق جمہوریت کی زُلفوں کا اسیر ہو رہنا کافی نہیں۔ اور میر تقی میرؔ کی طرح عطاّر کے لونڈے سے دوا لینے ہی پر اکتفا کرنا بھی درست نہیں، دوا کا استعمال بھی ناگزیر ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved