تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     21-06-2018

دل تو بنجر ہوئے ہی‘زمین بھی بنجر کرلی

کوئی ایک نوحہ ہو تو پڑھا جائے ‘ کوئی ایک مصیبت ہوتو حل ڈھونڈے کی سعی کی جائے ‘ کوئی ایک بری عادت ہو تو سدھارنے کی کوشش کی جائے ‘ یہاں تو مصیبتوں کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے ‘جس نے ہمیں اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے ‘لیکن ہمیں کیا جو بھی ہوتا ہے‘ ہوتا رہے اور نیرو بانسری بجاتا ر ہے۔ حضرت اقبالؔ کا شعر ہے:
خدا اگر دلِ فطرت شناس دے تجھ کو
سکوت لالہ و گل سے کلام پیدا کر 
حضرت اقبالؔ نے یہ شعرایسی سرزمین پر رہنے والوں کے لیے کہا ‘جہاں درختوں کی بہتات تھی ‘ جہاں رہنے و الے اپنے اردگرد موجود درختوں کو دیکھ کر مسکراتے ‘ ان سے باتیں کرتے ‘ ان کی حفاظت کرتے اور اس محبت کا صلہ درخت کیسے دیتے؟ وہ خود سے پیار کرنے والوں کو موسم کی سختیوں سے بچاتے ‘سیلاب روکتے ‘ شدید گرم موسم میں اپنے چاہنے والوں کے سر پر چھت بنتے ‘ اُن کے لیے زندگی کی ضامن آکسیجن فراہم کرتے‘ موت کا نقارہ بجانے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرکے فضا کو صاف ستھرا بنا تے ‘ زمین کے کٹاؤ کو روکتے ‘ زمین کی زرخیز مٹی کو باندھے رکھتے ‘ مویشیوں کے لئے چارہ مہیا کرتے ‘ زیر زمین پانی میں اضافہ کا باعث بنتے ‘ درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے میں مدد کرتے تھے۔یہی درخت جنگلی حیات کا مسکن تھے‘ حیاتیاتی تنوع کا موجب تھے‘ پہاڑوں میں لینڈ سلائیڈنگ کو روکتے ‘ فضائی آلودگی کو کشید کرتے ‘ شور کی آلودگی کوکم کرتے ‘ ہوا کی شدت کو کم کرتے اور خدا معلوم اپنے ارد گرد بسنے والوں کے لیے مزید کس کس طرح کے فوائد فراہم کرتے ۔ ہمیں تو بس اتنا پتہ ہے کہ جس طرح ہم نے اپنے دلوں کو بنجر بنا لیا ہے ‘اُسی طرح اپنی زمین بھی بنجر کر لی ہے۔
اب وہ بوڑھے بھی کہاں‘ جنہیں پودے لگاتے دیکھ کر کہا جاتا تھا کہ بابا جی جب تک یہ پودا تن آور درخت بنے گا ‘ تب تک تو آپ نہیں ہوں گے‘ تو جواب ملا کرتا تھا: میرے بڑوں نے درخت لگائے‘ جن کا پھل میں نے کھایا اور اب میں جو درخت لگا رہا ہوں‘اُن کا پھل آنے والی نسلیں کھائیں گی ۔اب تو یہ ہورہا ہے کہ جو درخت ہمارے بڑے بوڑھوں نے لگائے ‘ اُنہیں بھی زمین پر بوجھ سمجھ کر ایسے کاٹا جارہا ہے‘ جیسے یہ ثواب کا کا م ہو۔ 
شاید کسی بلا کا تھا سایہ درخت پر 
چڑیوں نے رات شور مچایا درخت پر 
بس پھر ہم نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور کاٹ ڈالا‘ اسے کہ نہ رہے گا درخت‘ نہ مچائیں گی‘ چڑیاں شور اور اسے بیچنے سے کچھ رقم بھی ہاتھ لگے گی۔نتیجہ یہ نکلا کہ فاریسٹ ریسورس کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صرف 3 فیصد رقبے پر جنگلات باقی بچے ہیں‘ جبکہ یہ کسی بھی ملک کے کم از کم پچیس فیصد رقبے پر ہونے چاہئیں ۔اس رپورٹ سے یہ اندازہ لگانا کیا مشکل ہے کہ صورتحال کتنی خراب ہے۔ آپ خود ہی دیکھ لیجئے‘ ہم اپنی زمین کے ساتھ کیا سلوک کررہے ہیں ؟کیسے کیسے حیلے بہانوں سے اسے برباد کر رہے ہیں۔ جیسے اب کوئی بھی ہمیں اس سے سرو کار نہیں۔ ہاں! البتہ ہماری زبانوں پر یہ ورد کثرت سے جاری ہے کہ ہم اپنے سر زمین سے بہت پیار کرتے ہیں۔اس کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے ۔ اس کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے والے کی آنکھ پھوڑ دیں گے‘ وغیرہ وغیرہ ۔ ہمیں بہرحال یہ حق حاصل ہے کہ ہم اس کے ساتھ جو چاہے سلوک کریں ‘ دوسری طرف ہمارے ہمسایہ ملک بھارت نے آج بھی چوبیس فیصد رقبے پر جنگلات کی موجودگی کو یقینی بنا رکھا ہے‘ تو دل کے بہلانے کو یہ کہنے میں بھی کیا مضائقہ ہے کہ اُس نے ہمارے درخت چرا کر اپنی زمین پر لگا لیے ہیں۔
چلئے اپنے رونے دھونے کو چھوڑ کر کچھ اُن کی ستائش ہی کرلیں ‘جنہوں نے اپنے ان دوستوں کی اہمیت کوسمجھا اور ان کی حفاظت کی اور اب ان کا پھل کھا رہے ہیں۔ بیل یونیورسٹی کے ٹامس کراؤتھ کو ہمیشہ سے ہی یہ فکر لگی رہتی تھی کہ یہ اندازہ لگایا جائے کہ اس روئے زمین پرکتنے درخت موجود ہیں؟ ذہن میں آئیڈیا آیا‘ تو اُس نے اپنے جیسے دوستوں کی ایک ٹیم تشکیل دی‘ جس کے بعد سیٹیلائٹ تصاویر کے ذریعے کیے جانے والے زمینی سروے کے بعد یہ نتیجہ نکالا کہ زمین پر اندازاً 30 کھرب درخت موجود ہیں۔ گویا اس زمین پر موجود ہرشخص کے حصے میں 420 درخت آتے ہیں‘ لیکن اسی ٹیم کی طرف سے یہ بھی بتایا گیا کہ دنیا بھر میں سالانہ قریباًپندرہ ارب درخت کاٹے جارہے ہیں ‘جس کے مقابلے میں صرف پانچ ارب درخت لگائے جارہے ہیں۔ مطلب یہ کہ درختوں کی اتنی بڑی تعداد کا زیادہ دیر تک اپنا وجود برقرار رکھنا آسان نہیں ہے۔ خصوصا ًہمارے جیسے ممالک میں جہاں صورتحال کو ہم نے اپنے منافع کے لیے اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ 2011ء میں کیے جانے والے سروے میں ہمارے ملک کے پانچ اعشاریہ ایک فیصد رقبے پر درخت موجود تھے ‘جو اب کم ہوکر صرف تین فیصد تک محدود ہوگئے ہیں۔ مطلب‘ پاکستان سالانہ 42 ہزار ہیکٹرز جنگلات سے محروم ہو رہا ہے اور ہوتا ہی چلا جارہا ہے ۔
دنیا بھر میں جنگلات کی صورتحال پر نظر رکھنے والا ایک جرمن ادارہ ہے‘ جسے عرف ِعام میں جرمن واچ تھینک ٹینک کا نام دیا جاتا ہے‘ جو خبردار کرتا ہے کہ پاکستان جس تیزی سے اپنی سرزمین کو بے شجر کررہاہے ‘ اُسی تیزی سے یہ ماحولیاتی عدم توازن کی طرف سے بڑھتا چلا جارہا ہے‘ جس کے نتائج کی ابتدا مو سمیاتی تغیرات کی صورت میں سامنے آنا شروع ہو چکی ہے ۔موسموں کا بدلتا انداز اور دورانیہ‘ بارشوں میں کمی اور گرمی کی شدت میں اضافہ‘ بڑھتا ہوا درجہ حرارت اورخشک سالی‘ دھند اور سموگ جیسے تغیرات نے اسے مستقل بنیادوں پر اپنی لپیٹ میں لینا شروع کردیا ہے‘ جس کے ساتھ ہوا اور پانی کی آلودگی‘ صحرا زدگی‘ حیاتیاتی تنوع میں کمی‘ زمینی کٹاؤ اور دریاؤں کے پانی کے ساتھ آنے والی مٹی جیسے دیگر چیلنجز بھی سامنے آرہے ہیں ‘جس کی بڑی اور بنیادی وجہ جنگلات کی کمی کے ساتھ ساتھ مستقل بنیادوں پر جنگلات کی کٹائی ہے ۔ 
اور یہ نوحہ کہاں تک پڑھا جائے کہ ہمارے کانوں پر کون سی جوں رینگنے والی ہے ۔ یقین جانیے یہ درخت نہیں کٹ رہے‘ ہماری زندگیوں کی ڈور کٹ رہی ہے۔ مطلب زندگی کی ڈورکاٹی بھی جارہی ہے اورشور بھی مچایا جارہا ہے ‘ خبردار یہ کیا ہورہا ہے ۔کہنے کو ایک سال میں دومرتبہ شجر کاری مہم بھی چلائی جاتی ہے‘ لیکن معلوم نہیں ‘ان کے نتائج کیوں برآمد نہیں ہوتے ؟ اور تو اور کے پی کے میں شروع کی جانے والی بلین ٹری مہم بھی لگتا ہے کہ کہیں چھٹیوں پر چلی گئی ہے۔ سو اب تو حکومتوں کو چھوڑ ہمیں خود ہی کچھ کرنا پڑے گا‘ جو ہم کریں گے نہیں‘ لیکن پھر بھی آپ کہتے ہیں‘ تو زنجیر ہلا دیتے ہیں ۔یہ صحیح ہے کہ بڑے پیمانے پر جنگلات لگانے کا کام تو حکومتیں ہی کرسکتی ہیں ‘لیکن ہم اتنا تو کرہی سکتے ہیں کہ اپنے ارد گرد‘ اگر کسی بڑے درخت کے لیے جگہ موجود ہو تو وہاں کیکر‘ ٹاہلی‘ بوہڑ‘ شہتوت‘ جامن کا کوئی بھی‘ کم از کم ایک درخت ہی لگا دیں۔اگر ان روایتی درختوں کے لیے جگہ نہ ہو تو کوئی پودا ہی لگا دیں ‘ صرف لگائیں نا‘ بلکہ اُس کی حفاظت بھی کریں‘اُسے اپنے بچوں کی طرح پالیں پوسیں اور اُسے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل بنائیں ۔ ایسا کریں گے‘ تو شاید ہم سے بھی کوئی پوچھ ہی لے کہ بابا جی یہ جو پودا آپ لگا رہے ہیں‘ اس کے تن آور درخت بننے تک شاید آپ تو نہیں ہوں گے اور ہم اپنے بڑوں کی طرح فخر سے یہ جواب دے سکیں کہ پتر میرے بڑوں نے جو درخت لگائے ‘ میں نے اُن کا پھل کھایا اور اب جو درخت میں لگا رہاہوں‘ ان کا پھل میرے بچے اور اُن کے بچے اور اُن کے بچے کھائیں گے ۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved