تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     22-06-2018

ابو بکر البغدادی کی افغانستان آمد

داعش کا پاکستان سے ملحقہ افغان صوبے ننگر ہار کو آہستہ آہستہ اپنے مضبوط گڑھ میں تبدیل کرناامریکہ اور افغانستان کیلئے پریشانی کا باعث کیوں نہیں بن رہا؟ عید کے دوسرے دن جلال آباد کے گورنر ہائوس کے سامنے ہونے والے بم دھماکے کی طالبان نے ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے‘ تو پھر یہ کون ہے‘ جس نے پاکستان کے نزدیک افغان صوبے میں دس افراد کو ہلاک اور بیس سے زائد کو زخمی کر دیا ہے؟ کبھی ننگر ہار تو کبھی جلال آباد میں دہشت گردی افغانستان سے زیادہ پاکستان کیلئے زیادہ تشویشناک ہے ‘کیونکہ خدشات ظاہر کئے جا رہے ہیں کہ داعش کے اگلے ٹارگٹ ایران اور پاکستان ہیں۔ یقینا آرمی چیف جنرل قمرباجوہ نے آئی ایس آئی چیف کے ہمراہ افغان صدر اشرف غنی اور عبد اﷲ عبد اﷲ سے ہونے والی اپنی حالیہ ملاقات میں اس اہم مسئلے کی جانب توجہ دلائی ہو گی‘کیونکہ آرمی چیف اور پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کو دنیا کی مشہور زمانہ کمپنی کے بے بی ٹالکم پائوڈر کی کانوں پر داعش کے کنٹرول اور اس کی یورپ اور امریکہ میں تجارت کا علم بھی ہو چکا ہو گا۔اور یہ بھی یقینا جانتے ہوں گے کہ داعش کو اگلے ٹارگٹ کیلئے ایران اور پاکستان کا اشارہ دیا جا چکا ہے۔ 
خلافت جیسے مقدس اور قابل ِاحترام منصب کی توہین کرتے ہوئے ‘عراق اور شام کو تباہ و برباد کرتا ہوا ابو بکر البغدادی (ہلاکو خان) کے روپ میں اپنے خالق امریکہ کے حکم سے اب پاکستان اور ایران کا رخ کرتا ہوا‘ داعش کا عفریت زدہ پرچم لہراتے ہوئے افغانستان پہنچ چکا ہے اور امریکی ڈرون حملے میں مولوی فضل اﷲ کی اپنے خاص ساتھیوں سمیت حالیہ ممکنہ ہلاکت اس کیلئے راستہ صاف کرنے کی علامت ہو سکتی ہے ‘تاکہ اس کے ساتھی داعش میں شامل ہو سکیں۔یہ حقیقت سامنے رکھیے کہ آج تک کسی بھی ذرائع سے یہ ثابت نہیں ہو سکا کہ ابو بکرالبغدادی کا عراق سے کسی بھی قسم کا کوئی تعلق ہے‘ نہ ہی اب تک اس کے والدین یا آبائو اجداد کی کسی بھی نسل کا عراق یا بغداد سے کوئی تعلق ثابت کیا جا سکا ہے ۔ ابو بکر البغدادی کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ وہ ایسی پر اسرار تخلیق ہے‘ جسے دنیا میں اسلام کی سب سے بڑی اور قدیم دشمن کی سرپرستی حاصل ہے۔ دوسرے لفظوں میں آپ سمجھ لیجئے کہ داعش ایسے یہودیوں اور صلیبیوں کی دریافت ہے‘ جنہوں نے اسے دور جدید کے کرنل لارنس آف عریبیہ کے روپ میں اسلامی ریا ستوں کو تباہ و برباد کرنے کیلئے خلافت کی چادر اوڑھا کر ہر مسلمان کو ڈسنے والے اژدھے کی شکل میںتیار کیا ہے۔ آج کے چنگیزخان اور ہلاکو خان کے روپ میں بغدادی کے داعش کے نام سے پکارا جانے والا لشکر مسلم ریاستوں کو تباہ و برباد کرتا ہوا افغان صوبے ننگر ہارکو مرکز بنا تے ہوئے ایران اور پاکستان کو عراق اور شام میں بدلنے کے مذموم مقاصد لئے ہوئے داعش کے زہر کو پاکستان بھر میں پھیلانے کیلئے سب سے پہلے ہراول دستے کے طور پر اس کی مدد کیلئے پشتون تحفظ موومنٹ کو آگے کیا گیا‘ تاکہ جہاں سے داعش نے قدم بڑھانا ہے‘ وہاں سے پاکستان کی فوج کے خلاف نفرت اور غصے کو لاوا بناتے ہوئے 'خام مال‘ کو اپنے جال میں پھنسایا جا سکے۔
عرب نیوز نے اپنی یکم اپریل کی اشاعت میں ایک رپورٹ کے حوالے سے لکھا تھا کہ افغانستان کے مشرقی صوبوں سے داعش کاایک گروپ پاکستان میں داخل ہو کر اس کیلئے مشکلات پیدا کر سکتا ہے اور دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے پاکستان میں قائم کئے جانے والے قومی ادارے نیکٹا کو چاہئے کہ اس کیلئے انٹرنیشنل کائونٹر ٹیرر ازم فورم سے فوری رجوع کرے۔ عرب نیوز نے اپنے نمائندے کے حوالے سے تین ماہ پہلے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ پاکستان میں داعش یا کوئی دوسرا دہشت گرد گروپ پہلے کی طرح اب اپنا محفوظ مرکز کہیں بھی نہیں بنا سکتا‘ لیکن اس سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا کہ افغانستان ان کیلئے بہترین پناہ گاہ ہے‘ جہاں سے بیٹھ کر داعش ارد گرد کے ممالک میں کارروائیاں کر سکتی ہے۔پریس ٹی وی کی 22 اپریل کی رپورٹ کے مطابق‘ اب یہ تسلیم کرتے ہوئے کسی کو شرم یا عار نہیں ہونا چاہئے کہ امریکہ اور مغربی ممالک سمیت نیٹو اور ایساف 17 سال تک کھربوں ڈالر اور سینکڑوں فوجی WAR ON TERROR کے نام پر جھونکنے کے بعد آج بھی وہیں کھڑے ہوئے ہیں‘ بلکہ طالبان کے علا وہ داعش پر مشتمل تکفیری گروہ بھی ان سب کے سامنے افغانستان میں آئے روز طاقت پکڑتا جا رہا ہے۔
عراق اور شام کے علا وہ مختلف ممالک اور ریا ستوں سے داعش کی نقل مکانی اسی لئے کروائی جا رہی ہے کہ داعش افغانستان میں امریکی اور بھارتی کارٹل کے سائے تلے محفوظ ہو گا اور یہاں سے ایشیائی ریاستوں سمیت ایران پاکستان اور روس میں کارروائیاں کی جاسکیں گی‘ لیکن اب جو آثار محسوس ہو رہے ہیں‘ ان سے لگتا ہے کہ ان کا ٹارگٹ ایران‘ پاکستان اور چین ہو گا‘ کیونکہ ایران اور پاکستان سے ان کیلئے خام مال بآسانی دستیاب ہو سکے گا اور داعش کو سب سے اہم ٹارگٹ سی پیک کا سونپا جائے گا‘ کیونکہ تحریک طالبان پاکستان اب امریکہ اور بھارت کیلئے ناکارہ اور کمزور ہو چکی ‘ اس لئے اس کے سینئر کمانڈرز جو داعش کی کمانڈ میں آنے سے ہچکچاہٹ محسوس کر رہے تھے‘ انہیں راستے سے صاف کر دیا گیا ہے ۔
Global Witness reportsکی نا قابل ِیقین رپورٹ کے مطابق داعش اپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے کسی بھی قسم کی دہشت گردی کے ذرائع استعمال کر سکتی ہے۔22 مئی کوTRT WORLD اور گلوبل وٹنس کے مطابق:
Daesh in Afghanistan trying to wrest control of talc mines from other armed groups in NANGAHAR ــ
اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ امریکہ سے پوشیدہ رہ سکتا ہے؟داعش اور طالبان کا سب سے بڑ ا فرق ہے کہ داعش اپنی کاروائیوں کی تشہیر کیلئے کہیں جیتے جاگتے انسانوں کو زمین میں دفن کر کے ان کے سروں میں بم نصب کردیتا ہے ‘تو کہیں کسی کو ذبح کرتے ہوئے مناظر دکھاتا ہے‘ جیسے گزشتہ ماہ پاکستان سے ملحقہ افغانستان کے صوبے ننگر ہار کے تین سگے بھائی جن میں سے ایک ڈاکٹر دوسرا ویکسین کمپنی کا ملازم اور تیسرا میڈیکل کا طالب علم تھا ‘ان کے سر قلم کرنے کی ویڈیو جاری کرتے ہوئے پورے افغانستان کو ہلا کر رکھ دیا۔ مقصد یہ تھا کہ داعش کی حکم عدولی اور اس کی دہشت کا تصور کرتے ہوئے کوئی ان کے آگے سر اٹھانے کا سوچ بھی نہ سکے۔ اب سوچئے کہ ننگر ہار اور اس صوبے کے اضلاع سے کوئی داعش کی مخبری یا اس میں شامل ہونے سے انکار کر نے کی ہمت کر سکتا ہے؟کیونکہ وہاں کی آبادی دیکھ رہی ہے کہ ننگر ہار میں داعش کی حکمرانی ہے افغانستان کی نہیں۔ اب ایک اہم سوال افغان حکومت کے سامنے اٹھایا جا سکتا ہے کہ آئے روز افغان طالبان کے ٹھکانوں پر آپ کی ائیر فورس بمباری کئے جا رہی ہے‘ تو کیا داعش کے ننگر ہار میں محفوظ ٹھکانوں تک پہنچنے کیلئے آپ کے جنگی جہازوں کے پر جلتے ہیں؟
کیا کسی طاقت نے یہ تصفیہ کروا دیا ہے کہ داعش صرف ننگر ہار تک محدود رہے گی‘ تاکہ وہاں سے بلوچستان اور گوادر میں اپنی تخریبی کارروائیوں کو کنٹرول کر سکے۔کیا ابو بکر البغدادی کی داعش امریکہ‘ افغانستان‘ نیٹو اور بھارت کے بغیر دہشت گردی کر سکتی ہے ۔

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved