تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     22-06-2018

حدود

سوچ رہا تھا کہ ' مٹھاس‘ اور خوبصورتی پر کالم لکھوں ۔ ذائقوں میں مٹھاس‘ اگر نہ ہوتی تو کیا ہوتا ؟اندازہ اس سے لگائیے کہ انسان کو جو ذائقہ سب سے زیادہ پسند آیا‘اس نے اسے 'میٹھا‘قرار دیا۔ رشتوں میں مٹھاس ‘اگر نہ ہوتی تو کیا ہوتا ۔ زندگی میں اگرخوبصورت چیزیں نہ ہوتیں‘ تو کیا ہوتا؟ خوبصورتی کا احساس ‘اگر نہ ہوتا؟پھر خیال آیا کہ حدود (Limits)پر لکھوں۔ حدود‘شاید زندگی کا سب سے زیادہ اہم موضوع ہے ۔ خوبصورتی آدم زاد کی کمزوری ہے ‘ جس کے گرد اس کی زندگی گھومتی ہے‘ لیکن حدود زندگی کی سب سے خوفناک حقیقت ہے ۔ہر آدم زاد کو ہمیشہ اس کا خیال رکھنا پڑتاہے ‘ورنہ وہ مارا جاتاہے ۔ ہر آدمی کو اپنے مرتبے‘ عہدے اور رشتے کے مطابق اپنی حدود کا تعین کر کے ان کے اندر رہنا ہوتاہے ۔ ذرا وہ باہر نکلا‘ خرابی شروع ۔ 
ہر رشتے کی حدود ہیں ۔ اندازہ لگائیے کہ ایک عورت ٹرے میں کھانا اٹھائے اپنے شوہر کے پاس جاتی ہے ۔ اس سے کہتی ہے ‘ کالو! کھانا کھا لو ۔ میاں بیوی کا رشتہ احترام کا متقاضی ہوتاہے ۔اس گستاخی کا انجام بہت برا ہو سکتاہے ۔ یہی عورت اپنے بھائی کو یہی الفاظ کہتی ہے ‘ کوئی خاص مسئلہ پیدا نہیں ہوتا ۔ بہن بھائی میں مذاق یا غصے میں ایسی بات کر دینا ‘کوئی بڑی بات نہیں ۔ 
مسئلہ یہ ہے کہ جب انسان کو کامیابی پر کامیابی ملتی ہے ۔ جب اسے طاقت‘ عہدہ اور مرتبہ ملتا ہے تو آہستہ آہستہ وہ اپنی حدود سے باہر نکلنے لگتاہے ۔ جتنی بڑی کامیابیاں ‘ اتنا زیادہ نشے کا احساس‘ اتنی زیادہ بے احتیاطی۔ اسے لگتا ہے کہ جیسے وہ ہر معرکہ سر کر سکتاہے ۔ وہ ہر آدمی کو ذلیل کر سکتاہے ۔ وہ سب کا مذاق اڑ اسکتاہے ۔ وہ سب کو اپنے سامنے جھکا سکتاہے ۔ 
طاقتور شخص جب مسکینوں کو دبانے لگتاہے اور اپنی اس طاقت کے بل پر مالی اور دوسرے فوائد حاصل کرنے لگتاہے ‘ جب ایک کے بعد دوسرے شخص کو وہ اپنے سامنے جھکا لیتاہے ‘تو پھر ایک نہ ایک دن وہ غلطی کر بیٹھتا ہے ۔ وہ ایک ایسے شخص کو چھیڑ دیتاہے ‘ جو بے خوف ہوتاہے ۔ ایک ایسا شخص جسے اپنی تباہی کا ڈر نہیں ہوتا۔ ایک ایسا شخص جو آخری سانس تک مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتاہے ۔ جو مسکین نہیں ہوتا ۔ طاقتور شخص چونکہ اپنی حدود سے قدم باہر نکال چکا ہوتا ہے ۔ اس لیے اس کی وکٹ اڑانا‘ اسے کلین بولڈ کرنا‘دلیر حریف کے لیے کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہوتا ۔ 
آپ کو ایسی مثالیں بہت سی مل جائیں گی ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ جب اجمل قصاب گرفتار ہوا تھا ‘تو کچھ میڈیا والے کیمرے اٹھائے پاکستان میں اس کے گائوں تک پہنچ گئے تھے ۔ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ وہ کتنی بڑی غلطی کرنے جا رہے ہیں ۔ یہی وہ وقت تھا‘ جب ان کے دشمنوں نے بھرپور حملہ کیا اور اس حماقت کی قیمت انہیں چکانا پڑی اور نہ جانے کب تک چکانا پڑے گی ۔ اس بھیانک غلطی کی وجہ یہ تھی کہ وہ لوگ اس وقت میڈیا میں سب سے زیادہ طاقتور تھے ۔ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ آج ان سے وہ فاش غلطی ہونے لگی ہے ‘ جس کے بعد ان کا یہ مقام ہمیشہ کے لیے چھن جائے گا ۔ 
آپ کو یاد ہوگا کہ سید منور حسن نے ایک دن ایک انٹر ویو میں یہ کہہ دیا تھا کہ پاک فوج کے سپاہی مقتول ہیں ‘ شہید نہیں ۔ یہ وہ لمحہ تھا ‘ جب انہوں نے اپنی حدود سے باہر قدم رکھ دیا تھا۔ عوام میں فوج کی شہادتوں کی وجہ سے اس سے محبت پیدا ہو چکی تھی ۔ یہ احساس پیدا ہوچکا تھا کہ اگر فوج نہ ہوتی تو پاکستان مستقل طور پر شام اور عراق ہی بنا رہتا۔ اگلے روز سپہ سالار نے خطاب کرتے ہوئے یہ کہا کہ ہزاروں شہیدوں کی تذلیل پر سید منور حسن قوم سے معافی مانگیں ۔ معافی تو انہوں نے نہیں مانگی‘ لیکن سیاست سے بالآخر ان کا بوریا بستر گول ہو گیا۔ وہ پارٹی الیکشن ہار گئے ۔ 
ڈان لیکس میں کیا ہوا تھا ۔ فوج مخالف قوتوں نے ایک منصوبہ بنایا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ وہ فوج کو جھکنے پر مجبور کر دیں گے ۔ ایک بار پھر عوام میں فوج کی مقبولیت کا اندازہ نہ کیا جا سکا۔وہ اپنی حدود سے باہر نکل چکے تھے ۔ انہیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس غلطی کے نتیجے میں حالات کا دھارا ان کے خلاف مڑ جائے گا۔جس چیز پر وہ فوج کو شرمندہ کرنا چاہ رہے تھے‘ الٹا اس پر انہیں خود وضاحتیں پیش کرنا پڑیں ۔ آج تک وہ اس غلطی کا‘اپنی حدوود سے باہر نکلنے کا خمیازہ بھگت رہے ہیں ۔ 
انہوں نے یہ غلطی کیوں کی ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ جب کچھ لوگ آپس میں ملتے ہیں اور اپنے حریف کے بارے میں بات کرتے ہیں‘ تو دعوے کرنے کا ایک ماحول بن جاتاہے ۔ ایک شخص کہتاہے کہ وہ میرے سامنے آئے‘ تو میں اسے اٹھا کر پھینک دوں ۔ دوسرا کہتا ہے کہ میں تو اسے گولی مار دوں ۔ یوں ایک ماحول بن جاتاہے ‘جس میں یہ سب دوست ایک دوسرے کو ہلہ شیری دیتے دیتے وہاں تک آجاتے ہیں ‘ زمینی حقائق جہاں نظر انداز ہونے لگتے ہیں ۔ وہ دشمن پر حملہ کرتے ہیں اور پھر انہیں اس کے نتائج بھگتنا پڑتے ہیں ۔ 
عالمی طاقتیں اپنی حدود سے باہر نکلتی ہیں ‘ زوال کا شکار ہوتی ہیں اور فنا ہو جاتی ہیں۔ جرمنی نے پوری دنیا پر حکومت کرنے کا خواب دیکھا ‘ کوشش کی اور تباہ ہوا۔ سویت یونین نے دنیا بھر میں اشتراکی انقلاب لانے کا خواب دیکھا۔ کئی ممالک میں اپنی من پسند حکومتیں بنوائیں ۔ آخر افغانستان پر چڑھائی ‘وہ ہولناک غلطی تھی ‘ جس میں وہ اپنی حدود سے باہر نکل چکا تھا۔ اس کے بعد عالمی برادری کے لیے پاکستان کی مدد سے اسے خاک چٹانا زیادہ مشکل ثابت نہیں ہوا۔امریکہ نے افغانستان سمیت کئی جگہوں پر پائوں اپنی حدود سے باہر نکالے۔ ایسا لگتاہے کہ امریکیوں کی عقل سلب ہو چکی ہے ۔ ایک متنازعہ شخص ‘بلکہ ایک پاگل اور مسخرے کو انہوں نے اپنا صدر بنایا‘ جو کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتاہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہ زوال کا شکار ہیں ۔ عالمی معاشی ماہرین کی رائے میں 2026ء میں چینی معیشت امریکہ کو پیچھے چھوڑ جائے گی ۔ 2000ء میں امریکی اور چینی معیشت کا تناسب 8اور 1کا تھا۔ آج امریکی معیشت چین کا صرف 1.5گنا ہے ۔ 
امریکہ نے جب افغانستان میں اپنی شکست کا ملبہ پاکستان پہ ڈالنے کا فیصلہ کیا۔ جب 2012ء میں سلالہ پر حملہ کر کے دو درجن پاکستانی فوجیوں کو شہید کر دیا گیا‘ تووہ ایک فاش غلطی کر رہا تھا ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سات ماہ تک نیٹو سپلائی معطل رہی اور معذرت کرنے کے لیے علاوہ اور کوئی راستہ امریکہ کے پاس موجود نہ تھا ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ عالمی طاقتیں بھی اپنی حدود کا تعین اپنی مرضی سے نہیں کر سکتیں ۔ 
ہر رشتے ، ہر عہدے اور ہر مرتبے کی حدود ہیں ۔ بطورِ کالم نگار میری بھی حدود ہیں۔ ان حدود سے ہم جب بھی میں باہر نکلوں گا‘ میرے حریف مجھے خاک چٹا دیں گے ۔مسئلہ یہ ہے کہ کامیابی کے نتیجے میں انسان کے دماغ میں ایسے کیمیکلز خارج ہونا شروع ہو جاتے ہیں ‘ جو اسے اپنی حدود فراموش کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں ۔ 
سب سے زیادہ دانا لوگ وہ ہوتے ہیں ‘ جو اپنی حدود جانتے اور ان کے اندر رہتے ہیں ۔ کیا آپ کو اپنی حدود معلوم ہیں یا آپ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہیں ؟

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved