تحریر : سہیل احمد قیصر تاریخ اشاعت     23-06-2018

دنیا کا مال دنیا میں رہ جانا ہے ؟

نہیں نہیں ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ دنیا کا مال دنیا میں ہی رہ جانا ہے ‘ یہ کسی نہ کسی طرح تو مرنے کے بعد بھی کام آتا ہی ہو گا‘ اگر یہ کام نہ آتا ہوتا تو پھر فراعین مصر کیوں اپنے مقبرے تیار کرنے کے بعد ان میں مال و دولت کے انبار جمع کرنے کے ساتھ ساتھ غلاموں ‘ کنیزوں اور سپاہیوں کی تعیناتی بھی عمل میں لاتے ‘تاکہ جب وہ مر جائیں تو یہ مال و دولت اُن کے کام آئے ‘ غلام اور کنیزیں ان کی خدمت اور سپاہی ان کی حفاظت کریں۔ تبھی تو جب فراعین کے مقابر دریافت ہوئے تو ان میں سے مال و زر کے وہ انبار برآمد ہوئے کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں چندھیا گئیں ۔سب سے مشہور فرعون مصر طوطن خامن کی بات تو چھوڑئیے‘ ایک غیرمعروف فرعون توت نخامون کا مقبرہ دریافت ہوا تو گویا ایک حیرت کدہ دیکھنے والوں کے سامنے آگیا‘ تقریبا ایک سو دس کلوگرام کے تابوت میں پڑی اس کی حنوط شدہ لاش‘اس کے ساتھ رکھے ہوئے قیمتی ہیرے جواہرات‘ پندرہ سے بیس کلوگرام کا ایک نقشِ مرگ ‘ایک طلائی کرسی ‘ طلائی پلنگ اور سونے سے بنی ہوئی چوکیاں اور نہ جانے کیا کچھ تھا جو جدید دنیا کے سامنے آیا۔اور تو اور سونے کی پتریوں سے بنی ہوئی ایک عبادت گاہ نے بھی دیکھنے والوں کو حیران کیا‘ گویا توت کو یقین کامل تھا کہ مرنے کے بعد جب وہ دوسری دنیا میں چلا جائے گا تو وہاں وہ آرام اور سکون سے عبادت کرسکے گا‘ مال ودولت خرچ کرے گا اور اپنی زندگی سکون اور آرام سے گذارے گا ۔ یہ تو صرف ایک معمولی سے فرعون کے مقبرہ کا احوال ہے ‘ اب طوطن خامن یا خوفو کے مقابر کا کیا حال سناؤں کہ جن کے لازوال اور فانی بننے کی خواہش کے باعث ہی اہرام وجود میں آئے‘ تو پھر اِن کے مقبروں میں مال و دولت کا کیا عالم ہوگا‘ تبھی تو انہوں نے آج بھی جدید دنیا کو حیران کررکھا ہے ۔
فروری 1258ء میں منگول افواج نے ہلاکو خان کی قیادت میں بغداد کو اپنے گھیرے میں لے رکھا تھا ‘ مزاحمت نے دم توڑا تو فصیل کے دروازے کھل گئے اور 37ویں عباسی خلیفہ معتصم باللہ نے اپنے وزرا اور امرا کے ہمرا ہلاکوخان کے سامنے ہتھیار پھینک دئیے۔ ہلاکو نے خلیفہ کے سوا تمام اشرافیہ کو وہیں تلوار کے گھاٹ اتار دیا اور منگول دستے ام البلاد بغداد میں داخل ہو گئے اور پھر جو کچھ بغداد میں ہوا وہ بقول مورخ عبداللہ وصاف شیرازی کے کچھ ایسا تھا ''وہ شہر میں بھوکے گدھوں کی طرح پھِر گئے ، اس طرح جیسے غضبناک بھیڑیے بھیڑوں پر ہِلہ بول دیتے ہیں،بستر اور تکیے چاقوؤں سے پھاڑ دیے گئے ،حرم کی عورتیں گلیوں میں گھسیٹی گئیں اور ان میں سے ہر ایک تاتاریوں کا کھلونا بن کر رہ گئی‘‘۔اندازہ ہے کہ دولاکھ سے آٹھ لاکھ افراد تک زندگیوں سے محروم کردئیے گئے ‘ بغداد کی گلیاں لاشوں سے اٹ گئیں‘ جن سے اٹھنے والی بدبو کے باعث ہلاکو کو شہر سے باہر خیمہ لگانا پڑا 'اور پھر خلیفہ کی باری بھی آگئی۔کہانیاں تو بہت سی ہیں لیکن ان سب میں سے قدرے بااعتماد بیان نصیرالدین طوسی کا سمجھا جاتا ہے جو ہلاکو کا وزیر تھا‘لکھتا ہے کہ خلیفہ کو چند دن بھوکا رکھنے کے بعد ہلاکو خان کے سامنے پیش کیاگیا اور اس کے سامنے ایک ڈھکا ہوا خوان لایا گیا، بھوکے خلیفہ نے بے تابی سے ڈھکن اُٹھایا تو دیکھا برتن ہیرے ‘جواہرات سے بھرا ہوا تھا‘ اسے کھاؤ‘ خلیفہ نے مجبوراً چند ایک جواہر منہ میں ڈالے لیکن فورا اگل دئیے ‘ کیسے کھاؤں؟ اگر تم نے ان ہیروں سے اپنے سپاہیوں کے لیے تلواریں اور تیر بنائے ہوتے ‘ اپنی فوج کو مضبوط کیا ہوتا تو میں کبھی دریا کو عبور نہ کرپاتا‘ ہلاکو نے کہا ‘اور پھر اس نے خلیفہ کو نمدوں میں لپیٹ کر اس کے اوپر گھوڑے دوڑا دئیے اور کہانی اپنے اختتام کو پہنچی ۔فراعین مصر تو زمانہ جاہلیت میں ہوتے تھے تو کیا 37ویں عباسی خلیفہ تک بھی یہ بات نہیں پہنچی تھی کہ مرنے کے بعد مال و دولت ساتھ نہیں جاتا ورنہ وہ یہ سب کچھ جمع کرنے کی بجائے اپنے عوام اور فوج پر خرچ کرتا۔ وہ تو اس کا خزانہ ہلاکو خان لوٹ کرلے گیا ورنہ یہ 37ویں عباسی خلیفہ کے کام ضرور آتا۔
1739ء میں ایرانی بادشاہ فاتحین ہند کی مشہور گذرگاہ درہ خیبر عبور کرکے ہندوستان میں داخل ہوگیا لیکن جب بھی مغل بادشاہ محمد شاہ رنگیلا کو نادرشاہی فوجوں کی پیش قدمی کے بارے میں بتایا جاتا تو جوا ب میں یہی کہتا کہ ہنوز دلی دور است، ابھی سے فکر کی کیا بات ہے ۔ نادر شاہ دہلی سے تقریباً ایک سو بائیس کلومیٹر دور رہ گیا تو مجبورا ًمغل شہنشاہ کو زندگی میں پہلی مرتبہ اپنی فوجوں کی قیادت کرنی پڑی اور شہنشاہ ایک لاکھ لڑاکا فوجیوں کا لشکرلے کر دہلی سے نکلا۔کرنال کے میدان میں 55ہزار ایرانی فوجیوں سے سامنا ہوا اور صرف تین گھنٹوں بعد محمد شاہ قیدی کی حیثیت سے نادر شاہ کے سامنے موجود تھا اور نادر شاہ فاتح دہلی کی حیثیت سے شہر میں داخل ہوگیا۔ چند دنوں بعد یہ افواہ پھیل گئی کہ نادرشاہ قتل ہوگیا ہے جس سے شہ پا کر چند ایرانی فوجیوں کو قتل کردیا گیا تو نادر شاہ نے اپنے فوجیوں کے قتل کا بدلہ کچھ یوں لیاکہ ایک صبح وہ اپنے گھوڑے پر سوار لال قلعے سے نکل آیا‘ زرہ بکتر سے ڈھکا بدن‘ سر پر آہنی خود اور کمر سے بندھی شمشیر کے ساتھ چاندنی چوک میں واقع روشن الدولہ کی مسجد کی سیڑھیوں پر پہنچنے کے بعد اس نے تلوار نیام سے نکال لی جو اشارہ تھا کہ دہلی والوں کو قتل عام شروع کیا جائے اورپھر ایک ہی دن میں تیس ہزار سے لے کر پچاس ہزار دہلی والے موت کے گھاٹ اُتار دئیے گئے ۔قتلِ عام رکا تو لوٹ مار کا بازار گرم ہوگیا۔شہر کو خالی کرنے کے بعد شاہی خزانے کی باری آئی جہاںموتی اور جواہرات شاید اس امید پر جمع کیے گئے تھے کہ مرنے کے بعد کام آئیں گے۔شاہی خزانے کی لوٹ مار کی رودادنادر شاہ کے درباری تاریخ نویس مرزا مہدی استرآبادی کی زبانی سن لیتے ہیں''شاہی خزانے میں سونے اور چاندی کی کانیں تھیں اور مال و زر کے انبار تھے‘ جہاں سے کروڑوں روپے نادر شاہی خزانے میں منتقل کیے گئے ،دربار کے امرا، نوابوں اور راجاؤں نے تاوان کی صورت مزید کئی کروڑ روپے نادرشاہ کی نذر کیے، ایک مہینے تک سینکڑوں مزدور سونے چاندی کے زیورات‘برتنوں اور دوسرے ساز و سامان کو پگھلا کر اینٹیں ڈھالتے رہے تاکہ انھیں ایران ڈھونے میں آسانی ہو‘‘۔ بات پھر وہی آجاتی ہے کہ شاید محمد شاہ رنگیلا کو بھی امید تھی کہ اس کا کچھ حصہ تو وہ ضرور اپنے ساتھ لے جائے گا اور پھر دوسری دنیا میں بھی عیش و عشرت کی زندگی بسر کرے گا ۔
2018ء میں آصف علی زرداری 6بلٹ پروف گاڑیوں کے مالک، ملک اور بیرون ملک ہزاروں ایکٹر زرعی اراضی،مختلف ممالک میں جائیدادیں، صرف مویشیوں کی مالیت نو کروڑ روپے سے زائد‘بلاول بھٹو کے پاس ملک میں بیس جائیدادیں‘مریم نواز شریف 84کروڑ روپے سے زائد کے اثاثوں کی مالکن‘ عمران خان کی بنی گالا کی رہائش کی مالیت گیارہ کروڑ روپے ظاہر کی گئی ہے‘ موصوف ایک سو اڑسٹھ ایکٹر زرعی اراضی کے بھی مالک ہیں جبکہ مختلف بینک اکاؤنٹس میں بھی رقوم موجود ہیں‘شہباز شریف نے اپنے اثاثوں کی مالیت پندرہ کروڑ روپے ظاہر کی ہے ‘میاں نواز شریف کے اس مرتبہ تو اثاثے سامنے نہیں آسکے البتہ 2013میں ان کی طرف سے جمع کرائے گئے گوشواروں کے مطابق ان کے اثاثے ایک ارب روپے سے قدرے زیادہ تھے ،ہائے ہائے ،اِس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا۔ چلیں اگر یہ مقتدر سیاستدان بضد ہیں کہ ان کے کل اثاثے بس یہی ہیں تو مان لیتے ہیں‘ لیکن پھر بھی معلوم نہیں یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ جینے کے لیے کھانی تو بس دو روٹیاں ہی ہوتی ہیں‘ تو پھر اتنا تردد کیوں‘ یا یہ کہ دنیا کا مال تو دنیا میں ہی رہ جانا ہے‘ ساتھ تو صرف نیک اعمال ہی جانے ہیں ۔ اور ہاں صرف سیاستدان ہی نہیں بلکہ جن کی بات کرتے ہوئے پر جلتے ہیں وہ بھی کسی سے کم نہیں ہیں‘ تو بس پھر یہی کہا جاسکتا ہے،،دنیا کا مال دنیا میں رہ جانا ہے ، سچی؟

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved