تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     24-06-2018

ایک ذہین قوم

نہایت ہی فطین ‘ مگر ذہنی طور پر الجھی ہوئی ایک قوم جو اپنی ترجیحات مرتب نہیں کر سکتی۔ جو نہیں جانتی کہ دشمن اس کا کون ہے اور محسن کون ۔ خود کو جس نے لیڈروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے... اور یہ مسخرے لیڈر اس کے مستقبل سے کھیل رہے ہیں۔
زندگی میں خوش قسمتی اور بد قسمتی نام کی شاید کوئی چیز نہیں ہوتی۔ دور اندیشی اور عاقبت نا اندیشی البتہ ضرور ہوتی ہے۔ افرادہوتے ہیںجو مسائل اور مجبوریوں کے ساتھ زندگی کی دوڑ میں داخل ہوتے ہیں۔ آخر کو مگر سرخرو اور سرفراز ہوجاتے ہیں۔ خوش حال گھرانوں میں صحت مند بچے جنم لیتے، بہترین اداروں میں تعلیم پاتے اور پروان چڑھتے ہیں۔لازم نہیں کہ ان کا انجام بھی اچھا ہو۔ اقوام ہیں جو جنگوں کی تباہ کاریوں اور آلام و مصائب سے گزری ہیں۔ ان کے شہر کھنڈرات ہو گئے مگر وہ اٹھ کھڑی ہوئیں۔ چند عشروں میں پھر سے معتبر اور معزز ہو گئیں۔
کسی قوم کے مستقبل کا انحصار اِس پر نہیں کہ کیسے اور کتنے بحران اسے در پیش ہیں بلکہ یہ کہ امتحان سے گزرنے میں ان کا انداز، فکر اور طرز عمل کیا ہے۔ صحت مندانہ طرز احساس اگر ایک موزوں اور مکمل تجزیے تک لے جائے تو پھر ایک ولولے اور ریاضت کے سوا کسی چیز کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مستقل مزاجی کے ساتھ چلتے چلے جانے والے منزل مراد کو پالیتے ہیں۔مبدأِ فیاض نے آدمی کو بے کراں صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ افراد یا اقوام ذہنی الجھاؤ کا شکار اگر نہ ہوں‘ کم ہمتی میں اگر مبتلا نہ ہو جائیں تو ہر آزمائش کامیابی کی ضمانت بن جاتی ہے۔ ابتلا انسانی صلاحیت اور استعداد کو بڑھا دیتی ہے۔
گزشتہ پانچ سات عشروں کی تاریخ ہی پر غور کر لیا جائے تو کتنے بے شمار سبق، اس میں پوشیدہ ہیں۔ 1981 ء میں ملائیشیا کی فی کس آمدن 50 ڈالر اور پاکستان کی 380 ڈالر تھی۔ بھارت کی 280 اور چین کی 180 ڈالر۔ ملائیشیا آج کہاں کھڑا ہے۔''ہندو شرحٔ ترقی‘‘ کا طعنہ سننے والا بھارت کس حال میں ہے۔ معاشی اعتبار سے‘ دنیا کی کمزور ترین اقوام میں شمار ہونے والے چین نے عالمی طاقت کا تاج کیسے پہنا... اور خود ہمارا وطن کس حال سے دو چار ہے۔ غور کرنے والوں کے لیے ہر چیز میں نشانیاں ہیں۔ ضد پر اڑے رہنے والے‘ اپنے ہی جذبات اور تعصبات کے صحرائوں میں جینے والے کچھ بھی نہیں سیکھ سکتے۔ تین ہزار برس پہلے کے بنی اسرائیل کی طرح ریگ زاروں میںبھٹکتے رہتے ہیں۔
جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود
کہ سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا
ڈاکٹر جاوید اقبال مرحوم بھلے آدمی تھے۔باایں ہمہ گاہے اپنے خیالات کی دنیا میں گم۔ ٹی وی کے ایک مباحثے میں ملائیشیا کی مثال دی تو ایک استاد کی بے نیازی کے ساتھ انہوں نے کہا: ترقی کے لیے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے‘ ملائیشیا کے پاس ہوں گے‘ پاکستان ان سے محروم ہے۔ ان کے مقام و مرتبے کو ملحوظ رکھتے ہوئے مودبانہ گزارش کی: ڈاکٹر صاحب! وسائل تو پاکستان کو میسر تھے۔ ملائیشیا ان سے محروم تھا۔ ربڑ اور پام آئل کے سوا اس کے پاس کیا تھا؟
انسانی صلاحیت کار گہِ حیات میں سب سے بڑی قوت ہے۔ اگر وہ منظم اور مرتب ہو سکے تو معجزے کر دکھاتی ہے۔ جاپان کے پاس تیل ہے اور نہ معدنیات۔ پھر وہ دنیا کی تیسری بڑی معاشی قوت کیسے بن سکا؟ تین عشرے ہوتے ہیں، پاکستان کا فوجی حکمران ابھرتے سورج کی سر زمین پہ اترا تو یہ سوال اس دیار کے مکینوں سے کیا۔ جواب یہ تھا: ہمارے وسائل محدود تھے۔ ترجیحی طور پر کسی ایک ہی میدان میں ہم جھونک سکتے تھے۔ ہم نے تعلیم کا انتخاب کیا۔ باقی تاریخ ہے۔
1990 کے عشرے میں ملائیشیا کے دورے پر جانے والے ایک پاکستانی ماہر تعمیرات نے ملائیشیا کے ایک مکین سے پوچھا۔ پاکستانیوں کی استعدادِ کار کے بارے میں اس کی رائے کیا ہے؟ اس نے کہا : ایک پاکستانی دو ملائیشین کے برابر ہوتا ہے۔ بشاشت کے ساتھ ایک نے شکریہ ادا کیا تو میزبان ملک کے شہری نے کہا: رکو رکو‘ میری بات ابھی مکمل نہیں ہوئی۔ دو پاکستانیوں کی تگ و تاز کا نتیجہ آدھے ملائیشین کے برابر ہوتا ہے۔ پھر یہی سوال اس نے ایک ٹیکسی ڈرائیور سے کیا۔ وہ انگریزی میں رواں نہ تھا۔ ایسی بات مگر اس نے کہی کہ ایک پوری کتاب کو ایک لفظ کی تکرار میں سمیٹ دیا ''ٹریننگ ٹریننگ اور ٹریننگ‘‘۔
زمانہ بدلتا رہتا ہے اور اس کے تقاضے بھی۔ کبھی ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی معیشت تھا۔ قدیم ادوار سے لے کر ، اٹھارہویں اور انیسویں صدی تک ۔ 1801ء میں دنیا کی کل آمدن کا 25 فیصد برصغیر میں پیدا ہوا کرتا ۔ رفتہ رفتہ صنعتی انقلاب نے زندگی کو بدل ڈالا۔ کبھی دنیا بھر کی اقوام گنگا جمنا اور دریائے سندھ کی وادی کے لئے اس سر زمین کی طرف لپکتی چلی آیا کرتیں۔ اب صنعتی زندگی میں بہت پیچھے ہونے کے باوجود، خود ہمارے ہاں زراعت کا حصہ 22 فیصد سے زیادہ نہیں۔ صنعت کے میدان میں فیلڈ مارشل ایوب خان کے بعد کوئی قابل ذکر کارنامہ ہم انجام نہ دے سکے۔ سستی بجلی پیدا کرنے والے منگلا اور تربیلا ڈیم اسی دور میں تعمیر ہوئے۔ عصر حاضر کے شیر شاہ سوری کے برعکس ایوب خان نے کبھی یہ نہ کہا: تمہارے لیے سینکڑوں ارب روپے کی میں نے بچت کی ہے۔ پاکستانی قوم کو میرا احسان مند ہونا چاہئے۔ میری اطاعت کا جواء اپنی گردن میں ڈال لینا چاہیے۔ آنے والی میری نسلوں کو اقتدار عطا کرنا چاہئے۔ 
یہ ذوالفقار علی بھٹو نے کہا ، جو جنرل ایوب خان سے کہیں زیادہ ذہین تھے۔ جن کی ذکاوت کے گُن آج بھی گائے جاتے ہیں۔ بھٹو کے بعد ، بے نظیر بھٹو، بے نظیر کے بعد آصف علی زرداری اور آصف علی زرداری کے بعد بلاول بھٹو ۔ کب تک یہ قوم اس فطانت کا قرض چکاتی رہے گی، جس نے بربادی زیادہ پھیلائی اور تعمیر کم۔ خیر‘ بھٹو تو ایٹمی پروگرام کے بانی تھے، ایک متفقہ دستور انہوں نے مرتب کیا۔ عام پاکستانیوں پر سمندر پارکے دروازے چوپٹ کھول دیئے، جن کی ترسیلات، فصل اجاڑنے والے حکمرانوں کی شاہ خرچیوں کے ہنگام، سب سے بڑا سہارا ہیں۔ شریف خاندان بھی بادشاہت کا مدعی ہے۔ عالمی اداروں کے مطابق دنیا کے دس عدد‘ سب سے زیادہ بدعنوان خاندانوں میں سے ایک۔ میاں محمد نواز شریف کی خواہش یہ ہے کہ ان کی لافانی خدمات کے صلے میں اقتدار کا ہما اب ان کی نورِ نظر کے سر پر بیٹھنا چاہئے۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان نے سپریم کورٹ کو بتایا ہے کہ امسال قانونی طور پر 15 ارب ڈالر ملک سے باہر بھیجے گئے۔ اسی دوران 10 ارب ڈالر غیر قانونی طور پر۔ یہ تقریباً ایسا ہی ہے، جیسے صحرا میں سفر کرنے والے ایک پیاسے مسافر کی چھاگل سے آدھا پانی چرا لیا جائے۔ ایک ایک ڈالر کی اس ملک کو ضرورت ہے... اور ایک ایک ڈالر چرایا جا رہا ہے۔ خود شریف خاندان نے اربوں روپے ملک سے باہر منتقل کئے ہیں۔ اور ان کے حریف زرداری خاندان نے بھی ، جو دراصل ان کا حلیف ہے۔ ماہِ گزشتہ جناب نجم سیٹھی کے گھر پہ نواز شریف اور آصف علی زرداری کی ایک ملاقات میں بہت کچھ طے پا چکا۔ کوئی قوم اپنی معیشت میں مستقل طور پہ سوراخ گوارا نہیں کر سکتی ہے۔ یہ اعزاز اسی قوم کو حاصل ہے۔ صرف پاکستان ہی میں اس قماش کے دانشور پائے جاتے ہیں، اس کے باوجود شریفوں کو جو ملک کا محسن قرار دینے پہ مصر ہیں۔
نہایت ہی فطین ‘ مگر ذہنی طور پر الجھی ہوئی ایک قوم جو اپنی ترجیحات مرتب نہیں کر سکتی۔ جو نہیں جانتی کہ دشمن اس کا کون ہے اور محسن کون ۔ خود کو جس نے لیڈروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے... اور یہ مسخرے لیڈر اس کے مستقبل سے کھیل رہے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved